وعن عبد الله بن الحارث بن جزء قال: ما رايت احدا اكثر تبسما من رسول الله صلى الله عليه وسلم رواه الترمذي وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3641) ٭ عبد الله بن لھيعة حدّث به قبل اختلاطه و لکنه مدلس و عنعن فالسند ضعيف و حديث الترمذي (3642) يغني عنه.»
وعن عبد الله بن سلام قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس يتحدث يكثر ان يرفع طرفه إلى السماء. رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ يَتَحَدَّثُ يُكْثِرُ أَنْ يَرْفَعَ طَرْفَهُ إِلَى السَّمَاء. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گفتگو فرمانے کے لیے بیٹھتے تو آپ (نزول وحی کے انتظار میں) آسمان کی طرف بہت دیکھتے تھے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4837) ٭ محمد بن إسحاق مدلس و عنعن، إلا في رواية سفيان بن وکيع (ضعيف) عن يونس بن بکير به فالسند معلل.»
عن عمرو بن سعيد عن انس قال: ما رايت احدا كان ارحم بالعيال من رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إبراهيم ابنه مسترضعا في عوالي المدينة فكان ينطلق ونحن معه فيدخل البيت وإنه ليدخن وكان ظئره قينا فياخذه فيقبله ثم يرجع. قال عمرو: فلما توفي إبراهيم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن إبراهيم ابني وإنه مات في الثدي وإن له لظئرين تكملان رضاعه في الجنة» . رواه مسلم عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَرْحَمَ بِالْعِيَالِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُهُ مُسْتَرْضَعًا فِي عَوَالِي الْمَدِينَةِ فَكَانَ يَنْطَلِقُ وَنَحْنُ مَعَهُ فَيَدْخُلُ الْبَيْتَ وَإِنَّهُ لَيُدَّخَنُ وَكَانَ ظِئْرُهُ قَيْنًا فَيَأْخُذُهُ فَيُقَبِّلُهُ ثُمَّ يَرْجِعُ. قَالَ عَمْرٌو: فَلَمَّا تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ إِبْرَاهِيمَ ابْنِي وَإِنَّهُ مَاتَ فِي الثَّدْيِ وَإِنَّ لَهُ لَظِئْرَيْنِ تُكْمِلَانِ رَضَاعَهُ فِي الْجَنَّةِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
عمرو بن سعید، انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے بچوں کے ساتھ مہربان نہیں دیکھا، آپ کے بیٹے ابراہیم مدینے کے دیہات میں زیر رضاعت تھے، آپ (وہاں) تشریف لے جایا کرتے تھے، ہم بھی آپ کے ساتھ ہوتے تھے، آپ اس گھر میں داخل ہو جاتے، اس میں دھواں ہوتا تھا، کیونکہ ابراہیم کی دایہ کا شوہر لوہار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے پکڑتے اس کا بوسہ لیتے اور پھر واپس آ جاتے تھے۔ عمرو بیان کرتے ہیں، جب ابراہیم فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرا بیٹا ابراہیم چونکہ شیر خوارگی کے عالم میں فوت ہوا ہے اس لئے جنت میں اس کے لیے دو دایہ ہیں جو مدت رضاعت مکمل کریں گی۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (63/ 2316)»
وعن علي ان يهوديا يقال له: فلان حبر كان له على رسول الله صلى الله عليه وسلم في دنانير فتقاضى النبي صلى الله عليه وسلم فقال له: «يا يهودي ما عندي ما اعطيك» . قال: فإني لا افارقك يا محمد حتى تعطيني. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا اجلس معك» فجلس معه فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر والمغرب والعشاء الآخرة والغداة وكان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتهددونه ويتوعدونه ففطن رسول الله صلى الله عليه وسلم ما الذي يصنعون به. فقالوا: يا رسول الله يهودي يحبسك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «منعني ربي ان اظلم معاهدا وغيره» فلما ترجل النهار قال اليهودي: اشهد ان لا إله إلا الله واشهد انك رسول الله وشطر مالي في سبيل الله اما والله ما فعلت بك الذي فعلت بك إلا لانظر إلى نعتك في التوراة: محمد بن عبد الله مولده بمكة ومهاجره بطيبة وملكه بالشام ليس بفظ ولا غليظ ولا سخاب في الاسواق ولا متزي بالفحش ولا قول الخنا اشهد ان لا إله إلا الله وانك رسول الله وهذا مالي فاحكم فيه بما اراك الله وكان اليهودي كثير المال. رواه البيهقي في «دلائل النبوة» وَعَن عَليّ أَنَّ يهوديّاً يُقَالُ لَهُ: فُلَانٌ حَبْرٌ كَانَ لَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَنَانِيرُ فَتَقَاضَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: «يَا يَهُودِيُّ مَا عِنْدِي مَا أُعْطِيكَ» . قَالَ: فَإِنِّي لَا أُفَارِقُكَ يَا مُحَمَّدُ حَتَّى تُعْطِيَنِي. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذًا أَجْلِسُ مَعَكَ» فَجَلَسَ مَعَهُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ الْآخِرَةَ وَالْغَدَاةَ وَكَانَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَدَّدُونَهُ وَيَتَوَعَّدُونَهُ فَفَطِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا الَّذِي يَصْنَعُونَ بِهِ. فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَهُودِيٌّ يَحْبِسُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنَعَنِي رَبِّي أَنْ أَظْلِمَ مُعَاهِدًا وَغَيْرَهُ» فَلَمَّا تَرَجَّلَ النَّهَارُ قَالَ الْيَهُودِيُّ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ وَشَطْرُ مَالِي فِي سبيلِ الله أَمَا وَاللَّهِ مَا فَعَلْتُ بِكَ الَّذِي فَعَلْتُ بِكَ إِلَّا لِأَنْظُرَ إِلَى نَعْتِكَ فِي التَّوْرَاةِ: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلِدُهُ بِمَكَّةَ وَمُهَاجَرُهُ بِطَيْبَةَ وَمُلْكُهُ بِالشَّامِ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا مُتَزَيٍّ بِالْفُحْشِ وَلَا قَوْلِ الْخَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ وَهَذَا مَالِي فَاحْكُمْ فِيهِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَكَانَ الْيَهُودِيُّ كَثِيرَ المالِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي «دَلَائِل النُّبُوَّة»
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فلاں نام سے موسوم ایک یہودی عالم تھا، اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کچھ دینار قرض تھا، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تقاضا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”یہودی! تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں۔ “ اس نے کہا: محمد! میں تو لے کر ہی یہاں سے ہلوں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا پھر میں تمہارے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں۔ “ آپ اس کے ساتھ بیٹھ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نماز اس کے ساتھ ادا کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ اسے ڈراتے دھمکاتے رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحابہ کرام کے اس عمل کی اطلاع ہو گئی، تو انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ایک یہودی نے آپ کو روک رکھا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے رب نے کسی ذمی وغیرہ پر ظلم کرنے سے مجھے منع فرمایا ہے۔ “ جب سورج بلند ہوا (دن چڑھا) تو اس یہودی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ میرا نصف مال اللہ کی راہ میں وقف ہے؟ سن لو، اللہ کی قسم! میں نے آپ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ محض اس لیے کیا تا کہ میں تورات میں آپ کا مذکورہ تعارف دیکھ سکوں، محمد بن عبداللہ ان کی جائے پیدائش مکہ، دارِ ہجرت طیبہ (مدینہ منورہ)، ان کی سلطنت شام تک، وہ بد زبان ہیں نہ سخت دل اور نہ ہی بازاروں میں شور و غل کرنے والے ہیں، وہ فحش پوش ہیں نہ فحش گو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ مال ہے آپ اللہ کے احکامات کی روشنی میں اس میں جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں، اور یہودی بہت زیادہ مال دار تھا۔ اسنادہ موضوع، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده موضوع، رواه البيھقي في دلائل النبوة (6/ 280) ٭ فيه محمد بن محمد بن الأشعث: کذاب، وضع نسخة أھل البيت (انظر لسان الميزان 409/5 وغيره) و ھذا من وضعه لأنه تفرد به.»
وعن عبد الله بن ابي اوفى قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر الذكر ويقل اللغو ويطيل الصلاة ويقصر الخطبة ولا يانف ان يمشي مع الارملة والمسكين فيقضي الحاجة. رواه النسائي والدارمي وَعَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ الذِّكْرَ وَيُقِلُّ اللَّغْوَ وَيُطِيلُ الصَّلَاةَ وَيُقْصِرُ الْخُطْبَةَ وَلَا يَأْنَفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الْأَرْمَلَةِ والمسكين فَيَقْضِي الْحَاجة. رَوَاهُ النَّسَائِيّ والدارمي
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذکر کثرت سے کیا کرتے تھے، بے مقصد بات بہت ہی کم کیا کرتے تھے، نماز (خاص طور پر جمعہ کی نماز) لمبی پڑھا کرتے تھے۔ خطبہ مختصر دیا کرتے تھے، آپ بیواؤں اور مساکین کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے اور آپ ان کے کام کرتے اور ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ النسائی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه النسائي (108/3. 109 ح 1415) و الدارمي (1/ 35 ح 75)»
وعن علي ان ابا جهل قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إنا لا نكذبك ولكن نكذب بما جئت به فانزل الله تعالى فيهم: [فإنهم لا يكذبونك ولكن الظالمين بآيات الله يجحدون] رواه الترمذي وَعَنْ عَلِيٍّ أَنَّ أَبَا جَهْلٍ قَالَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: إنَّا لَا نُكذِّبكَ ولكنْ نكذِّبُ بِمَا جئتَ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِمْ: [فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ ولكنَّ الظالمينَ بآياتِ اللَّهِ يَجْحَدونَ] رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: ہم آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ ہم تو اس چیز کی تکذیب کرتے ہیں، جو آپ لے کر آئے ہیں، تب اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: ”یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے، بلکہ ظالم لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3064) ٭ أبو إسحاق مدلس و عنعن.»
وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عائشة لو شئت لسارت معي جبال الذهب جاءني ملك وإن حجزته لتساوي الكعبة فقال: إن ربك يقرا عليك السلام ويقول: إن شئت نبيا عبدا وإن شئت نبيا ملكا فنظرت إلى جبريل عليه السلام فاشار إلي ان ضع نفسك وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ لَوْ شِئْتُ لَسَارَتْ مَعِي جِبَالُ الذَّهَبِ جَاءَنِي مَلَكٌ وَإِنَّ حُجْزَتَهُ لَتُسَاوِي الْكَعْبَةَ فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَيَقُولُ: إِنْ شِئْتَ نَبِيًّا عَبْدًا وَإِنْ شِئْتَ نَبِيًّا مَلِكًا فَنَظَرْتُ إِلَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَأَشَارَ إِلَيَّ أَنْ ضَعْ نَفْسَكَ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! اگر میں چاہوں تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلیں، ایک فرشتہ میرے پاس آیا، اس کی کمر (کی چوڑائی) کعبہ (کے طول) کے برابر تھی، اس نے (آ کر) کہا: تمہارا رب تمہیں سلام کہتا ہے، اور وہ کہتا ہے: اگر آپ چاہیں تو آپ کو عابد نبی بنا دیتے ہیں اور اگر آپ پسند فرمائیں تو آپ کو بادشاہ پیغمبر بنا دیتے ہیں، میں نے جبریل ؑ کی طرف دیکھا تو انہوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ اپنے آپ کو پست و عاجز رکھو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (13/ 247. 248 ح 3683) ٭ فيه أبو معشر نجيح: ضعيف، و لحديثه شواھد ضعيفة.»
وفي رواية ابن عباس: فالتفت رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جبريل كالمستشير له فاشار جبريل بيده ان تواضع. فقلت: «نبيا عبدا» قالت: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك لا ياكل متكا يقول: «آكل كما ياكل العبد واجلس كما يجلس العبد» رواه في «شرح السنة» وَفِي رِوَايَة ابْن عبَّاسٍ: فَالْتَفَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِبْرِيلَ كَالْمُسْتَشِيرِ لَهُ فَأَشَارَ جِبْرِيلُ بِيَدِهِ أَنْ تَوَاضَعْ. فَقُلْتُ: «نَبِيًّا عَبْدًا» قَالَتْ: فَكَانَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ ذَلِكَ لَا يَأْكُلُ متكأ يَقُولُ: «آكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ وَأَجْلِسُ كَمَا يَجْلِسُ العبدُ» رَوَاهُ فِي «شرح السّنة»
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل ؑ کی طرف دیکھا جیسے آپ ان سے مشورہ کر رہے ہیں، جبریل ؑ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آپ تواضع اختیار کریں، میں نے کہا: میں عبادت گزار نبی بننا پسند کرتا ہوں۔ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگا کر نہیں کھایا کرتے تھے، اور فرمایا کرتے تھے: ”میں ایسے کھاؤں گا، جیسے (عام) بندہ، کھاتا ہے، اور میں ایسے بیٹھوں گا، جیسے بندہ بیٹھتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (13/ 248. 249 ح 3684) [و أبو الشيخ في أخلاق النبيﷺ (ص198)] ٭ بقية لم يصرح بالسماع و الزھري مدلس و عنعن و محمد بن علي بن عبد الله بن عباس: لم يسمع من جده.»
عن ابن عباس قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم لاربعين سنة فمكث بمكة ثلاث عشرة سنة يوحى إليه ثم امر بالهجرة فهاجر عشر سنين ومات وهو ابن ثلاث وستين سنة. متفق عليه عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعِينَ سَنَةً فَمَكَثَ بِمَكَّةَ ثلاثَ عَشْرَةَ سَنَةً يُوحَى إِلَيْهِ ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فهاجرَ عشر سِنِينَ وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث کیا گیا، آپ (نبوت کے) تیرہ سال مکے میں رہے اور آپ پر وحی آتی رہی، پھر آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا تو آپ نے ہجرت کے دس سال (مدینے میں) قیام فرمایا، اور آپ نے تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3903، 3851) و مسلم (118، 117 / 2351)»
وعنه قال: اقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة خمس عشرة سنة يسمع الصوت ويرى الضوء سبع سنين ولا يرى شيئا وثمان سنين يوحى إليه واقام بالمدينة عشرا وتوفي وهو ابن خمس وستين. متفق عليه وَعَنْهُ قَالَ: أَقَامَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً يَسْمَعُ الصَّوْتَ وَيَرَى الضَّوْءَ سَبْعَ سِنِينَ وَلَا يَرَى شَيْئًا وَثَمَانِ سِنِينَ يُوحَى إِلَيْهِ وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں پندرہ برس رہے، آپ سات سال تک آواز سنتے اور روشنی دیکھتے رہے، اور (اس کے علاوہ) آپ کوئی چیز نہیں دیکھتے تھے، اور آٹھ سال آپ کی طرف وحی آتی رہی، آپ نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا: اور پینسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (لم أجده) و مسلم (123، 122/ 2353)»