وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان لنا ستر فيه تماثيل طير فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عائشة حوليه فإني إذا رايته ذكرت الدنيا وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ لَنَا سِتْرٌ فِيهِ تَمَاثِيلُ طَيْرٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ حوِّليه فإِني إِذا رَأَيْته ذكرت الدُّنْيَا
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، ہمارا ایک پردہ تھا جس میں پرندوں کی تصویریں تھیں (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! اسے بدل ڈالو، کیونکہ جب میں اسے دیکھتا ہوں تو میں دنیا یاد کرتا ہوں (مجھے دنیا یاد آ جاتی ہے)۔ “ صحیح، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (6/ 241 ح 26571) [و مسلم (2107/88)]»
وعن ابي ايوب الانصاري رضي الله عنه قال: جاء رحل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: عظني واوجز. فقال: «إذا قمت في صلاتك فصل صلاة مودع ولا تكلم بكلام تعذر منه غدا واجمع الإياس مما في ايدي الناس» وَعَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ رَحل إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: عِظْنِي وَأَوْجِزْ. فَقَالَ: «إِذَا قُمْتَ فِي صَلَاتِكَ فَصَلِّ صَلَاةَ مُوَدِّعٍ وَلَا تَكَلَّمْ بِكَلَامٍ تَعْذِرُ مِنْهُ غَدًا وَأَجْمِعِ الْإِيَاسَ مِمَّا فِي أَيْدِي النَّاس»
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا، مجھے مختصر سی وصیت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو نماز پڑھے تو ایسے پڑھ جیسے الوداعی نماز ہو، ایسی بات نہ کر جس کی وجہ سے کل معذرت کرنی پڑے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے مکمل طور پر ناامید اور لاتعلق ہو جا۔ “ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه أحمد (5/ 412 ح 23894) [و ابن ماجه (4171 وسنده ضعيف)] ٭ عثمان بن جبير مجھول الحال و للحديث شواھد ضعيفة.»
وعن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن خرج معه رسول الله صلى الله عليه وسلم يوصيه ومعاذ راكب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي تحت راحلته فلما فرغ قال: يا معاذ إنك عسى ان لا تلقاني بعد عامي هذا ولعلك ان تمر بمسجدي هذا وقبري فبكى معاذ جشعا لفراق رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم التفت فاقبل بوجهه نحو المدينة فقال: «إن اولى الناس بي المتقون من كانوا وحيث كانوا» روى الاحاديث الاربعة احمد وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِيهِ وَمُعَاذٌ رَاكِبٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي تَحْتَ رَاحِلَتِهِ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: يَا مُعَاذُ إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا وَلَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي هَذَا وَقَبْرِي فَبَكَى مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ نَحْوَ الْمَدِينَةِ فَقَالَ: «إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِيَ الْمُتَّقُونَ مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا» رَوَى الْأَحَادِيث الْأَرْبَعَة أَحْمد
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یمن کی طرف مبعوث فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے وصیت کرنے کے لیے اس کے ساتھ باہر تشریف لائے اس وقت معاذ رضی اللہ عنہ سوار تھے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: ”معاذ ممکن ہے کہ تم اس سال کے بعد مجھ سے ملاقات نہ کر سکو، شاید کہ تم میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو۔ “ معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کی وجہ سے گھبرا کر رونے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی طرف رخ پھیر کر فرمایا: ”متقی لوگ میری قرابت و شفاعت کے زیادہ حق دار ہیں وہ جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔ “ چاروں احادیث امام احمد نے روایت کی ہیں۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (5/ 235 ح 22402) [و ابن حبان (الإحسان: 1647)]»
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: (فمن يرد الله ان يهديه يشرح صدره للإسلام) فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن النور إذا دخل الصدر انفسح» . فقيل: يا رسول الله هل لتلك من علم يعرف به؟ قال: «نعم التجافي من دار الغرور والإنابة إلى دار الخلود والاستعداد للموت قبل نزوله» وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ) فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ النُّورَ إِذَا دَخَلَ الصَّدْرَ انْفَسَحَ» . فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ لِتِلْكَ مِنْ عِلْمٍ يُعْرَفُ بِهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ التَّجَافِي مِنْ دَارِ الْغُرُورِ وَالْإِنَابَةُ إِلَى دَارِ الْخُلُودِ وَالِاسْتِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قبل نُزُوله»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”اللہ جسے ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نور جب سینے میں داخل ہو جاتا ہے تو سینہ کھل جاتا ہے۔ “ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا اس کی کوئی علامت بھی ہے جس کے ذریعے اس کا پتہ چل سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، دھوکے کے گھر (دنیا) سے دوری، ہمیشہ کے گھر (آخرت) کی طرف رجوع اور موت آنے سے پہلے موت کی تیاری۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10552، نسخة محققة: 10068) ٭ عدي بن الفضل: متروک.»
وعن ابي هريرة وابي خلاد رضي الله عنهما: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إذا رايتم العبد يعطي زهدا في الدنيا وقلة منطق فاقتربوا منه فإنه يلقى الحكمة» . رواهما البيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي خَلَّادٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمُ الْعَبْدَ يُعْطِي زُهْدًا فِي الدُّنْيَا وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ يلقى الْحِكْمَة» . رَوَاهُمَا الْبَيْهَقِيّ فِي «شعب الْإِيمَان»
ابوہریرہ اور ابوخلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم بندے کو دیکھو کہ اسے دنیا سے بے رغبتی عطا کی گئی ہے اور وہ کم گو ہے تو اس کا قرب حاصل کرو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے۔ “ دونوں روایتیں امام بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «[5229. 5230] ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (4985، نسخة محققة: 4631 من حديث أبي ھريرة رضي الله عنه) ٭ سنده ضعيف، فيه ابن لھيعة وھو ضعيف لاختلاطه و للحديث طريق آخر عند ابن ماجه (4101) من حديث أبي خلاد به و سنده ضعيف و للحديث طريق موضوع في حلية الأولياء (317/7)!!»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رب اشعث مدفوع بالابواب لو اقسم على الله لابره» . رواه مسلم عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُبَّ أَشْعَثَ مَدْفُوعٍ بِالْأَبْوَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بہت سے پراگندہ بالوں والے جنہیں دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے اگر وہ اللہ پر قسم اٹھا لے تو اللہ اسے پوری فرما دیتا ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (138/ 2622)»
وعن مصعب بن سعد قال: راى سعد ان له فضلا على من دونه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل تنصرون وترزقون إلا بضعفائكم؟» . رواه البخاري وَعَن مُصعب بن سعدٍ قَالَ: رَأَى سَعْدٌ أَنَّ لَهُ فَضْلًا عَلَى مَنْ دُونَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ؟» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں، کہ سعد رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ اسے اپنے سے کم درجہ لوگوں پر (سخاوت کرنے میں) فضیلت و برتری حاصل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ ہی سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور انہی کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2896)»
وعن اسامة بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قمت على باب الجنة فكان عامة من دخلها المساكين واصحاب الجد محبوسون غير ان اصحاب النار قد امر بهم إلى النار وقمت على باب النار فإذا عامة من دخلها النساء» . متفق عليه وَعَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُمْتُ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَكَانَ عَامَّةُ مَنْ دَخَلَهَا الْمَسَاكِينَ وَأَصْحَابُ الْجَدِّ مَحْبُوسُونَ غَيْرَ أَنَّ أَصْحَابَ النَّارِ قَدْ أُمِرَ بِهِمْ إِلَى النَّارِ وَقُمْتُ عَلَى بَابِ النَّارِ فَإِذَا عَامَّةُ مَنْ دَخلهَا النِّسَاء» . مُتَّفق عَلَيْهِ
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں (معراج کی رات) جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ اس میں زیادہ تر داخل ہونے والے مساکین تھے، جبکہ صاحب ثروت روک لیے گئے تھے، اور آگ والوں (یعنی کافروں) کے لیے جہنم کا حکم دے دیا گیا تھا، اور میں باب جہنم پر کھڑا ہوا اور دیکھا کہ اس میں جانے والوں کی اکثریت عورتوں کی تھی۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6547) و مسلم (93/ 2736)»
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اطلعت في الجنة فرايت اكثر اهلها الفقراء. واطلعت في النار فرايت اكثر اهلها النساء» . متفق عليه وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا الْفُقَرَاءَ. وَاطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثریت فقرا کی تھی، اور میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا تو میں نے دیکھا کہ وہاں اکثریت عورتوں کی ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6546) و مسلم (94/ 2737)»
وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن فقراء المهاجرين يسبقون الاغنياء يوم القيامة إلى الجنة باربعين خريفا» . رواه مسلم وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى الْجَنَّةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا» . رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجر فقرا، روز قیامت مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (37/ 2979)»