وعن علي رضي الله عنه قال: ارتحلت الدنيا مدبرة وارتحلت الآخرة مقبلة ولكل واحدة منهما بنون فكونوا من ابناء الآخرة ولا تكونوا من ابناء الدنيا فإن اليوم عمل ولا حساب وغدا حساب ولا عمل. رواه البخاري وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ارْتَحَلَتِ الدُّنْيَا مُدْبِرَةً وَارْتَحَلَتِ الْآخِرَةُ مُقْبِلَةً وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ وَلَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا فَإِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابَ وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلَ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: دنیا گزر رہی ہے جبکہ آخرت آ رہی ہے، اور دونوں میں سے ہر ایک کے طلبگار ہیں، تم آخرت کے طلبگار بنو اور دنیا کے طلبگار نہ بنو کیونکہ آج عمل (کا وقت) ہے اور حساب نہیں جبکہ کل حساب ہو گا اور عمل نہیں ہو گا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري في الرقاق (باب: 4 قبل ح 6417) وانظر تغليق التعليق (5/ 158، 159)»
قال الشيخ زبير على زئي: رواه البخاري في الرقاق (باب: 4 قبل ح 6417)
وعن عمرو رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم خطب يوما فقال في خطبته: «الا إن الدنيا عرض حاضر ياكل منه البر والفاجر الا وإن الآحرة اجل صادق ويقضي فيها ملك قادر الا وإن الخير كله بحذافيره في الجنة الا وإن الشر كله بحذافيره في النار الا فاعملوا وانتم من الله على حذر واعلموا انكم معروضون على اعمالكم فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره» . للشافعي وَعَنْ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمًا فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ: «أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا عَرَضٌ حَاضِرٌ يَأْكُلُ مِنْهُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ أَلا وَإِن الآحرة أَجَلٌ صَادِقٌ وَيَقْضِي فِيهَا مَلِكٌ قَادِرٌ أَلَا وَإِنَّ الْخَيْرَ كُلَّهُ بِحَذَافِيرِهِ فِي الْجَنَّةِ أَلَا وَإِنَّ الشَّرَّ كُلَّهُ بِحَذَافِيرِهِ فِي النَّارِ أَلَا فَاعْمَلُوا وَأَنْتُمْ مِنَ اللَّهِ عَلَى حَذَرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مَعْرُوضُونَ عَلَى أَعْمَالِكُمْ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شرا يره» . للشَّافِعِيّ
عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز خطبہ ارشاد فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا: ”سن لو! دنیا ایک حاضر مال ہے، نیک بھی اس سے کھاتا ہے اور فاجر بھی، سن لو! آخرت ایک اٹل حقیقت ہے، اس وقت قادر مطلق بادشاہ (نیک و فاجر کے درمیان) فیصلہ کرے گا، سن لو! خیر مکمل طور پر جنت میں ہے اور سن لو! شر مکمل طور پر جہنم میں ہے، اور سن لو! عمل کرتے رہو، تم اللہ کی طرف سے (وقوع شر کے خوف سے) ڈرتے رہو، اور جان لو کہ تمہیں تمہارے اعمال پر پیش کیا جائے گا، جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔ “ امام شافعی نے اسے روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الشافعی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الشافعي في الأم (1/ 202) ٭ فيه إبراهيم بن محمد بن أبي يحيي: متروک و السند مرسل.»
وعن شداد رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «يا ايها الناس إن الدنيا عرض حاضر ياكل منها البر والفاجر وإن الآخرة وعد صادق يحكم فيها ملك عادل قادر يحق فيها الحق ويبطل الباطل كونوا من ابناء الآخرة ولا تكونوا من ابناء الدنيا فإن كل ام يتبعها ولدها» وَعَنْ شَدَّادٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الدُّنْيَا عَرَضٌ حَاضِرٌ يَأْكُلُ مِنْهَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ وَإِنَّ الْآخِرَةَ وَعْدٌ صَادِقٌ يَحْكُمُ فِيهَا مَلِكٌ عَادِلٌ قَادِرٌ يُحِقُّ فِيهَا الْحَقَّ وَيُبْطِلُ الْبَاطِلَ كُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ وَلَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا فَإِنَّ كل أم يتبعهَا وَلَدهَا»
شداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگو! بے شک دنیا حاضر مال ہے، ہر نیک و فاجر اس سے کھاتا ہے، آخرت اٹل حقیقت اور سچا وعدہ ہے، عادل قادر بادشاہ اس وقت فیصلہ فرمائے گا، وہ اس میں حق کو ثابت کر دے گا اور باطل کو ناپید کر دے گا، آخرت کے طلبگار بنو، دنیا کے طلبگار نہ بنو، بے شک ہر بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابونعیم فی حلیہ الاولیاء۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه أبو نعيم في حلية الأولياء (1/ 264، 265) ٭ فيه أبو مھدي سعيد بن سنان: متروک متھم.»
وعن ابي الدرداء رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما طلعت الشمس إلا وبجنبتيها ملكان يناديان يسمعان الخلائق غير الثقلين: يا ايها الناس هلموا إلى ربكم ما قل وكفى خير مما كثر والهى «رواهما ابو نعيم في» الحلية وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ إِلَّا وَبِجَنْبَتَيْهَا مَلَكَانِ يُنَادِيَانِ يُسْمِعَانِ الْخَلَائِقَ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمُّوا إِلَى رَبِّكُمْ مَا قَلَّ وَكَفَى خَيْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَأَلْهَى «رَوَاهُمَا أَبُو نُعَيْمٍ فِي» الْحِلْية
ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں کناروں پر دو فرشتے آواز دیتے ہیں، وہ جنوں اور انسانوں کے سوا ساری مخلوق کو (اپنی آواز) سناتے ہیں: لوگو! اپنے رب کی طرف آؤ، جو (مال) تھوڑا اور کافی ہو وہ اس (مال) سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور (اللہ کی یاد سے) غافل کر دے۔ “ دونوں احادیث کو ابونعیم نے الحلیہ میں روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابونعیم فی حلیہ الاولیاء۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو نعيم في حلية الأولياء (1/ 226) [و أحمد (5/ 197 ح 22064)] ٭ قتادة مدلس و عنعن و مع ذلک صححه ابن حبان (الموارد: 814، 2476) و الحاکم (2/ 444. 445) ووافقه الذھبي (!) و حديث البخاري (1442) و مسلم (1010) يغني عنه.»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه يبلغ به قال: إذا مات الميت قالت الملائكة: ما قدم؟ وقال بنو آدم: ما خلف؟ «. رواه البيهقي في» شعب الإيمان وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَبْلُغُ بِهِ قَالَ: إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: مَا قَدَّمَ؟ وَقَالَ بَنُو آدَمَ: مَا خَلَّفَ؟ «. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي» شعب الْإِيمَان
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوع روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب فوت ہونے والا فوت ہوتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں: اس نے (اعمال میں سے) آگے کیا بھیجا ہے؟ اور انسان کہتے ہیں، اس نے (مال میں سے) پیچھے کیا چھوڑا ہے؟“ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10475، نسخة محققة: 9992) ٭ الأعمش مدلس و عنعن و کذا عبد الرحمٰن بن محمد المحاربي من المدلسين و فيه علة أخري.»
وعن مالك رضي الله عنه: ان لقمان قال لابنه: «يا بني إن الناس قد تطاول عليهم ما يوعدون وهم إلى الآخرة سراعا يذهبون وإنك قداستدبرت الدنيا منذ كنت واستقبلت الآخرة وإن دارا تسيرإليها اقرب إليك من دار تخرج منها» . رواه رزين وَعَنْ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ لُقْمَانَ قَالَ لِابْنِهِ: «يَا بُنَيَّ إِنَّ النَّاسَ قَدْ تَطَاوَلَ عَلَيْهِمْ مَا يُوعَدُونَ وَهُمْ إِلَى الْآخِرَةِ سرَاعًا يذهبون وَإنَّك قداستدبرت الدُّنْيَا مُنْذُ كُنْتَ وَاسْتَقْبَلْتَ الْآخِرَةَ وَإِنَّ دَارًا تسيرإليها أقربُ إِليك من دارٍ تخرج مِنْهَا» . رَوَاهُ رزين
امام مالک ؒ سے روایت ہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: ”بیٹے! بے شک لوگوں سے جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ ان پر دراز ہو چلا ہے، اور وہ آخرت کی طرف تیز چلے جا رہے ہیں، اور جب سے تو دنیا میں آیا ہے اس وقت سے تو اسے (آہستہ آہستہ) پیچھے چھوڑ رہا ہے اور آخرت کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے، بے شک وہ گھر جس کی طرف تو محو سفر ہے، وہ تیرے اس گھر سے، جہاں سے تو روانہ ہوا ہے، زیادہ قریب ہے۔ “ لم اجدہ، رواہ رزین۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «لم أجده، رواه رزين (لم أجده)»
وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الناس افضل؟ قال: «كل مخموم القلب صدوق اللسان» . قالوا: صدزق اللسان نعرفه فما مخموم القلب؟ قال: «هو النقي التقي لا إثم عليه ولا بغي ولا غل ولا حسد» . رواه ابن ماجه والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «كُلُّ مَخمومُ الْقلب صَدُوق اللِّسَان» . قَالُوا: صدزق اللِّسَانِ نَعْرِفُهُ فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ؟ قَالَ: «هُوَ النَّقِيُّ التَّقِيُّ لَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَلَا بَغْيَ وَلَا غِلَّ وَلَا حَسَدَ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا، کون سا آدمی سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہر صاف دل، راست گو۔ “ صحابہ نے عرض کیا، ہم راست گو کے متعلق تو جانتے ہیں، صاف دل سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ صاف و پاک جس پر کوئی گناہ ہے نہ کوئی ظلم اور نہ ہی کوئی کینہ و حسد۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه ابن ماجه (4216) و البيھقي في شعب الإيمان (6604)»
وعنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اربع إذا كن فيك فلا عليك ما فاتك من الدنيا: حفظ امانة وصدق حديث وحسن خليقة وعفة في طعمة «. رواه احمد والبيهقي في» شعب الإيمان وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعٌ إِذَا كُنَّ فِيكَ فَلَا عَلَيْكَ مَا فَاتَكَ مِنَ الدُّنْيَا: حِفْظُ أَمَانَةٍ وَصِدْقُ حَدِيثٍ وَحُسْنُ خَلِيقَةٍ وَعِفَّةٌ فِي طُعْمَةٍ «. رَوَاهُ أَحْمد وَالْبَيْهَقِيّ فِي» شعب الْإِيمَان
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”چار چیزیں ایسی ہیں جب وہ تم میں ہوں تو پھر اگر تمہیں دنیا نہ بھی ملے تو کوئی حرج و مضائقہ نہیں، حفظ امانت، صدق کلام، حسن اخلاق اور (حرام) کھانے سے پرہیز کرنا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (2/ 177 ح 6652) و البيھقي في شعب الإيمان (4801) [و ابن وھب في الجامع (546)] ٭ فيه عبد الله بن لھيعة مدلس و عنعن و في الحديث علة أخري، انظر شعب الإيمان (5258) و مکارم الأخلاق للخرائطي (31، 159، 306) وھي مظنة الإنقطاع بين الحارث بن يزيد الحضرمي و بين عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه، و الله أعلم و بنحو ھذا الحديث روي ابن وھب (547) و ابن المبارک في الزھد (1204) موقوفًا علي عبد الله بن عمرو رضي الله عنه و سنده حسن.»
وعن مالك رضي الله عنه قال: بلغني انه قيل للقمان الحكيم: ما بلغ بك ما ترى؟ يعني الفضل قال: صدق الحديث واداء الامانة وترك ما لا يعنيني. رواه في «الموطا» وَعَنْ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّهُ قِيلَ لِلُقْمَانَ الْحَكِيمِ: مَا بَلَغَ بِكَ مَا ترى؟ يَعْنِي الْفَضْلَ قَالَ: صِدْقُ الْحَدِيثِ وَأَدَاءُ الْأَمَانَةِ وَتَرْكُ مَا لَا يَعْنِينِي. رَوَاهُ فِي «الْمُوَطَّأِ»
امام مالک سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حدیث پہنچی ہے کہ لقمان حکیم سے پوچھا گیا، جس مقام پر ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں اس مقام پر آپ کو کون سی باتوں نے پہنچایا؟ انہوں نے فرمایا: راست گوئی، امانت کی ادائیگی اور فضول باتوں چیز کو چھوڑ دینا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه مالک في الموطأ (2/ 990 ح 1926 بدون سند)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تجيء الاعمال فتجيء الصلاة قتقول: يارب انا الصلاة. فيقول: إنك على خير. فتجيء الصدقة فتقول: يارب انا الصدقة. فيقول: إنك على خير ثم يجيء الصيام فيقول: يارب انا الصيام. فيقول: إنك على خير. ثم تجيء الاعمال على ذلك. يقول الله تعالى: إنك على خير. ثم يجيء الإسلام فيقول: يا رب انت السلام وانا الإسلام. فيقول الله تعالى: إنك على خير بك اليوم آخذ وبك اعطي. قال الله تعالى في كتابه: (ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الحاسرين) وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَجِيء الْأَعْمَال فتجيء الصَّلَاة قتقول: يارب أَنَا الصَّلَاةُ. فَيَقُولُ: إِنَّكِ عَلَى خَيْرٍ. فَتَجِيءُ الصَّدَقَة فَتَقول: يارب أَنَا الصَّدَقَةُ. فَيَقُولُ: إِنَّكِ عَلَى خَيْرٍ ثُمَّ يَجِيء الصّيام فَيَقُول: يارب أَنَا الصِّيَامُ. فَيَقُولُ: إِنَّكَ عَلَى خَيْرٍ. ثُمَّ تَجِيءُ الْأَعْمَالُ عَلَى ذَلِكَ. يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّكِ عَلَى خَيْرٍ. ثُمَّ يَجِيءُ الْإِسْلَامُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَنْتَ السَّلَامُ وَأَنَا الْإِسْلَامُ. فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّكَ عَلَى خَيْرٍ بِكَ الْيَوْمَ آخُذُ وَبِكَ أُعْطِي. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ: (وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَة من الحاسرين)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال (اللہ کے حضور سفارش کرنے کے لیے) آئیں گے، نماز آئے گی، اور عرض کرے گی، رب جی! میں نماز ہوں، وہ فرمائے گا: تو خیر پر ہے، صدقہ آئے گا، وہ عرض کرے گا، رب جی! میں صدقہ ہوں، وہ فرمائے گا: تو خیر پر ہے، پھر روزہ آئے گا، وہ عرض کرے گا: رب جی! میں روزہ ہوں، وہ فرمائے گا: تو خیر پر ہے، پھر اسی طرح اعمال آتے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا جائے گا: تو خیر پر ہے، پھر اسلام آئے گا، وہ عرض کرے گا: رب جی! تو سلام ہے اور میں اسلام ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو خیر پر ہے، آج میں تیری وجہ سے مؤاخذہ کروں گا اور تیری وجہ سے عطا کروں گا، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا: ”جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (362/2 ح 8727) ٭ عباد بن راشد صدوق لکنه وھم في قوله: ’’الحسن ثنا أبو ھريرة‘‘ و الصواب أن الحسن لم يسمع من أبي ھريرة رضي الله عنه.»