وعن انس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: يجاء بابن آدم يوم القيامة كانه بذج فيوقف بين يدي الله فيقول له: اعطيتك وخولتك وانعمت عليك فما صنعت؟ فيقول: يا رب جمعته وثمرته وتركته اكثر ما كان فارجعني آتك به كله. فيقول له: ارني ما قدمت. فيقول: رب جمعته وثمرته وتركته اكثر ماكان فارجعني آتك به كله. فإذا عبد لم يقدم خيرا فيمضى به إلى النار. رواه الترمذي وضعفه وَعَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يُجَاءُ بِابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ بَذَجٌ فَيُوقَفُ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ فَيَقُولُ لَهُ: أَعْطَيْتُكَ وَخَوَّلْتُكَ وَأَنْعَمْتُ عَلَيْكَ فَمَا صَنَعْتَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ وَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ كُلِّهِ. فَيَقُولُ لَهُ: أَرِنِي مَا قَدَّمْتَ. فَيَقُولُ: رَبِّ جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ وَتَرَكْتُهُ أَكثر ماكان فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ كُلِّهِ. فَإِذَا عَبْدٌ لَمْ يُقَدِّمْ خَيْرًا فَيُمْضَى بِهِ إِلَى النَّارِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَضَعفه
انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کو روز قیامت بکری کے بچے کی طرح (ذلت کے ساتھ) پیش کیا جائے گا، اور اسے اللہ کے حضور کھڑا کیا جائے گا تو وہ اس سے فرمائے گا: میں نے تجھے (حیات و حواس، صحت و عافیت) عطا کی، میں نے تجھے خادم ملازم عطا کیے اور (انبیا و کتب نازل فرما کر) تجھ پر انعام فرمایا، تو نے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا رب جی! میں نے اس (مال) کو جمع کیا اور اس کو بڑھایا اور جتنا تھا اس سے زیادہ چھوڑا، تو مجھے واپس بھیج میں وہ سارا تیری خدمت میں لے آتا ہوں۔ اسے کہا جائے گا: تم نے جو آگے بھیجا تھا وہ مجھے دکھاؤ، تو وہ پھر وہی کہے گا، میں نے اسے جمع کیا، اسے بڑھایا اور وہ جتنا تھا اس سے زیادہ اسے چھوڑا، لہذا تو مجھے واپس بھیج میں وہ سارا تیری خدمت میں لا حاضر کرتا ہوں، چنانچہ وہ ایسا (بد قسمت) انسان ہو گا جس نے کوئی نیکی آگے نہیں بھیجی ہو گی، اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ “ ترمذی، اور انہوں نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2427) ٭ إسماعيل بن مسلم: ضعيف الحديث و للحديث شاھد ضعيف.»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن اول ما يسال العبد يوم القيامة من النعيم ان يقال له: الم نصح جسمك؟ ونروك من الماء البارد؟. رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ النَّعِيمِ أَنْ يُقَالَ لَهُ: أَلَمْ نُصِحَّ جِسْمَكَ؟ وَنَرْوِكَ من المَاء الْبَارِد؟. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت بندے سے نعمتوں کے بارے میں سب سے پہلے یوں سوال کیا جائے گا: کیا ہم نے تیرے جسم کو درست نہیں بنایا تھا، اور (کیا) ہم نے تجھے ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا؟“ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3358)»
وعن ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا تزول قدما ابن آدم يوم القيامة حتى يسال عن خمس: عن عمره فيما افناه وعن شبابه فيما ابلاه وعن ماله من اين اكتسبه وفيما انفقه وماذا عمل فيما علم؟. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلَاهُ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ؟. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت انسان کے قدم (اللہ کے دربار میں) برابر جمے رہیں گے حتیٰ کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے متعلق کہ اس نے اسے کن کاموں میں ختم کیا، اس کی جوانی کے متعلق کہ اس نے اسے کہاں ضائع کیا، اس کے مال کے متعلق کہ اس نے اسے کہاں سے حاصل کیا اور اسے کن مصارف میں خرچ کیا اور اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا؟“ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2416) ٭ حسين بن قيس الرحبي متروک و للحديث شواھد ضعيفة.»
عن ابي ذر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له: «إنك لست بخير من احمر ولا اسود إلا ان تفضله بتقوى» . رواه احمد عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: «إِنَّكَ لَسْتَ بِخَيْرٍ مِنْ أَحْمَرَ وَلَا أَسْوَدَ إِلَّا أَنْ تفضلَه بتقوى» . رَوَاهُ أَحْمد
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”تم سرخ سے بہتر ہو نہ سیاہ سے، مگر یہ کہ تم اس سے تقویٰ کے ذریعے فضیلت حاصل کرو۔ “ سندہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (5/ 158 ح 21736) ٭ قال المنذري: ’’رجاله ثقات إلا ان بکر بن عبد الله المزني لم يسمع من أبي ذر فالسند منقطع‘‘ و حديث أحمد (5/ 411، مجمع الزوائد 8/ 84 و سنده صحيح) يغني عنه.»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما زهد عبد في الدنيا إلا انبت الله الحكمة في قلبه وانطق لسانه وبصره عيب الدنيا وداءها ودواءها واخرجه منها سالما إلى دار السلام» رواه البيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا زَهِدَ عَبْدُ فِي الدُّنْيَا إِلَّا أَنْبَتَ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَأَنْطَقَ لِسَانَهُ وَبَصَّرَهُ عَيْبَ الدُّنْيَا وَدَاءَهَا وَدَوَاءَهَا وَأَخْرَجَهُ مِنْهَا سَالِمًا إِلَى دَارِ السَّلَامِ» رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شعب الْإِيمَان»
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے دل میں حکمت پیدا فرما دیتا ہے، اس (حکمت) کو اس کی زبان پر جاری فرما دیتا ہے، دنیا کا عیب، اس کی بیماریاں اور اس کے علاج پر اسے بصیرت عطا فرما دیتا ہے اور اسے اس سے صحیح سلامت دار السلام (جنت) کی طرف نکال لے جاتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10532، نسخة محققة: 10050) ٭ فيه عمر بن صبح: متروک متهم و بشير بن زاذان: ضعيف جدًا.»
وعنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «قد افلح من اخلص الله قلبه للإيمان وجعل قلبه سليما ولسانه صادقا ونفسه مطمئنة وخليقته مستقيمة وجعل اذنه مستمعة وعينه ناظرة فاما الاذن فقمع واما العين فمقرة لما يوعى القلب وقد افلح من جعل قلبه واعيا» رواه احمد والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ اللَّهُ قلبَه للإِيمان وجعلَ قلبَه سليما ولسانَه صَادِقا وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمِعٌ وَأَمَّا الْعَيْنُ فَمُقِرَّةٌ لِمَا يُوعَى الْقَلْبُ وَقَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِيًا» رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شعب الْإِيمَان»
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص نے فلاح پائی جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے خالص کر دیا، اس کے دل کو (حسد و بغض وغیرہ سے) سلامت رکھا، اس کی زبان کو راست گو بنایا، اس کے نفس کو مطمئن بنایا، اس کی طبیعت کو مستقیم بنایا، اس کے کانوں کو غور سے (حق) سننے والا اور اس کی آنکھ کو (دلائل) دیکھنے والا بنایا، کان اس چیز کے لیے جسے دل محفوظ رکھتا ہے، قیف ہیں اور آنکھ محل قرار و ثبات ہے، اور اس شخص نے فلاح پائی جس نے اپنے دل کو محافظ بنایا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (5/ 147 ح 21635) و البيھقي في شعب الإيمان (108، نسخة محققة: 107) ٭ خالد بن معدان عن أبي ذر رضي الله عنه: منقطع.»
وعن عقبة بن عامر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا رايت الله عز وجل يعطي العبد من الدنيا على معاصيه ما يحب فإنما هو استدراج» ثم تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: (فلما نسوا ماذكروا به فتحنا عليهم ابواب كل شيء حتى إذا فرحوا بما اوتوا اخذناهم بغتة فإذا هم مبلسون) رواه احمد وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُعْطِي الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْيَا عَلَى مَعَاصِيهِ مَا يُحِبُّ فَإِنَّمَا هُوَ اسْتِدْرَاجٌ» ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (فَلَمَّا نسوا ماذكروا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هم مبلسون) رَوَاهُ أَحْمد
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اللہ عزوجل کو دیکھو کہ وہ بندے کو اپنی معصیت کے باوجود دنیا دے رہا ہے جس (معصیت) کو وہ پسند نہیں کرتا تو وہ کوئی تدبیر ہے۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”جب انہوں نے اس چیز کو بھلا دیا جس کے ذریعے انہیں سمجھایا گیا تھا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے، حتیٰ کہ جب وہ عطا کردہ چیزوں پر خوش ہو گئے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا، تب وہ متحیر و ناامید ہو گئے۔ “ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (4/ 145 ح 17444) ٭ رشدين بن سعد أبو الحجاج: ضعيف و للحديث شاھد عند البيھقي (شعب الإيمان: 4540، نسخة محققة: 4220) و سنده حسن.»
وعن ابي امامة ان رجلا من اهل الصفة توفي وترك دينارا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كية» قال: ثم توفي آخر فترك دينارين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كيتان» رواه احمد والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ دِينَارًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيَّةٌ» قَالَ: ثُمَّ تُوُفِّيَ آخَرُ فَتَرَكَ دِينَارَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيَّتَانِ» رَوَاهُ أَحْمَدُ والبيهقيُّ فِي «شعب الإِيمان»
ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل صفہ میں سے ایک آدمی فوت ہو گیا تو اس نے ایک دینار چھوڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(یہ دینار) ایک داغ (دینے کے باعث)۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، پھر دوسرا آدمی فوت ہوا تو اس نے دو دینار چھوڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(یہ دو دینار) دو داغ (دینے کا باعث) ہیں۔ “ صحیح، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (5/ 253 ح 22533) وا لبيھقي في شعب الإيمان (6963) ٭ و للحديث شواھد صحيحة عند أحمد (5/ 253، 258) و ابن حبان (الموارد: 2481 سنده حسن) وغيرهما وھو بھا صحيح.»
وعن معاوية انه دخل على خاله ابي هاشم بن عتبة يعوده فبكى ابو هاشم فقال: ما يبكيك يا خال؟ اوجع يشئزك ام حرص على الدنيا؟ قال: كلا ولكن رسول الله عهد إلينا عهدا لم آخذ به. قال: وما ذلك؟ قال: سمعته يقول: «إنما يكفيك من جمع المال خادم ومركب في سبيل الله» . وإني اراني قد جمعت. رواه احمد والترمذي والنسائي وابن ماجه وَعَن مُعَاوِيَة أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى خَالِهِ أَبِي هَاشِمِ بْنِ عتبَة يعودهُ فَبَكَى أَبُو هَاشِمٍ فَقَالَ: مَا يُبْكِيكَ يَا خَالِ؟ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ أَمْ حِرْصٌ عَلَى الدُّنْيَا؟ قَالَ: كلا ولكنَّ رَسُول الله عهد إِلينا عَهْدًا لَمْ آخُذْ بِهِ. قَالَ: وَمَا ذَلِكَ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «إِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ جَمْعِ الْمَالِ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» . وَإِنِّي أَرَانِي قَدْ جَمَعْتُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْن مَاجَه
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے ماموں ابوہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے گئے تو ابوہاشم رضی اللہ عنہ رونے لگے، انہوں نے پوچھا: ماموں جان! کون سی چیز آپ کو رلا رہی ہے، کیا کوئی تکلیف تمہیں اضطراب میں ڈال رہی ہے یا دنیا کی حرص؟ انہوں نے کہا، ہرگز نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں وصیت فرمائی تھی لیکن میں نے اس پر عمل نہ کیا، انہوں نے فرمایا: وہ (وصیت) کیا تھی؟ انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تمہارے لیے اتنا مال جمع کرنا ہی کافی ہے کہ ایک خادم ہو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے ایک سواری ہو۔ “ اور میں خیال کرتا ہوں کہ میں (مال) جمع کر چکا ہوں۔ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، تقدم طرفه (5185) و رواه أحمد (3/ 444 ح 15749) و الترمذي (2327 وسنده ضعيف) و النسائي (218/8. 219 ح 5374) و ابن ماجه (4103 وسنده ضعيف) ٭ أبو وائل رواه عن سمرة بن سھم وھو رجل مجھول (انظر ح 5185)»
وعن ام الدرداء قالت: قلت: لابي الدرداء: مالك لا تطلب كما يطلب فلان؟ فقال: اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن امامكم عقبة كؤودا لا يجوزها المثقلون» . فاحب ان اتخفف لتلك العقبة وَعَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ قَالَتْ: قُلْتُ: لِأَبِي الدَّرْدَاءِ: مَالك لَا تَطْلُبُ كَمَا يَطْلُبُ فُلَانٌ؟ فَقَالَ: أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَمَامَكُمْ عَقَبَةً كَؤُودًا لَا يَجُوزُهَا المثقلون» . فَأحب أَن أتخفف لتِلْك الْعقبَة
ام درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ کو کیا ہے کہ آپ فلاں کی طرح (مال و منصب) طلب نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تمہارے آگے ایک دشوار گھاٹی ہے جسے بھاری وزن اٹھانے والے پار نہیں کر سکیں گے۔ “ میں چاہتا ہوں کہ میں اس گھاٹی (سے گزرنے) کے لیے وزن ہلکا رکھوں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10408، نسخة محققة: 9923. 9924) [و صححه الحاکم (573/4. 574) ووافقه الذهبي] ٭ أبو معاوية الضرير مدلس و عنعن و صرح بالسماع في رواية محمد بن سليمان ابن بنت مطر الوراق وھو ضعيف فالسند معلل.»