وعن انس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من خزن لسانه ستر الله عورته ومن كف غضبه كف الله عنه عذابه يوم القيامة ومن اعتذر إلى الله قبل الله عذره» وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ خَزَنَ لِسَانَهُ سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ كَفَّ غَضَبَهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ عَذَابَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنِ اعْتَذَرَ إِلَى الله قَبِلَ الله عذره»
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنی زبان کی حفاظت کرتا ہے، اللہ اس کے عیبوں پر پردہ ڈال دیتا ہے، جو شخص اپنے غصے کو روک لیتا ہے، روز قیامت اللہ اس سے اپنا عذاب روک لے گا اور جو شخص اللہ کے حضور معذرت کرتا ہے، اللہ اس کی معذرت قبول فرما لیتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (8311، نسخة محققة: 7958) [و أبو يعلي (302/7 ح 4338)] ٭ الربيع بن سليم الخلقاني ضعيف و أبو عمرو مولي أنس بن مالک: مجھول و للحديث شواھد ضعيفة.»
وعن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ثلاث منجيات وثلاث مهلكات فاما المنجيات: فتقوى الله في السر والعلانية والقول بالحق في الرضى والسخط والقصد في الغنى والفقر. واما المهلكات: فهوى متبع وشح مطاع وإعجاب المرء بنفسه وهي اشدهن «. روى البيهقي الاحاديث الخمسة في» شعب الإيمان وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ وَثَلَاثٌ مُهْلِكَاتٌ فَأَمَّا الْمُنْجِيَاتُ: فَتَقْوَى اللَّهِ فِي السِّرِّ والعلانيةِ والقولُ بالحقِّ فِي الرضى وَالسُّخْطِ وَالْقَصْدُ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ. وَأَمَّا الْمُهْلِكَاتُ: فَهَوًى مُتَّبَعٌ وَشُحٌّ مُطَاعٌ وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ وَهِيَ أَشَدُّهُنَّ «. رَوَى الْبَيْهَقِيُّ الْأَحَادِيثَ الْخَمْسَةَ فِي» شعب الْإِيمَان
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں باعث نجات ہیں اور تین چیزیں باعث ہلاکت ہیں باعث نجات چیزیں یہ ہیں: ظاہر و باطن میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا، رضا و ناراضی میں حق بات کرنا، اور تونگری و محتاجی میں میانہ روی اختیار کرنا، اور باعث ہلاکت چیزیں یہ ہیں: ایسی خواہش جس کی اتباع کی جائے، ایسا بخل جس کی اطاعت کی جائے، اور انسان کی خود پسندی، اور یہ ان سب سے زیادہ مہلک ہے۔ “ امام بیہقی نے پانچوں احادیث شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔ سندہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7252، نسخة محققة: 6865) ٭ بکر بن سليم ضعفه الجمھور و باقي السند حسن، و للحديث شواھد ضعيفة.»
عن ابن عمر ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الظلم ظلمات يوم القيامة» . متفق عليه عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الظُّلْمُ ظُلْمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم روز قیامت کئی اندھیروں کا باعث ہو گا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2447) و مسلم (2579/57)»
وعن ابي موسى قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله ليملي للظالم حتى إذا اخذه لم يفلته» ثم يقرا (وكذلك اخذ ربك إذا اخذ القرى وهي ظالمة) الآية. متفق عليه وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يفلته» ثمَّ يقْرَأ (وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظالمة) الْآيَة. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے لیکن وہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے چھوڑتا نہیں۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”تیرے رب کی پکڑ اسی طرح ہوتی ہے جب وہ بستی کے ظالموں کو پکڑتا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه رواه البخاري (4686) و مسلم (61/ 2583)»
وعن ابن عمر ان النبي صلى الله عليه وسلم لما مر بالحجر قال: «لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا انفسهم إلا ان تكونوا باكين ان يصيبكم ما اصابهم» ثم قنع راسه واسرع السير حتى اجتاز الوادي. متفق عليه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا مَرَّ بِالْحِجْرِ قَالَ: «لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ أَنْ يُصِيبَكُمْ مَا أَصَابَهُمْ» ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَهُ وَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّى اجتاز الْوَادي. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مقام حجر کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”تم ان مساکن میں، جہاں کے باشندوں نے اپنے اوپر ظلم کیا، روتے ہوئے داخل ہونا کیونکہ جس عذاب میں وہ مبتلا ہوئے کہیں تم بھی اس میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر ڈھانپ لیا اور رفتار تیز کر دی حتیٰ کہ وہ وادی سے گزر گئے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4419) و مسلم (39/ 2980)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كانت له مظلمة لاخيه من عرضه او شيء منه اليوم قبل ان لا يكون دينار ولا درهم إن كان له عمل صالح اخذ منه بقدر مظلمته وإن ل يكن له حسنات اخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه» . رواه البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِهِ وَإِنْ لَ ْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص پر اپنے (مسلمان) بھائی کا، اس کی عزت سے متعلق یا کسی اور چیز سے متعلق کوئی حق ہو تو وہ (دنیا میں)، اس سے معافی تلافی کروا لے قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جب اس کے پاس درہم و دینار نہیں ہوں گے، اگر اس کے پاس عمل صالح ہوں گے تو وہ اس سے اس کے ظلم کے بقدر لے لیے جائیں گے، اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی تو حق دار کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2449)»
وعنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «اتدرون ما المفلس؟» . قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع. فقال: «إن المفلس من امتي من ياتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة وياتي وقد شتم هذا وقذف هذا. واكل مال هذا. وسفك دم هذا وضرب هذا فيعطى هذا من حسناته وهذا من حسناته فإن فنيت حسناته قبل ان يقضي ما عليه اخذ من خطاياهم فطرحت عليه ثم طرح في النار» . رواه مسلم وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟» . قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ. فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْم الْقِيَامَة بِصَلَاة وَصِيَام وَزَكَاة وَيَأْتِي وَقَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا. وَأَكَلَ مَالَ هَذَا. وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يَقْضِيَ مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرح فِي النَّار» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟“ انہوں نے عرض کیا، جس شخص کے پاس درہم ہوں نہ مال و متاع، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو روز قیامت نماز، روزے اور زکوۃ لے کر آئے گا اور وہ بھی آ جائے گا جسے اس نے گالی دی ہو گی، جس کسی پر بہتان لگایا ہو گا، جس کسی کا مال کھایا ہو گا، جس کسی کا خون بہایا ہو گا اور جس کسی کو مارا پیٹا ہو گا، اس (مظلوم) کو اس کی نیکیوں میں سے نیکیاں دے دی جائیں گی، اور اگر اس کے ذمے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان (حق داروں) کے گناہ لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (59/ 2581)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لتؤدن الحقوق إلى اهلها يوم القيامة حتى يقاد للشاة الجلحاء من الشاة القرناء» . رواه مسلم وذكر حديث جابر: «اتقوا الظلم» . في «باب الإنفاق» وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَتُؤَدَّنَّ الْحُقُوقُ إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَذَكَرَ حَدِيثَ جَابِرٍ: «اتَّقَوُا الظُّلم» . فِي «بَاب الإِنفاق»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم روز قیامت حق داروں کو ان کے حقوق ضرور ادا کرو گے، حتیٰ کہ سینگوں والی بکری سے سینگوں کے بغیر بکری کو بدلہ دلایا جائے گا۔ “ رواہ مسلم۔ اور جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ”ظلم سے بچو۔ “ باب الانفاق میں ذکر کی گئی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (60/ 2582) حديث جابر تقدم (1865)»
وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تكونوا إمعة تقولون: إن احسن الناس احسنا وإن ظلموا ظلمنا ولكن وطنوا انفسكم إن احسن الناس ان تحسنوا وإن اساؤوا فلا تظلموا. رواه الترمذي. ويصح وقفه على ابن مسعود وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَكُونُوا إِمَّعَةً تَقُولُونَ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا وإِن أساؤوا فَلَا تظلموا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ. وَيصِح وَقفه على ابْن مَسْعُود
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”امّعہ نہ بنو، (وہ اس طرح کہ) تم کہو: اگر لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، اور اگر انہوں نے ظلم کیا تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ تم اپنے آپ سے عزم کرو کہ اگر لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو تم بھی اچھا سلوک کرو گے اور اگر انہوں نے برا سلوک کیا تو تم ظلم نہیں کرو گے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2007 وقال: حسن غريب)»
وعن معاوية انه كتب إلى عائشة رضي الله عنها ان اكتبي إلي كتابا توصيني فيه ولا تكثري. فكتبت: سلام عليك اما بعد: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من التمس رضى الله بسخط الناس كفاه الله مؤونة الناس ومن التمس رضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس» والسلام عليك. رواه الترمذي وَعَنْ مُعَاوِيَةَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنِ اكْتُبِي إِلَيَّ كِتَابًا تُوصِينِي فِيهِ وَلَا تُكْثِرِي. فَكَتَبَتْ: سَلَامٌ عَلَيْكَ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: «من التمَس رضى الله بسخط النَّاس كفاهُ اللَّهُ مؤونة النَّاس وَمن التمس رضى النَّاسِ بِسَخَطِ اللَّهِ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ» وَالسَّلَام عَلَيْك. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا کہ آپ اختصار کے ساتھ مجھے وصیت لکھیں، چنانچہ انہوں نے لکھا: سلام علیک! امابعد! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص لوگوں کی ناراضی کے بدلے میں اللہ کی رضا تلاش کرتا ہے تو اللہ اسے لوگوں کے شر سے کافی ہو جاتا ہے، اور جو شخص اللہ کی ناراضی کے بدلے میں لوگوں کی خوشی تلاش کرتا ہے تو اللہ اسے لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ “ والسلام علیک! سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2414) ٭ رجل من أھل المدينة مجھول و روي ابن حبان (الإحسان: 277) عن عائشة رضي الله عنھا أن رسول الله ﷺ قال: ((من أرضي الناس بسخط الله کفاه الله و من أسخط الله برضا الناس و کله الله إلي الناس.)) وسنده صحيح و رواه أحمد في الزھد (ص 164 ح 908) عن عائشة موقوفًا وسنده صحيح و حديث ابن حبان و أحمد يغني عن حديث الترمذي.»