وعن جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا حدث الرجل الحديث ثم التفت فهي امانة» . رواه الترمذي وابو داود وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی بات کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھے (کہ کہیں کوئی اور تو نہیں سن رہا) تو وہ امانت ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1959وقال: حسن) و أبو داود (4868)»
وعن ابي هريرة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لابي الهيثم بن التيهان: «هل لك خادم؟» فقال: لا. قال: فإذا اتانا سبي فاتنا فاتي النبي صلى الله عليه وسلم براسين فاتاه ابو الهيثم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اختر منهما» . فقال: يا نبي الله اختر لي فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن المستشار مؤتمن. خذ هذا فإني رايته يصلي واستوص به معروفا» . رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لأبي الهيثمِ بن التَّيِّهان: «هَلْ لَكَ خَادِمٌ؟» فَقَالَ: لَا. قَالَ: فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْتَرْ مِنْهُمَا» . فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ اخْتَرْ لِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ. خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو الہیشم بن التیہان سے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی خادم ہے۔ “ اس نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب ہمارے پاس قیدی آئیں تو پھر تم ہمارے پاس آنا۔ “ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس دو غلام لائے گئے تو ابو الہیشم بھی آپ کے پاس گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے کوئی ایک پسند کر لو۔ “ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! آپ ہی پسند فرما دیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ امین ہوتا ہے، اسے لے لو کیونکہ میں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، میں تمہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2369 وقال: حسن صحيح غريب) ٭ عبد الملک بن عمير مدلس و عنعن و حديث الترمذي (2822) حسن بالشواھد.»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المجالس بالامانة إلا ثلاثة مجالس: سفك دم حرام او فرج حرام واقتطاع مال بغير حق. رواه ابو داود وذكر حديث ابي سعيد: «إن اعظم الامانة» في «باب المباشرة» في «الفصل الاول» وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: المجالسُ بالأمانةِ إِلَّا ثلاثَةَ مَجَالِسَ: سَفْكُ دَمٍ حَرَامٍ أَوْ فَرْجٌ حَرَامٌ واقتطاع مَالٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي سَعِيدٍ: «إِنَّ أَعْظَمَ الْأَمَانَةِ» فِي «بَاب المباشرةِ» فِي «الْفَصْل الأول»
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تین مجالس، (جہاں) ناحق قتل کرنے یا زنا کرنے یا ناحق مال حاصل کرنے کے متعلق باتیں ہو رہی ہوں، کے علاوہ مجالس (کی باتیں) امانت ہوتی ہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کہ: ”بے شک بڑی امانت“ باب المباشرۃ کی فصل اول میں ذکر ہو چکی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4869) ٭ ابن أخي جابر: مجھول، لم أجد من وثقه. حديث أبي سعيد تقدم (3190)»
عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لما خلق الله العقل قال له: قم فقام ثم قال له: ادبر ثم قال له: اقبل فاقبل ثم قال له: اقعد فقعد ثم قال: ما خلقت خلقا هو خير منك ولا افضل منك ولا احسن منك بك آخذ وبك اعطي وبك اعرف وبك اعاتب وبك الثواب وعليك العقاب. وقد تكلم فيه بعض العلماء عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْعَقْلَ قَالَ لَهُ: قُمْ فَقَامَ ثُمَّ قَالَ لَهُ: أدبر ثُمَّ قَالَ لَهُ: أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ ثُمَّ قَالَ لَهُ: اقْعُدْ فَقَعَدَ ثُمَّ قَالَ: مَا خَلَقْتُ خَلْقًا هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ وَلَا أَفْضَلُ مِنْكَ وَلَا أَحْسَنُ مِنْكَ بِكَ آخُذُ وَبِكَ أُعْطِي وَبِكَ أُعْرَفُ وَبِكَ أُعَاتِبُ وَبِكَ الثَّوَابُ وَعَلَيْكَ العقابُ. وَقد تكلم فِيهِ بعض الْعلمَاء
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ نے عقل کو پیدا فرمایا تو اسے فرمایا: کھڑی ہو جا، وہ کھڑی ہو گئی، پھر اسے کہا: پیچھے مڑ، تو وہ پیچھے مڑ گئی، پھر اسے کہا: سامنے توجہ کر، تو وہ سامنے آ گئی، پھر اسے کہا: بیٹھ جا، تو وہ بیٹھ گئی، پھر اسے فرمایا: میں نے اپنی پوری مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ بہتر و افضل اور سب سے اچھا بنایا ہے، میں تیری وجہ سے مؤاخذہ کروں گا، تیری وجہ سے عنایت کروں گا اور تیری وجہ سے میں پہچانا جاتا ہوں، میں تیری وجہ سے سزا دوں گا جزا اور ثواب کا انحصار بھی تجھ پر ہے۔ “ اس کے متعلق بعض علما نے کلام کیا ہے۔ اسنادہ موضوع، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده موضوع، رواه البيھقي في شعب الإيمان (46330، نسخة محققة: 4313) ٭ الفضل بن عيسي الرقاشي: منکر الحديث و حفص بن عمر يروي الموضوعات.»
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الرجل ليكون من اهل الصلاة والصوم والزكاة والحج والعمرة» . حتى ذكر سهام الخير كلها: «وما يجزى يوم القيامة إلا بقدر عقله» وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الرَّجُلَ لِيَكُونُ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَالزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ» . حَتَّى ذَكَرَ سِهَامَ الْخَيْرِ كُلَّهَا: «وَمَا يُجْزَى يَوْم الْقِيَامَة إِلا بقدرِ عقله»
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بلا شبہ ایک شخص نماز پڑھنے والوں، روزہ رکھنے والوں، زکوۃ دینے والوں، حج اور عمرہ کرنے والوں میں ہو گا۔ “ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام اچھے کاموں کا ذکر کیا۔ ”لیکن اس شخص کو ثواب اس کی عقل کے تناسب سے دیا جائے گا۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (4637، نسخة محققة: 4316) ٭ منصور بن سقير أو صقير: ضعيف و قال ابن معين في حديثه: ھذاحديث باطل.»
وعن ابي ذر قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا ابا ذر لا عقل كالتدبير ولا ورع كالكف ولاحسب كحسن الخلق» وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ لَا عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ وَلَا ورع كالكفِّ ولاحسب كحسن الْخلق»
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”ابوذر! تدبیر جیسی کوئی عقل نہیں اور مشتبہات سے رک جانے جیسا کوئی تقویٰ نہیں اور نہ ہی حسن خلق جیسا کوئی حسب و شرف ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (4646، نسخة محققة: 4325، 7668) [و ابن ماجه (4218بسند آخر و سنده ضعيف)] ٭ إبراھيم بن يحيي الغساني: ضعيف مجروح.»
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الاقتصاد في النفقة نصف المعيشة والتودد إلى الناس نصف العقل وحسن السؤال نصف العلم» روى البيهقي الاحاديث الاربعة في شعب الإيمان وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الِاقْتِصَادُ فِي النَّفَقَةِ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ وَالتَّوَدُّدُ إِلَى النَّاسِ نِصْفُ الْعَقْلِ وَحُسْنُ السُّؤَالِ نِصْفُ الْعِلْمِ» رَوَى الْبَيْهَقِيُّ الْأَحَادِيثَ الْأَرْبَعَةَ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”خرچ کرنے میں میانہ روی نصف معیشت ہے، (اچھے) لوگوں سے دوستی اور محبت نصف عقل ہے، اور حسن سوال نصف علم ہے۔ “ امام بیہقی نے یہ چاروں احادیث شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔ اسنادہ ضعیف منکر، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف منکر، رواه البيھقي في شعب الإيمان (6568، نسخة محققة: 6148) ٭ فيه مخيس بن تميم و حفص بن عمر: مجھولان (انظر الجرح و التعديل 442/8 وغيره) و قال أبو حاتم: ’’ھذا حديث باطل‘‘. (علل الحديث 284/2 ح 2354)»
عن عائشة رضي الله عنها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله تعالى رفيق يحب الرفق ويعطي على الرفق ما لا يعطي على العنف وما لا يعطي على ما سواه» . رواه مسلم. وفي رواية له: قال لعائشة: «عليك بالرفق وإياك والعنف والفحش إن الرفق لا يكون في شيء إلا زانه ولا ينزع من شيء إلا شانه» عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: قَالَ لِعَائِشَةَ: «عَلَيْكِ بِالرِّفْقِ وَإِيَّاكِ وَالْعُنْفَ وَالْفُحْشَ إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْء إِلَّا شانه»
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے، نرمی کو پسند فرماتا ہے، اور وہ جس قدر نرمی پر عطا کرتا ہے، وہ سختی پر عطا نہیں کرتا نہ اس کے علاوہ کسی اور چیز پر عطا کرتا ہے۔ “ اور مسلم ہی کی روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”نرمی اختیار کرو، سختی اور بدزبانی سے اجتناب کرو، بے شک جس چیز میں نرمی ہوتی ہے تو وہ اس (چیز) کو مزین کر دیتی ہے اور جس چیز سے اسے نکال لیا جاتا ہے تو وہ اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه مسلم (79. 2593/77) والبخاري (الرواية الثانية: 6030)»
وعن جرير عن النبي صلى الله عليه وسلم: «من يحرم الرفق يحرم الخير» . رواه مسلم وَعَنْ جَرِيرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ يُحْرَمِ الْخَيْرَ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
جریر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نرمی سے محروم شخص (ہر قسم کی) خیر و بھلائی سے محروم ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (74/ 2592)»
وعن ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على رجل من الانصار وهو يعظ اخاه في الحياء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «دعه فإن الحياء من الإيمان» . متفق عليه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الْإِيمَانِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے متعلق نصیحت کر رہا تھا (کہ اتنے شرمیلے نہ بنو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو، کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (24) و مسلم (59/ 36)»