وعن عوف بن مالك الاشجعي قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك وهو في قبة من ادم فسلمت فرد علي وقال: «ادخل» فقلت: اكلي يا رسول الله؟ قال: «كلك» فدخلت. قال عثمان بن ابي عاتكة: إنما قال ادخل كلي من صغر القبة. رواه ابو داود وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ فَسَلَّمْتُ فَرَدَّ عَلَيَّ وَقَالَ: «ادْخُلْ» فَقُلْتُ: أَكُلِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «كُلُّكَ» فَدَخَلْتُ. قَالَ عُثْمَان بن أبي عَاتِكَة: إِنَّمَا قَالَ أَدْخُلُ كُلِّي مِنْ صِغَرِ الْقُبَّةِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ چمڑے کے چھوٹے سے خیمے میں تھے، میں نے سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ”اندر آ جاؤ۔ “ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سارا (اندر آ جاؤں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم سارے کے سارے (اندر آ جاؤ)۔ “ میں اندر چلا گیا، عثمان بن ابی عاتکہ (راوی) بیان کرتے ہیں، اس نے کہا: کیا میں چھوٹے سے خیمے میں سارے کا سارا آ جاؤں؟ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (5000)»
وعن النعمان بن بشير قال: استاذن ابو بكر على النبي صلى الله عليه وسلم فسمع صوت عائشة عاليا فلما دخل تناولها ليلطمها وقال: لا اراك ترفعين صوتك على رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يحجزه وابو بكر مغضبا. فقال النبي صلى الله عليه وسلم حين خرج ابو بكر: «كيف رايتني انقذتك من الرجل؟» . قالت: فمكث ابو بكر اياما ثم استاذن فوجدهما قد اصطلحا فقال لهما: ادخلاني في سلمكما كما ادخلتماني في حربكما فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «قد فعلنا قد فعلنا» . رواه ابو داود وَعَن النعمانِ بن بشيرٍ قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ صَوْتَ عَائِشَةَ عَالِيًا فَلَمَّا دَخَلَ تَنَاوَلَهَا لِيَلْطِمَهَا وَقَالَ: لَا أَرَاكِ تَرْفَعِينَ صَوْتَكِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يحجزه وَأَبُو بَكْرٍ مُغْضَبًا. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ: «كَيْفَ رَأَيْتِنِي أَنْقَذْتُكِ مِنَ الرَّجُلِ؟» . قَالَتْ: فَمَكَثَ أَبُو بَكْرٍ أَيَّامًا ثُمَّ اسْتَأْذَنَ فَوَجَدَهُمَا قَدِ اصْطَلَحَا فَقَالَ لَهُمَا: أَدْخِلَانِي فِي سِلْمِكُمَا كَمَا أَدْخَلْتُمَانِي فِي حَرْبِكُمَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ فَعَلْنَا قَدْ فَعَلْنَا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آنے کی اجازت طلب کی اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ کی آواز بلند ہوتے ہوئے سنی، جب وہ اندر تشریف لے آئے، تو انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ کو پکڑا تا کہ انہیں طمانچہ ماریں، اور انہوں نے فرمایا: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر آواز بلند کرتے ہوئے نہ دیکھوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو روکنے لگے اور وہ غصے کی حالت میں باہر تشریف لے گئے، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکل گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے مجھے کیسے دیکھا کہ میں نے تمہیں اس آدمی (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ) سے بچایا۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ چند دنوں کے بعد پھر تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو ان دونوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عائشہ رضی اللہ عنہ) کو صلح کی حالت میں پایا اور انہوں نے ان دونوں سے کہا: تم مجھے اپنی صلح میں داخل کرو جیسے تم نے اپنی لڑائی میں مجھے داخل کیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کر چکے، ہم کر چکے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4999) ٭ أبو إسحاق مدلس و عنعن و سقط ذکره من السنن الکبري للنسائي (8495)»
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تمار اخاك ولا تمازحه ولا تعده موعدا فتخلفه» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وهذا الباب خال عن الفصل الثالث وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تُمَارِ أَخَاكَ وَلَا تُمَازِحْهُ وَلَا تَعِدْهُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حديثٌ غَرِيب وَهَذَا الْبَابُ خَالٍ عَنِ الْفَصْلِ الثَّالِثِ
ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے (مسلمان) بھائی سے جھگڑا نہ کر اور نہ اس سے (تکلیف دہ) مذاق نہ کر اور نہ ہی اس سے ایسا وعدہ کر جس کی تو خلاف ورزی کرے۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1995) ٭ ليث بن أبي سليم: ضعيف.»
عن ابي هريرة قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الناس اكرم؟ فقال: «اكرمهم عند الله اتقاهم» . قالوا: ليس عن هذا نسالك. قال: «فاكرم الناس يوسف نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله» . قالوا: ليس عن هذا نسالك. قال: «فممن معادن العرب تسالوني؟» قالوا: نعم. قال: فخياركم في الجاهلية خياركم في الإسلام إذا فقهوا. متفق عليه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَي النَّاس أكْرم؟ فَقَالَ: «أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاهُمْ» . قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ. قَالَ: «فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ» . قَالُوا: لَيْسَ عَن هَذَا نَسْأَلك. قَالَ: «فَمِمَّنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي؟» قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا: لوگوں میں سے زیادہ معزز شخص کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے اللہ کے ہاں زیادہ معزز شخص وہ ہے جو ان میں سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے۔ “ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہم اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تب معزز شخص یوسف ؑ اللہ کے نبی، اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے، اللہ کے خلیل (ابراہیم ؑ) کے پڑپوتے ہیں۔ “ صحابہ نے عرض کیا: ہم اس کے بارے میں آپ سے دریافت نہیں کر رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم عرب قبائل کے متعلق مجھ سے دریافت کر رہے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو جاہلیت میں بہتر تھے وہی تمہارے اسلام میں بہتر ہیں بشرطیکہ وہ (آداب شریعت کے متعلق) سمجھ بوجھ حاصل کریں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4689) و مسلم (2378/168)»
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الكريم ابن الكريم ابن الكريم ابن الكريم يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم» . رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْكَرِيمُ ابْنُ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بنِ إِسحاقَ بن إِبراهيمَ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کریم بن کریم بن کریم بن کریم، یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ہیں۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3390)»
وعن البراء بن عازب قال: في يوم حنين كان ابو سفيان بن الحارث آخذا بعنان بغلته يعني بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما غشيه المشركون نزل فجعل يقول «انا النبي لا كذب انا ابن عبد المطلب» قال: فما رئي من الناس يومئذ اشد منه. متفق عليه وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: فِي يَوْمِ حُنَيْنٍ كَانَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذًا بِعِنَانِ بَغْلَتِهِ يَعْنِي بَغْلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا غَشِيَهُ الْمُشْرِكُونَ نَزَلَ فَجَعَلَ يَقُولُ «أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبَ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ» قَالَ: فَمَا رُئِيَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ أَشَدُّ مِنْهُ. مُتَّفق عَلَيْهِ
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں غزوۂ حنین کے روز ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ آپ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے، جب مشرکین نے آپ کو ہر طرف سے گھیر لیا تو آپ (سواری سے) نیچے اترے اور فرمانے لگے: ”میں نبی ہوں کوئی جھوٹ نہیں، اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ “ راوی بیان کرتے ہیں: اس دن تمام لوگوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ شجاع کوئی نہیں دیکھا گیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3042) و مسلم (80. 1776/78)»
وعن انس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا خير البرية فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ذاك إبراهيم» . رواه مسلم وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيم» . رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے آپ سے پوچھا: مخلوق میں سے بہترین شخصیت! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ابراہیم ؑ ہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2369/150)»
وعن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تطروني كما اطرت النصارى ابن مريم فإنما انا عبده فقولوا: عبد الله ورسوله. متفق عليه وَعَنْ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا: عبدُ الله ورسولُه. مُتَّفق عَلَيْهِ
عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری مدح میں ایسے مبالغہ نہ کرنا جیسے نصاریٰ نے ابن مریم کی مدح میں مبالغہ سے کام لیا، میں تو اس کا بندہ ہوں، تم کہوں، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3445) و مسلم (1691/5)»
وعن عياض بن حمار المجاشعي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن الله اوحى إلي: ان واضعوا حتى لا يفخر احد على احد ولا يبغي احد على احد. رواه مسلم وَعَن عياضِ بن حمارٍ المجاشعيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ: أَنْ َوَاضَعُوا حَتَّى لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ وَلَا يبغيَ أحدٌ على أحد. رَوَاهُ مُسلم
عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو حتی کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر ظلم کرے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2865/64)»
عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لينتهين اقوام يفتخرون بآبائهم الذين ماتوا إنما هم فحم من جهنم او ليكونن اهون على الله من الجعل الذي يدهده الخراء بانفه إن الله قد اذهب عنكم عبية الجاهلية وفخرها بالآباء إنما هو مؤمن تقي او فاجر شقي الناس كلهم بنو آدم وآدم من تراب» . رواه الترمذي وابو داود عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْتَخِرُونَ بِآبَائِهِمُ الَّذِينَ مَاتُوا إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ جَهَنَّمَ أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنَ الْجُعَلِ الَّذِي يُدَهْدِهُ الْخِرَاءَ بِأَنْفِهِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ إِنَّمَا هُوَ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ أَوْ فَاجِرٌ شَقِيٌّ النَّاسُ كُلُّهُمْ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اپنے فوت شدہ آباؤ اجداد پر فخر کرنے سے باز آ جائیں، وہ تو دوزخ کے کوئلے ہیں، یا وہ اللہ کے ہاں کرم نجاست سے بھی زیادہ حقیر ہیں جو کہ اپنی ناک سے غلاظت دھکیلتا ہے، بے شک اللہ نے آباؤ اجداد پر تمہارے جاہلی فخر و غرور کو ختم کر دیا ہے، بس وہ (فخر کرنے والا) مؤمن متقی ہے یا فاجر بدبخت، تمام لوگ آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدم ؑ مٹی سے (پیدا ہوئے) ہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3955. 3956 وقال: حسن) و أبو داود (5116)»