وروى الترمذي نحوه عن جابر وفي روايته قالوا: يا رسول الله قد علمنا الثرثارون والمتشدقون فما المتفيقهون؟ قال: «المتكبرون» وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ نَحْوَهُ عَنْ جَابِرٍ وَفِي رِوَايَتِهِ قَالُوا: يَا رَسُول الله قد علمنَا الثرثارونَ والمتشدقون فَمَا المتفيقهون؟ قَالَ: «المتكبرون»
امام ترمذی نے جابر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کیا ہے، ان کی روایت میں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم باتونی اور منہ پھٹ شخص کے متعلق تو جانتے ہیں، لیکن ”المتفیھقون“ سے مراد کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تکبر کرنے والے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2018 وقال: حسن غريب)»
وعن سعد بن ابي وقاص قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تقوم الساعة حتى يخرج قوم ياكلون بالسنتهم كما تاكل البقرة بالسنتها» رواه احمد وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ قَوْمٌ يَأْكُلُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ كَمَا تَأْكُلُ الْبَقَرَةُ بألسنتها» رَوَاهُ أَحْمد
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ ایک قوم کا ظہور ہو گا وہ اپنی زبانوں کے ذریعے (مدحہ سرائی کر کے مال کما کر) ایسے کھائیں گے جیسے گائے اپنی زبان کے ساتھ کھاتی ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (184/1 ح 1597) ٭ السند منقطع، زيد بن أسلم لم يسمع من سعد رضي الله عنه و للحديث شواھد ضعيفة في مسند الإمام أحمد (175/1. 176) و الصحيحة (419) وغيرهما و الحديث الآتي يغني عنه.»
وعن عبد الله بن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله يبغض البليغ من الرجال الذي يتخلل بلسانه كما يتخلل الباقرة بلسانها» . رواه الترمذي وابو داود وقال الترمذي: هذا حديث غريب وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ كَمَا يَتَخَلَّلُ الْبَاقِرَةُ بِلِسَانِهَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيث غَرِيب
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ چرب زبان اور مبالغے سے کام لینے والے اس شخص سے دشمنی رکھتا ہے جو زبان کی کمائی کھاتا ہے جیسا کہ گائے زبان سے چارہ کھاتی ہے۔ “ ترمذی، ابوداؤد، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2853) و أبو داود (5005)»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مررت ليلة اسري بي بقوم تقرض شفاههم بمقاريض النار فقلت: يا جبريل من هؤلاء؟ قال: هؤلاء خطباء امتك الذين يقولون ما لا يفعلون. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بقومٍ تُقْرَضُ شفاهُهم بمقاريض النَّارِ فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ خُطَبَاءُ أُمَّتِكَ الَّذِينَ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”معراج کی رات میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، میں نے کہا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ آپ کی امت کے خطیب حضرات ہیں، جن کے قول و فعل میں تضاد تھا۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن و يأتي (5149) ورواه الترمذي (لم أجده) [و أحمد (180/3)] ٭ فيه علي بن زيد بن جدعان ضعيف و للحديث شواھد عند ابن حبان (الموارد: 35، الإحسان: 53) و أبي نعيم (حلية الأولياء 172/8) و ابن أبي حاتم في التفسير (100/1. 101 ح 472 و سنده حسن) وغيرهم.»
قال الشيخ زبير على زئي: حسن و يأتي (5149) ورواه الترمذي (لم أجده)
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تعلم صرف الكلام ليسبي به قلوب الرجال او الناس لم يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَعَلَّمَ صَرْفَ الْكَلَامِ لِيَسْبِيَ بِهِ قُلُوبَ الرِّجَالِ أَوِ النَّاسِ لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عدلا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کلام صرف اس لئے سیکھتا ہے تا کہ وہ اس کے ذریعے مردوں یا لوگوں کے دلوں پر قابو پا سکے تو روزِ قیامت اللہ ��س کی طرف سے کوئی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں کرے گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (5006) ٭ في سماع الضحاک بن شرحبيل من الصحابة نظر کما أشارالمنذري رحمه الله فالسند مظنة الإنقطاع.»
وعن عمرو بن العاص انه قال يوما وقام رجل فاكثر القول. فقال عمرو: لو قصد في قوله لكان خيرا له سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لقد رايت-او امرت-ان اتجوز في القول فإن الجواز هو خير» . رواه ابو داود وَعَن عمْرِو بن العاصِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا وَقَامَ رَجُلٌ فَأَكْثَرَ الْقَوْلَ. فَقَالَ عَمْرٌو: لَوْ قَصَدَ فِي قَوْلِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَقَدْ رَأَيْتُ-أَوْ أُمِرْتُ-أَنْ أَتَجَوَّزَ فِي الْقَوْلِ فَإِنَّ الْجَوَازَ هُوَ خير» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک روز فرمایا ایک آدمی کھڑا ہوا تو اس نے (اظہارِ فصاحت کے لیے) بات کو طول دیا تو عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر یہ بات کرتے وقت میانہ روی اختیار کرتا تو اس کے لیے بہتر ہوتا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں نے جانا یا مجھے حکم دیا گیا کہ میں بات میں اختصار کروں، کیونکہ اختصار بہتر ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (5008)»
وعن صخر بن عبد الله بن بريدة عن ابيه عن جده قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن من البيان سحرا وإن من العلم جهلا وإن من الشعر حكما وإن من القول عيالا» . رواه ابو داود وَعَنْ صَخْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَن أَبِيه عَن جدِّه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا وَإِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
صخر بن عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بے شک بعض بیان جادو جیسا اثر رکھتے ہیں، بعض علم جہالت ہوتے ہیں، بعض شعر حکمت ہوتے ہیں اور بعض قول بوجھ ہوتے ہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (5012) ٭ عبد الله بن ثابت النحوي: مجھول و شيخه: مستور.»
عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع لحسان منبرا في المسجد يقوم عليه قائما يفاخر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم اوينافح. ويقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله يؤيد حسان بروح القدس ما نافح او فاخر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم» . رواه البخاري عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ يَقُومُ عَلَيْهِ قَائِمًا يُفَاخِرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أوينافح. وَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوحِ الْقُدُسِ مَا نَافَحَ أَوْ فَاخَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھواتے، وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے فخر کرتے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”بے شک اللہ جبریل ؑ کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دفاع کرتا ہے یا فخر کرتا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ البخاری تعلیقا۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه البخاري (تعليقًا انظر تحفة الاشراف 10/12 ح 16351، و رواه البخاري (3531 ببعضه) [والترمذي (2846 وقال: حسن صحيح) و أبو داود (5015)]»
وعن انس قال: كان للنبي حاد يقال له: انجشة وكان حسن الصوت. فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «رويدك يا انجشة لا تكسر القوارير» . قال قتادة: يعني ضعفة النساء. متفق عليه وَعَن أنسٍ قَالَ: كَانَ لِلنَّبِيِّ حَادٍ يُقَالُ لَهُ: أَنْجَشَةُ وَكَانَ حَسَنَ الصَّوْتِ. فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُوَيْدَكَ يَا أَنْجَشَةُ لَا تَكْسِرِ الْقَوَارِيرَ» . قَالَ قَتَادَةُ: يَعْنِي ضَعْفَةَ النِّسَاءِ. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک شخص آپ کا حدی خوان تھا اسے انجشہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، اس کی آواز بہت اچھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”انجشہ! ٹھہرو ٹھہرو، شیشوں کو مت چور کرو۔ “ قتادہ ؒ نے فرمایا: آپ نے یہ خواتین کی نزاکت کے پیش نظر فرمایا تھا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6211) و مسلم (2323/73)»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: ذكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم الشعر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هو كلام فحسنه حسن وقبيحه قبيح» . رواه الدارقطني وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشِّعْرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ كَلَامٌ فَحَسَنُهُ حَسَنٌ وَقَبِيحُهُ قَبِيحٌ» . رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شعر ذکر کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایک کلام ہے، اس میں سے جو اچھا ہے وہ اچھا ہے اور جو بُرا ہے وہ بُرا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارقطنی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارقطني (155/4 ح 4261) [والبيھقي (239/10)] ٭ فيه عبد العظيم بن حبيب، قال الدارقطني: ’’ليس بثقة‘‘.»