وعن ابي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تدعون يوم القيامة باسمائكم واسماء آبائكم فاحسنوا اسمائكم» رواه احمد وابو داود وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أسمائكم» رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”روزِ قیامت تمہیں تمہارے اور تمہارے آباء کے نام سے پکارا جائے گا، اپنے نام اچھے رکھو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (194/5 ح 22035) و أبو داود (4948) ٭ قال أبو حاتم الرازي: ’’عبد الله بن أبي زکريا لم يسمع أبا الدرداء‘‘.»
وعن ابي هريرة ان النبي صلى الله عليه وسلم؟ نهى ان يجمع احد بين اسمه وكنيته ويسمى ابا القاسم. رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ نَهَى أَنْ يَجْمَعَ أَحَدٌ بَيْنَ اسْمه وكُنيتِه وَيُسمى أَبَا الْقَاسِم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص اپنے نام اور اپنی کنیت کو اس طرح اکٹھا کر کے محمد ابوالقاسم نام رکھ لے۔ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (2841 وقال: حسن صحيح)»
وعن جابر: ان النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: «إذا سميتم باسمي فلا تكتنوا بكنيتي» . رواه الترمذي وابن ماجه. وقال الترمذي: هذا حديث غريب. وفي رواية ابي داود قال: «من تسمى باسمي فلا يكتن بكنيتي ومن تكنى بكنيتي فلا يتسم باسمي» وَعَنْ جَابِرٌ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «إِذَا سَمَّيْتُمْ بِاسْمِي فَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي دَاوُدَ قَالَ: «مَن تسمَّى باسمي فَلَا يَكْتَنِ بِكُنْيَتِي وَمَنْ تَكَنَّى بِكُنْيَتِي فَلَا يَتَسَمَّ باسمي»
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میرے نام پر نام رکھو تو پھر میری کنیت پر کنیت مت رکھو۔ “ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، اور ابوداؤد کی روایت میں ہے، فرمایا: ”جس نے میرے نام پر نام رکھا تو وہ میری کنیت نہ رکھے، اور جس نے میری کنیت پر کنیت رکھی تو وہ میرے نام پر نام نہ رکھے۔ “ صحیح، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (2842) و ابن ماجه (3535) و أبو داود (4966)»
وعن عائشة رضي الله عنها ان امراة قالت: يا رسول الله إني ولدت غلاما فسميته محمدا وكنيته ابا القاسم فذكر لي انك تكره ذلك. فقال: «ما الذي احل اسمي وحرم كنيتي؟ او ماالذي حرم كنيتي واحل اسمي؟» . رواه ابو داود. وقال محيي السنة: غريب وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَلَدْتُ غُلَامًا فَسَمَّيْتُهُ مُحَمَّدًا وَكَنَّيْتُهُ أَبَا الْقَاسِمِ فَذُكِرَ لِي أَنَّكَ تَكْرَهُ ذَلِكَ. فَقَالَ: «مَا الَّذِي أَحَلَّ اسْمِي وَحرم كنيتي؟ أَو ماالذي حَرَّمَ كُنْيَتِي وَأَحَلَّ اسْمِي؟» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ. وَقَالَ محيي السّنة: غَرِيب
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام محمد اور اس کی کنیت ابوالقاسم رکھی ہے، لیکن مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے وہ جس نے حلال قرار دیا میرا نام رکھنا اور حرام کیا میری کنیت رکھنا، یا کون ہے وہ جس نے حرام کیا میری کنیت رکھنا اور حلال کیا میرا نام رکھنا؟“ ابوداؤد، اور محی السنہ ؒ نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4968) ٭ فيه محمد بن عمران الحجبي: مستور.»
وعن محمد بن الحنفية عن ابيه قال: قلت: يا رسول الله ارايت إن ولد لي بعدك ولد اسميه باسمك واكنيه بكنيتك؟ قال: «نعم» . رواه ابو داود وَعَن مُحَمَّد بن الحنفيَّةِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ وُلِدَ لِي بَعْدَكَ وَلَدٌ أُسَمِّيهِ بِاسْمِكَ وَأُكَنِّيهِ بِكُنْيَتِكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
محمد بن حنفیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے بتائیں اگر آپ کے بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو تو میں آپ کے نام پر اس کا نام اور آپ کی کنیت پر اس کی کنیت رکھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (4967)»
وعن انس قال: كناني رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ ببقلة كنت اجتنيها. رواه الترمذي وقال: هذا حديث لا نعرفه إلا من هذا الوجه. وفي «المصابيح» صححه وَعَن أنس قَالَ: كَنَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ بِبَقْلَةٍ كُنْتُ أَجْتَنِيهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْه. وَفِي «المصابيح» صَححهُ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں ایک بوٹی چنا کرتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر میری کنیت (ابوحمزہ) رکھی۔ اسے ترمذی نے بیان کیا اور فرمایا: اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، اور مصابیح میں ہے کہ اس نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (3830 و لم يصححه في نسختنا، بل قال: غريب) و ذکره البغوي في مصابيح السنة (307/3 ح 3708) ٭ فيه جابر الجعفي: ضعيف رافضي مدلس و شيخه أبو نصر خيثمة بن أبي خيثمة: لين الحديث.»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: إن النبي صلى الله عليه وسلم؟ كان يغير الاسم القبيح. رواه الترمذي وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ كَانَ يُغَيِّرُ الِاسْم الْقَبِيح. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بُرا نام تبدیل کر دیا کرتے تھے۔ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (2839)»
وعن بشير بن ميمون عن اسامة بن اخدري ان رجلا يقال له اصرم كان في النفر الذين اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما اسمك؟» قال: «بل انت زرعة» . رواه ابو داود وَعَن بشير بن مَيْمُون عَن أُسَامَةَ بْنِ أَخْدَرِيٍّ أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ أصْرمُ كانَ فِي النَّفرِ الَّذِينَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا اسْمك؟» قَالَ: «بَلْ أَنْتَ زُرْعَةُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
بشیر بن میمون اپنے چچا اسامہ بن اخدری سے روایت کرتے ہیں کہ اصرم نامی ایک آدمی ان لوگوں میں شامل تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ اس نے کہا: اصرم، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم زرعہ ہو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (4954)»
وقال: وغير النبي صلى الله عليه وسلم اسم العاص وعزير وعتلة وشيطان والحكم وغراب وحباب وشهاب وقال: تركت اسانيدها للاختصار وَقَالَ: وَغَيَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْم الْعَاصِ وعزير وَعَتَلَةَ وَشَيْطَانٍ وَالْحَكَمِ وَغُرَابٍ وَحُبَابٍ وَشِهَابٍ وَقَالَ: تركت أسانيدها للاختصار
اور ابوداؤد نے کہا، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاص، عزیز، عتلہ، شیطان، حکم، غراب، حباب اور شہاب نام بدل دیے تھے، اور انہوں نے کہا: میں نے اختصار کی خاطر ان کی اسناد بیان نہیں کیں۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (4956)»
وعن ابي مسعود الانصاري قال لابي عبد الله او قال ابو عبد الله لابي مسعود: ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في (زعموا) قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «بئس مطية الرجل» . رواه ابو داود وقال: إن ابا عبد الله حذيفة وَعَن أبي مسعودٍ الأنصاريِّ قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَوْ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ لِأَبِي مَسْعُودٍ: مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي (زَعَمُوا) قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «بِئْسَ مَطِيَّةُ الرَّجُلِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَقَالَ: إِنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ حُذَيْفَة
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے ابو عبداللہ سے یا ابو عبداللہ نے ابو مسعود سے کہا: تم نے لفظ ”زَعَمُوْا“(لوگوں کا خیال ہے) کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا فرماتے ہوئے سنا؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا: ”آدمی کا ایسے انداز میں گفتگو کرنا بُرا ہے۔ “ ابوداؤد، اور انہوں نے کہا: ابو عبداللہ سے مراد حذیفہ ہیں۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (4972)»