وعن سالم عن ابيه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الإسبال في الإزار والقميص والعمامة من جر منها شيئا خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة» . رواه ابو داود والنسائي وابن ماجه وَعَن سَالم عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْإِسْبَالُ فِي الْإِزَارِ وَالْقَمِيصِ وَالْعِمَامَةِ مِنْ جَرَّ مِنْهَا شَيْئًا خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيّ وَابْن مَاجَه
سالم اپنے والد سے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کپڑے کا لٹکانا تہبند، قمیص اور عمامے میں ہے۔ جو شخص ان میں سے کچھ بھی ازراہِ تکبر لٹکاتا ہے تو اللہ روزِ قیامت اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (4085) و النسائي (208/8 ح 5336) و ابن ماجه (3576)»
وعن ابي كبشة قال: كان كمام اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بطحا. رواه الترمذي وقال: هذا حديث منكر وَعَن أبي كبشةَ قَالَ: كَانَ كِمَامُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُطْحًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حديثٌ مُنكر
ابو کبشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی ٹوپیاں سروں کے ساتھ لگی ہوئیں تھیں (یعنی اوپر اٹھی ہوئی نہیں تھیں)۔ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث منکر ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1782) ٭ أبو سعيد عبد الله بن بسر: ضعيف.»
وعن ام سلمة قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حين ذكر الإزار: فالمراة يا رسول الله؟ قال: «ترخي شبرا» فقالت: إذا تنكشف عنها قال: «فذراعا لا تزيد عليه» . رواه مالك وابو داود والنسائي وابن ماجه وَعَن أم سَلمَة قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ ذَكَرَ الْإِزَارَ: فَالْمَرْأَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «تُرْخِي شِبْرًا» فَقَالَتْ: إِذًا تَنْكَشِفُ عَنْهَا قَالَ: «فَذِرَاعًا لَا تَزِيدُ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ مَالِكٌ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ وَابْن مَاجَه
ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازار کا تذکرہ فرمایا تو انہوں نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا، اللہ کے رسول! عورت کے لیے تہبند میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایک بالشت نیچے لٹکائے۔ “ انہوں نے عرض کیا: تب تو اس کے پاؤں ننگے ہونے کا امکان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ہاتھ، اور اس سے زیادہ نہیں۔ “ صحیح، رواہ املک و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه مالک (915/2 ح 1765) و أبو داود (4117) و النسائي (209/8 ح5339. 5341) و ابن ماجه (3580)»
وفي رواية الترمذي والنسائي عن ابن عمر فقالت: إذا تنكشف اقدامهن قال: «فيرخين ذراعا لا يزدن عليه» وَفِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ وَالنَّسَائِيِّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَتْ: إِذًا تَنْكَشِفُ أَقْدَامُهُنَّ قَالَ: «فَيُرْخِينَ ذِرَاعًا لَا يزدن عَلَيْهِ»
ترمذی اور نسائی کی ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: تب تو ان کے پاؤں نظر آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایک ہاتھ (ازار) لٹکا لیں اور اس سے زیادہ نہیں۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (1731 وقال: حسن صحيح) و النسائي (209/8 ح 5338)»
وعن معاوية بن قرة عن ابيه قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم في رهط من مزينة فبايعوه وإنه لمطلق الازرار فادخلت يدي في جيب قميصه فمسست الخاتم. رواه ابو داود وَعَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ مُزَيْنَةَ فَبَايَعُوهُ وَإِنَّهُ لَمُطْلَقُ الْأَزْرَارِ فَأَدْخَلْتُ يَدِي فِي جَيْبِ قَمِيصِهِ فَمَسِسْتُ الْخَاتم. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
معاویہ بن قرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں مزینہ قبیلہ کے ایک قافلے کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے آپ کی بیعت کی، درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بٹن کھلے ہوئے تھے، میں نے آپ کی قمیص کے گریبان میں اپنا ہاتھ داخل کیا تو میں نے مہر نبوت کو چھوا۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4082)»
وعن سمرة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البسوا الثياب البيض فإنها اطهر واطيب وكفنوا فيها موتاكم» . رواه احمد والترمذي والنسائي وابن ماجه وَعَن سَمُرَة أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْبَسُوا الثِّيَابَ الْبِيضَ فَإِنَّهَا أَطْهَرُ وَأَطْيَبُ وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سفید لباس پہنا کرو کیونکہ وہ زیادہ پاکیزہ اور زیادہ طیب ہے اور اپنے مُردوں کو اسی میں کفناؤ۔ “ حسن، رواہ احمد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (13/5 ح 20416) و الترمذي (2810 وقال: حسن صحيح) و النسائي (34/4 ح1897) و ابن ماجه (3567)»
وعن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اعتم سدل عمامته بين كتفيه. رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اعْتَمَّ سَدَلَ عِمَامَتَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمامہ باندھتے تو اپنے عمامے کا شملہ اپنے کندھوں کے درمیان لٹکا لیتے۔ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (1736)»
وعن عبد الرحمن بن عوف قال: عممني رسول الله صلى الله عليه وسلم فسدلها بين يدي ومن خلفي. رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: عَمَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَدَلَهَا بَيْنَ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر دستار باندھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ایک کنارے کو آگے کی طرف اور دوسرے کنارے کو پیچھے کی طرف لٹکا دیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4079) ٭ شيخ من أھل المدينة: مجھول، کما قال المنذري وغيره.»
وعن ركانة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وإسناده ليس بالقائم وَعَن ركَانَة عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَرْقُ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ الْعَمَائِمُ عَلَى الْقَلَانِسِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَاده لَيْسَ بالقائم
رکانہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے اور مشرکین کے درمیان جو فرق ہے وہ ٹوپیوں پر عمامے باندھنا ہے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد درست نہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1784) [و أبو داود (4078)] ٭ فيه أبو الحسن و أبو جعفر: مجھولان.»
وعن ابي موسى الاشعري ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «احل الذهب والحرير للإناث من امتي وحرم على ذكورها» . رواه الترمذي والنسائي وقال الترمذي: هذا صحيح وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُحِلَّ الذَّهَبُ وَالْحَرِيرُ لِلْإِنَاثِ مِنْ أُمَّتِي وَحُرِّمَ عَلَى ذُكُورِهَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ وَقَالَ التِّرْمِذِيّ: هَذَا صَحِيح
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سونا اور ریشم میری امت کی خواتین کے لیے حلال کیا گیا ہے اور اس کے مردوں پر حرام کیا گیا ہے۔ “ ترمذی، نسائی، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1720) و النسائي (161/8 ح 5151)»