وعن انس قال: وقت لنا في قص الشارب وتقليم الاظفار ونتف الإبط وحلق العانة ان لا تترك اكثر من اربعين ليلة. رواه مسلم وَعَن أَنس قَالَ: وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ وَنَتْفِ الْإِبِطِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ أَنْ لَا تُتْرَكَ أَكثر من أَرْبَعِينَ لَيْلَة. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، مونچھیں کترانے، ناخن تراشنے، بغلوں کے بال اکھاڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے متعلق ہمارے لیے وقت مقرر کیا گیا کہ ہم (انہیں) چالیس روز سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (258/51)»
وعن ابي هريرة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن اليهود والنصارى لا يصبغون فخالفوهم» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى لَا يَصبِغون فخالفوهم»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے، تم ان کی مخالف کرو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5899) و مسلم (2103/80)»
وعن جابر قال: اتي بابي قحافة يوم فتح مكة وراسه ولحيته كالثغامة بياضا فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء واجتنبوا السواد» . رواه مسلم وَعَن جَابر قَالَ: أُتِيَ بِأَبِي قُحَافَةَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَرَأْسُهُ وَلِحْيَتُهُ كَالثُّغَامَةِ بَيَاضًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «غَيِّرُوا هَذَا بِشَيْءٍ وَاجْتَنِبُوا السَّواد» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، فتح مکہ کے روز ابو قحافہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد عثمان بن عامر) کو بلایا گیا تو ان کا سر اور ان کی داڑھی ثغامہ (سفید گھاس) کی طرح سفید تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی سفیدی کو کسی دوسرے رنگ میں تبدیل کرو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2102/79)»
وعن ابن عباس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يحب موافقة اهل الكتاب فيما لم يؤمر فيه وكان اهل الكتاب يسدلون اشعارهم وكان المشركون يفرقون رؤوسهم فسدل النبي صلى الله عليه وسلم ناصيته ثم فرق بعد وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ وَكَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدُلُونَ أَشْعَارَهُمْ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرِقُونَ رؤوسهم فَسَدَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاصِيَتَهُ ثمَّ فرق بعدُ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ حکم نہ ملتا تو آپ اس میں اہل کتاب سے موافقت کرنا پسند فرماتے تھے۔ اہل کتاب اپنے بال سیدھے چھوڑتے تھے جبکہ مشرکین اپنے بالوں کی مانگ نکالا کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیشانی کے بال سیدھے چھوڑے، پھر بعد میں مانگ نکالی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5917) و مسلم (2336/90)»
وعن نافع عن ابن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن القزع. قيل لنافع: ما القزع؟ قال: يحلق بعض راس الصبي ويترك البعض والحق بعضهم التفسير بالحديث وَعَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنِ الْقَزَعِ. قِيلَ لِنَافِعٍ: مَا الْقَزَعُ؟ قَالَ: يُحْلَقُ بعضُ رَأس الصبيِّ وَيتْرك البعضُ وَألْحق بَعضهم التَّفْسِير بِالْحَدِيثِ
نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ”قزع“ سے منع فرماتے ہوئے سنا، نافع سے پوچھا گیا: ”قزع“ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: بچے کے سر کے کچھ حصے کو مونڈ دیا جائے اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے۔ بخاری، مسلم۔ اور بعض محدثین نے اس تفسیر کو حدیث کے ساتھ ملا دیا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5920) و مسلم (2120/113)»
وعن ابن عمر: ان النبي صلى الله عليه وسلم راى صبيا قد حلق بعض راسه وترك بعضه فنهاهم عن ذلك وقال: «احلقوا كله او اتركوا كله» . رواه مسلم وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى صَبِيًّا قَدْ حُلِقَ بَعْضُ رَأْسِهِ وَتُرِكَ بَعْضُهُ فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ وَقَالَ: «احْلِقُوا كُلَّهُ أَوِ اتْرُكُوا كُلَّهُ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بچہ دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ مونڈ دیا گیا تھا اور کچھ چھوڑ دیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس سے منع کر دیا اور فرمایا: ”سارا (سر) مونڈو یا سارا چھوڑ دو۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2120/112)»
وعن ابن عباس قال: لعن الله المخنثين من الرجال والمترجلات من النساء وقال: «اخرجوهم من بيوتكم» . رواه البخاري وَعَن ابْن عَبَّاس قَالَ: لعن الله الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَقَالَ: «أخرجوهم من بُيُوتكُمْ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ مشابہت کرنے والے مردوں اور مردوں کے ساتھ مشابہت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔ اور فرمایا: ”انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5886)»
وعنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال» . رواه البخاري وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ والمتشبِّهات من النِّسَاء بِالرِّجَالِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں اور مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5885)»
وعن ابن عمر ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة» وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ والواشمة والمستوشمة»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالوں میں بال جوڑنے والی اور بال جڑوانے والی پر اور بدن گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت فرمائی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5937) و مسلم (2124/119)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: لعن الله الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله فجاءته امراة فقالت: إنه بلغني انك لعنت كيت وكيت فقال: ما لي لا العن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن هو في كتاب الله فقالت: لقد قرات ما بين اللوحين فما وجدت فيه ما نقول قال: لئن كنت قراتيه لقد وجدتيه اما قرات: (ما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا)؟ قالت: بلى قال: فإنه قد نهى عنه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ لَعَنْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ فَقَالَ: مَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وجدت فِيهِ مَا نقُول قَالَ: لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأت: (مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا)؟ قَالَت: بلَى قَالَ: فإِنه قد نهى عَنهُ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے بدن گودنے والیوں اور بدن گدوانے والیوں پر، (چہرے اور پلکوں وغیرہ کے) بال نوچنے والیوں اور حسن کی خاطر دانتوں کو باریک و تیز کرنے والیوں پر، اللہ کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر لعنت فرمائی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت آئی تو اس نے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے کیا ہے کہ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کی ہو اور میں اس پر لعنت نہ کروں؟ جبکہ وہ اللہ کی کتاب میں ہے۔ اس عورت نے کہا: میں نے پورا قرآن پڑھا ہے لیکن جو آپ کہتے ہیں، میں نے وہ بات اس میں نہیں پائی۔ انہوں نے فرمایا: اگر تم نے اسے پڑھا ہوتا تو تم یہ بات اس میں پا لیتی، کیا تم نے یہ نہیں پڑھا: ”اللہ کے رسول جو تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے تمہیں منع کریں اس سے رک جاؤ۔ “ اس نے کہا: کیوں نہیں، میں نے اسے پڑھا ہے۔ انہوں نے فرمایا: تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4886) و مسلم (125/ 2125)»