وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من بات وفي يده غمر لم يغسله فاصابه شيء فلا يلومن إلا نفسه» . رواه الترمذي وابو داود وابن ماجه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ بَاتَ وَفِي يَدِهِ غَمَرٌ لَمْ يَغْسِلْهُ فَأَصَابَهُ شَيْءٌ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْن مَاجَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے ہاتھ پر چکنائی لگی ہو اور وہ اسے دھوئے بغیر سو جائے پھر کوئی چیز اسے کاٹ لے تو وہ شخص اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔ “ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1860 وقال: حسن غريب) و أبو داود (3852) و ابن ماجه (3297)»
وعن ابن عباس قال: كان احب الطعام إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الثريد من الخبز والثريد من الحيس. رواه ابو داود وَعَن ابنِ عبَّاسٍ قَالَ: كَانَ أَحَبَّ الطَّعَامَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثَّرِيدُ مِنَ الْخُبْزِ والثريدُ منَ الحَيسِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روٹی اور حیس (کھجور، پنیر اور گھی) سے تیار شدہ ثرید بہت مرغوب تھا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3783) ٭ فيه رجل من أھل البصرة مجھول و سقط ذکره في المستدرک (116/4) فصححاه (!)»
وعن ابي اسيد الانصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كلوا الزيت وادهنوا به فإنه من شجرة مباركة» . رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي وَعَن أبي أُسَيدٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلُوا الزَّيْتَ وَادَّهِنُوا بِهِ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ
ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”زیتون کا تیل کھاؤ اور بدن پر لگاؤ کیونکہ وہ مبارک درخت سے ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (1851) و ابن ماجه (3319) و الدارمي (102/2 ح 2058) [وصححه الحاکم علي شرط الشيخين (122/4) ووافقه الذهبي]»
وعن ام هانئ قالت: دخل على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «اعندك شيء» قلت: لا إلا خبز يابس وخل فقال: «هاتي ما اقفر بيت من ادم فيه خل» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَن أم هَانِئ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَعِنْدَكِ شَيْءٌ» قُلْتُ: لَا إِلَّا خُبْزٌ يَابِسٌ وَخَلٌّ فَقَالَ: «هَاتِي مَا أَقْفَرَ بَيْتٌ مِنْ أَدَمٍ فِيهِ خَلٌّ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ام ہانی رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے تو فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟“ میں نے عرض کیا، میرے پاس صرف خشک روٹی اور سرکہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لے آؤ، جس گھر میں سرکہ ہو وہ سالن سے خالی نہیں ہوتا۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (1841) ٭ أبو حمزة الثمالي ثابت بن أبي صفية ضعيف رافضي و للحديث شاھد ضعيف عند الحاکم (54/4 ح 6875) فيه سعدان بن الوليد مجھول الحال: لم أجد من وثقه و روي أحمد (353/3 ح 14807) عن جابر قال قال رسول الله ﷺ: ((نعم الإدام الخل، ما أقفر بيت في خل.)) وسنده حسن وانظر صحيح مسلم (2052)»
وعن يوسف بن عبد الله بن سلام قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم اخذ كسرة من خبز الشعير فوضع عليها تمرة فقال: «هذه إدام هذه» واكل. رواه ابو داود وَعَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ كِسْرَةً مِنْ خُبْزِ الشَّعِيرِ فَوَضَعَ عَلَيْهَا تَمْرَةً فَقَالَ: «هَذِهِ إِدَامُ هَذِهِ» وَأَكَلَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے جو کی روٹی کا ٹکڑا لیا، اس پر کھجور رکھی اور فرمایا: ”یہ اس کا سالن ہے۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے تناول فرمایا۔ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه أبو داود (3259، 3260، 3830) [والترمذي في الشمائل (182)] ٭ يحيي بن العلاء: متروک متھم بالکذب و في الطريق الثاني يزيد بن أبي أمية الأعور: مجھول و حفص بن غياث مدلس و عنعن.»
وعن سعد قال: مرضت مرضا اتاني النبي صلى الله عليه وسلم يعودني فوضع يده بين ثديي حتى وجدت بردها على فؤادي وقال: «إنك رجل مفؤود ائت الحارث بن كلدة اخا ثقيف فإنه رجل يتطبب فلياخذ سبع تمرات منم عجوة المدينة فليجاهن بنواهن ثم ليلدك بهن» . رواه ابو داود وَعَن سعدٍ قَالَ: مَرِضْتُ مَرَضًا أَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيِيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا عَلَى فُؤَادِي وَقَالَ: «إِنَّكَ رجلٌ مفْؤودٌ ائْتِ الْحَارِثَ بْنَ كَلَدَةَ أَخَا ثَقِيفٍ فَإِنَّهُ رجل يتطبب فليأخذ سبع تمرات منم عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ فَلْيَجَأْهُنَّ بِنَوَاهُنَّ ثُمَّ لِيَلُدَّكَ بِهِنَّ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں شدید بیمار ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر رکھا جس سے میں نے اپنے دل پر اس کی ٹھنڈک محسوس کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم تو دل کے مریض ہو، تم حارث بن کلدہ ثقفی کے پاس جاؤ کیونکہ وہ طبیب آدمی ہے۔ وہ مدینہ کی سات عجوہ کھجوریں لے کر انہیں گھٹلیوں سمیت کوٹ ڈالے، پھر وہ تجھے کھلا دے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3875) ٭ فيه عبد الله بن أبي نجيح مدلس و عنعن و في سماع مجاھد من سعد بن أبي وقاص نظر و فيه علة أخري.»
وعن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم كان ياكل البطيخ بالرطب. رواه الترمذي وزاد ابو داود: ويقول: «يكسر حر هذا ببرد هذا وبرد هذا بحر هذا» . وقال الترمذي: هذا حديث حسن غريب وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَزَادَ أَبُو دَاوُدَ: وَيَقُولُ: «يَكْسِرُ حَرَّ هَذَا بِبَرْدِ هَذَا وَبَرْدَ هَذَا بِحَرِّ هَذَا» . وَقَالَ التِّرْمِذِيّ: هَذَا حَدِيث حسن غَرِيب
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجوروں کے ساتھ تربوز کھایا کرتے تھے۔ ترمذی۔ امام ابوداؤد نے یہ اضافہ نقل کیا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”اس کی حرارت اس کی ٹھنڈک سے کم ہو جاتی اور اس کی ٹھنڈک اس کی حرارت سے کم ہو جاتی ہے۔ “ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (1843) و أبو داود (3836)»
وعن انس قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم بتمر عتيق فجعل يفتشه ويخرج السوس منه. رواه ابو داود وَعَن أَنَسٍ قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ عَتِيقٍ فَجَعَلَ يُفَتِّشُهُ وَيُخْرِجُ السُّوسَ مِنْهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پرانی کھجوریں پیش کی گئیں تو آپ انہیں چیر کر ان میں سے کیڑے نکالنے لگے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (3832)»
وعن ابن عمر قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم بجبنة في تبوك فدعا بالسكين فسمى وقطع. رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبُنَّةٍ فِي تَبُوكَ فَدَعَا بالسكين فسمَّى وقطَعَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوہ تبوک کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پنیر کا ٹکڑا پیش کیا گیا، آپ نے چھری منگائی، اللہ کا نام لیا اور اسے کاٹا۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (3819)»
وعن سلمان قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء فقال: «الحلال ما احل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه» . رواه ابن ماجه والترمذي وقال: هذا حديث غريب وموقوف على الاصح وَعَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ فَقَالَ: «الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وموقوفٌ على الأصحِّ
سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گھی، پنیر اور رنگے ہوئے چمڑے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جس چیز کو اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے وہ حلال ہے اور جسے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے وہ حرام ہے، اور اس نے جس چیز کے متعلق سکوت اختیار کیا تو وہ ایسی چیز کے زمرے میں ہے جس سے درگزر فرمایا۔ “ ابن ماجہ، ترمذی۔ اور امام ترمذی ؒ کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه ابن ماجه (3367) والترمذي (1726) ٭ سيف بن ھارون البرجمي ضعيف و فيه علة أخري و للحديث شاھد ضعيف عند الحاکم (375/2 ح 3419)»