ورواه البيهقي في «شعب الإيمان» عنه وعن ابن عباس وقال: في إسناده ضعيف وَرَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» عَنْهُ وَعَنِ ابْن عَبَّاس وَقَالَ: فِي إِسْنَاده ضَعِيف
امام بیہقی نے اسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے کہا: اس کی سند میں ضعف ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (9649، نسخة محققة: 9202) ٭ فيه سلم بن سالم (البلخي) ضعيف و عطاء الخراساني عنعن.»
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الخير اسرع إلى البيت الذي يؤكل فيه من الشفرة إلى سنام البعير» . رواه ابن ماجه وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخَيْرُ أَسْرَعُ إِلَى الْبَيْتِ الَّذِي يُؤْكَلُ فِيهِ مِنَ الشَّفْرَةِ إِلَى سنامِ الْبَعِير» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس گھر میں کھانا کھلایا جائے اس میں خیر و برکت اس تیزی سے داخل ہوتی ہے، جس تیزی کے ساتھ چھری اونٹ کی کوہان کو کاٹتی ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (3357) ٭ فيه جبارة بن مغلس: متھم بالکذب، و الصواب في السند: ’’المحاربي عبد الرحمٰن عن نھشل و ھو ابن سعيد‘‘ و نھشل: متروک کذبه ابن راھويه.»
عن الفجيع العامري انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ما يحل لنا من الميتة؟ قال: «ما طعامكم؟» قلنا: نغتبق ونصطبح قال ابو نعيم: فسره لي عقبة: قدح غدوة وقدح عشية قال: «ذاك وابي الجوع» فاحل لهم الميتة على هذه الحال. رواه ابو داود عَن الفجيع العامري أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا يَحِلُّ لَنَا مِنَ الْمِيتَةِ؟ قَالَ: «مَا طعامُكم؟» قُلنا: نَغْتَبِقُ وَنَصْطَبِحُ قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: فَسَّرَهُ لِي عُقْبَةُ: قَدَحٌ غُدْوَةً وَقَدَحٌ عَشِيَّةً قَالَ: «ذَاكَ وَأَبِي الْجُوعُ» فَأَحَلَّ لَهُمُ الْمَيْتَةَ عَلَى هَذِهِ الحالِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
فجیع عامری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، ہمارے لیے مردہ جانور کی کون سی چیز حلال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کھانا کیا ہے؟“ ہم نے عرض کیا: ہم شام اور صبح کے وقت دودھ کا ایک پیالہ پیتے ہیں، ابو نعیم کا بیان ہے کہ عقبہ نے مجھے وضاحت سے بتلایا کہ ایک پیالہ صبح، ایک پیالہ شام کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے باپ کی قسم! یہ تو پھر بھوک ہے۔ “ آپ نے اس حال میں ان کے لیے مردار کو حلال قرار دیا۔ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه أبو داود (3817) ٭ فيه وھب بن عقبة: وثقه ابن حبان وحده وقال الحافظ في التقريب: ’’مستور‘‘ و الحديث ضعفه البيھقي.»
وعن ابي واقد الليثي ان رجلا قال: يا رسول الله إنا نكون بارض فتصيبنا بها المخصمة فمتى يحل لنا الميتة؟ قال: «ما لم تصطبحوا وتغتبقوا او تحتفئوا بها بقلا فشانكم بها» . معناه: إذا لم تجدوا صبوحا او غبوقا ولم تجدوا بقلة تاكلونها حلت لكم الميتة. رواه الدارمي وَعَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ أَنْ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَكُونُ بِأَرْضٍ فَتُصِيبُنَا بهَا المخصمة فَمَتَى يحلُّ لنا الميتةُ؟ قَالَ: «مَا لم تصطبحوا وتغتبقوا أَوْ تَحْتَفِئُوا بِهَا بَقْلًا فَشَأْنَكُمْ بِهَا» . مَعْنَاهُ: إِذَا لَمْ تَجِدُوا صَبُوحًا أَوْ غَبُوقًا وَلَمْ تَجِدُوا بَقْلَةً تَأْكُلُونَهَا حَلَّتْ لَكُمُ الْمَيْتَةُ. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابو واقدلیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم ایسی سرزمین پر ہوتے ہیں جہاں ہم بھوک کا شکار ہو جاتے ہیں تو ہمارے لیے مردار کھانا کب حلال ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم صبح یا شام کھانے کے لیے کوئی ترکاری نہ پاؤ، تب اس حالت میں تم مردار کھا سکتے ہو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (88/2 ح 2002، نسخة محققة: 2039) ٭ حسان بن عطية: لم يسمع من أبي واقد الليثي رضي الله عنه فالسند منقطع.»
عن انس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتنفس في الشراب ثلاثا. متفق عليه. وزاد مسلم في رواية ويقول: «إنه اروى وابرا وامرا» عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَنَفَّسُ فِي الشَّرَابِ ثَلَاثًا. مُتَّفق عَلَيْهِ. وزادَ مسلمُ فِي روايةٍ ويقولُ: «إِنَّه أرْوَى وأبرَأُ وأمرأ»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پینے کے دوران تین سانس لیا کرتے تھے۔ بخاری، مسلم۔ اور امام مسلم ؒ نے ایک روایت میں یہ اضافہ نقل کیا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: ”یہ (تین سانس لینا) زیادہ پیاس بجھاتا ہے، صحت افزا ہے اور زیادہ باعث ہضم ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5631) و مسلم (123 / 2028)»
وعن ابن عباس قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من قي السقاء وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَن الشّرْب من قي السقاء
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشکیزے کے منہ سے پینے سے منع فرمایا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5629) و مسلم (لم أجده)»
وعن ابي سعيد الخدري قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اختناث الاسقية. زاد في رواية: واختناثها: ان يقلب راسها ثم يشرب منه وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اخْتِنَاثِ الْأَسْقِيَةِ. زَادَ فِي رِوَايَةٍ: وَاخْتِنَاثُهَا: أَنْ يُقْلَبَ رَأْسُهَا ثُمَّ يُشْرَبَ مِنْهُ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشکیزوں کے منہ موڑ کر ان سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔ اور ایک روایت میں اضافہ نقل کیا ہے: مشکیزوں کا منہ موڑنا یہ ہے کہ اس کا دہانہ اُلٹا کر پھر ان سے پیا جائے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5625) و مسلم (111/ 2023)»
وعن انس عن النبي صلى الله عليه وسلم انه نهى ان يشرب الرجل قائما. رواه مسلم وَعَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى أَنْ يَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
انس رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کہ آدمی کھڑا ہو کر پیئے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2024/113)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يشربن احد منكم قائما فمن نسي منكم فليستقئ» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَشْرَبَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَائِمًا فَمَنْ نَسِيَ مِنْكُمْ فَلْيَسْتَقِئْ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہو کر نہ پیئے، تم میں سے جو شخص بھول جائے تو وہ قے کر دے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (116/ 2026)»
وعن ابن عباس قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم بدلو من ماء زمزم فشرب وهو قائم وَعَن ابْن عَبَّاس قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَلْوٍ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے ڈول میں آبِ زم زم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر نوش فرمایا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1637) و مسلم (120/ 2023)»