وعن عبد الله بن ابي اوفى قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله مع القاضي ما لم يجر فإذا جار تخلى عنه ولزمه الشيطان» . رواه الترمذي وابن ماجه وفي رواية: «فإذا جار وكله إلى نفسه» وَعَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ مَعَ الْقَاضِي مَا لَمْ يَجُرْ فَإِذَا جَارَ تَخَلَّى عَنْهُ وَلَزِمَهُ الشَّيْطَانُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَفِي رِوَايَةٍ: «فَإِذَا جارَ وَكله إِلَى نَفسه»
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک قاضی ظلم نہ کرے تو اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے، جب وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اس کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ “ اور ایک روایت میں ہے: ”جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ اسے اس کے نفس کے سپرد کر دیتا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1330 و قال: غريب) و ابن ماجه (2312)»
وعن سعيد بن المسيب: ان مسلما ويهوديا اختصما إلى عمر فراى الحق لليهودي فقضى له عمر به فقال له اليهودي: والله لقد قضيت بالحق فضربه عمر بالدرة وقال: وما يدريك؟ فقال اليهودي: والله إنا نجد في التوراة انه ليس قاض يقضي بالحق إلا كان عن يمينه ملك وعن شماله ملك يسددانه ويوفقانه للحق ما دام مع الحق فإذا ترك الحق عرجا وتركاه. رواه مالك وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ: أَنَّ مُسْلِمًا وَيَهُودِيًّا اخْتَصَمَا إِلَى عُمَرَ فَرَأَى الْحَقَّ لِلْيَهُودِيِّ فَقَضَى لَهُ عُمَرُ بِهِ فَقَالَ لَهُ الْيَهُودِيُّ: وَاللَّهِ لَقَدْ قَضَيْتَ بِالْحَقِّ فَضَرَبَهُ عُمَرُ بِالدِّرَّةِ وَقَالَ: وَمَا يُدْريكَ؟ فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: وَاللَّهِ إِنَّا نَجِدُ فِي التَّوْرَاةِ أَنَّهُ لَيْسَ قَاضٍ يَقْضِي بِالْحَقِّ إِلَّا كَانَ عَنْ يَمِينِهِ مَلَكٌ وَعَنْ شِمَالِهِ مَلَكٌ يُسَدِّدَانِهِ وَيُوَفِّقَانِهِ لِلْحَقِّ مَا دَامَ مَعَ الْحَقِّ فَإِذَا تركَ الحقَّ عرَجا وترَكاهُ. رَوَاهُ مَالك
سعید بن مسیّب ؒ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مقدمہ لے کر آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ یہودی حق پر ہے اس لیے انہوں نے یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا تو یہودی نے انہیں کہا: اللہ کی قسم! آپ نے حق کے مطابق فیصلہ کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے اسے درہ مارا اور فرمایا: تجھے کیسے پتہ چلا؟ یہودی نے کہا: اللہ کی قسم! ہم تورات میں (لکھا ہوا) پاتے ہیں کہ جو قاضی حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو اس کے دائیں بائیں ایک ایک فرشتہ ہوتا ہے، وہ دونوں اسے حق کے لیے درست رکھتے ہیں، اور اسے حق دینے کی کوشش کرتے ہیں، جب وہ حق چھوڑ دیتا ہے تو وہ دونوں (آسمان کی طرف) اوپر چڑھ جاتے ہیں، اور اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ “ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه مالک (الموطأ 719/2 ح 1461 و سنده صحيح)»
وعن ابن موهب: ان عثمان بن عفان رضي الله عنه قال لابن عمر: اقض بين الناس قال: او تعاقبني يا امير المؤمنين؟ قال: وما تكره من ذلك وقد كان ابوك قاضيا؟ قال: لاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من كان قاضيا فقضى بالعدل فبالحري ان ينقلب منه كفافا» . فما راجعه بعد ذلك. رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ مَوْهَبٍ: أَنَّ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِابْنِ عُمَرَ: اقْضِ بَين النَّاس قَالَ: أَو تعاقبني يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: وَمَا تَكْرَهُ مِنْ ذَلِك وَقد كَانَ أَبوك قَاضِيا؟ قَالَ: لِأَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كَانَ قَاضِيًا فَقَضَى بِالْعَدْلِ فَبِالْحَرِيِّ أَنْ يَنْقَلِبَ مِنْهُ كَفَافًا» . فَمَا راجعَه بعدَ ذَلِك. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن موہب سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”لوگوں کے درمیان قاضی بننا قبول کرو۔ انہوں نے کہا: امیر المومنین! آپ مجھے معاف نہیں فرما دیتے؟ انہوں نے فرمایا: آپ اسے ناپسند کیوں کرتے ہیں، جبکہ آپ کے والد فیصلے کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص قاضی ہو اور وہ انصاف سے فیصلے کرے تو یہ زیادہ لائق ہے کہ وہ (قاضی) سے برابر برابر رہ جائے۔ “ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد انہیں نہیں کہا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1322 ا وقال: غريب، ليس إسناده عندي بمتصل) ٭ فيه عبد الملک بن أبي جميلة: مجھول و السند منقطع.»
وفي رواية رزين عن نافع ان ابن عمر قال لعثمان: يا امير المؤمنين لا اقضي بين رجلين: قال: فإن اباك كان يقضي فقال: إن ابي لو اشكل عليه شيء سال رسول الله صلى الله عليه وسلم ولو اشكل على رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء سال جبريل عليه السلام وإني لا اجد من اساله وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من عاذ بالله فقد عاذ بعظيم» . وسمعته يقول: «من عاذ بالله فاعيذوه» . وإني اعوذ بالله ان تجعلني قاضيا فاعفاه وقال: لا تخبر احدا وَفِي رِوَايَةِ رَزِينٍ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ لِعُثْمَانَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا أَقْضِي بَيْنَ رَجُلَيْنِ: قَالَ: فَإِنَّ أَبَاكَ كَانَ يَقْضِي فَقَالَ: إِنَّ أَبِي لَوْ أُشْكِلَ عَلَيْهِ شَيْءٌ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ أُشْكِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ سَأَلَ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَإِنِّي لَا أَجِدُ مَنْ أَسْأَلُهُ وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ عَاذَ بِاللَّهِ فَقَدْ عَاذَ بِعَظِيمٍ» . وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «مَنْ عَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ» . وَإِنِّي أَعُوذُ باللَّهِ أنْ تجعلَني قاضِياً فأعْفاهُ وَقَالَ: لَا تُخبرْ أحدا
رزین کی نافع کی سند سے مروی روایت میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: امیر المومنین! میں دو آدمیوں کے درمیان بھی فیصلہ نہیں کروں گا، انہوں نے فرمایا: آپ کے والد تو فیصلہ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا: میرے والد کو کسی مسئلہ میں اشکال ہوتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی مسئلہ میں الجھن ہوتی تو وہ جبریل سے پوچھ لیتے تھے، جبکہ میں ایسا کوئی شخص نہیں پاتا جس سے میں پوچھ لوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اللہ کی پناہ حاصل کی تو اس نے ایک عظیم ذات کی پناہ حاصل کی۔ “ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اللہ کے واسطے سے پناہ طلب کر لے تو اسے پناہ دے دو۔ “ اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم مجھے قاضی بناؤ۔ انہوں نے اس سے درگزر کیا اور فرمایا: کسی کو نہ بتانا۔ ضعیف، رواہ رزین۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه رزين (لم أجده) ٭ وله شاھد عند أحمد (66/1 ح 475) و سنده ضعيف، فيه أبو سنان عيسي بن سنان القسملي ضعيف و شاھد آخر عند الترمذي (1322 ا، انظر الحديث السابق) وسنده ضعيف.»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما اعطيكم ولا امنعكم انا قاسم اضع حيث امرت» . رواه البخاري عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أُعْطِيكُمْ وَلَا أَمْنَعُكُمْ أَنَا قَاسِمٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہ تمہیں دیتا ہوں اور نہ تم سے روکتا ہوں، میں تو تقسیم کرنے والا ہوں میں تو اسی جگہ پر خرچ کرتا ہوں جہاں کے متعلق مجھے حکم دیا جاتا ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3117)»
وعن خولة الانصارية قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن رجالا يتخوضون في مال الله بغير حق فلهم النار يوم القيامة» . رواه البخاري وَعَن خَوْلةَ الْأَنْصَارِيَّةِ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ رِجَالًا يَتَخَوَّضُونَ فِي مَالِ اللَّهِ بِغَيْرِ حَقٍّ فَلَهُمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
خولہ انصاریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ لوگ اللہ کے مال (بیت المال) میں ناحق تصرف کرتے ہیں، روز قیامت ان کے لیے (جہنم کی) آگ ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3118)»
وعن عائشة قالت: لما استخلف ابو بكر رضي الله عنه قال: لقد علم قومي ان حرفتي لم تكن تعجز عن مؤونة اهلي وشغلت بامر المسلمين فسياكل آل ابي بكر من هذا المال ويحترف للمسلمين فيه. رواه البخاري وَعَن عائشةَ قَالَتْ: لِمَّا اسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَقَدْ عَلِمَ قَوْمِي أَنَّ حِرْفَتِي لم تكنْ تعجِزُ عَن مَؤونةِ أَهْلِي وَشُغِلْتُ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَسَيَأْكُلُ آلُ أَبِي بَكْرٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَيَحْتَرِفُ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے فرمایا: ”میری قوم جانتی ہے کہ میرا کاروبار میرے اہل خانہ کے اخراجات کے لیے کافی تھا، مجھے مسلمانوں کے معاملات کے حوالے سے مشغول کر دیا گیا ہے لہذا آل ابوبکر اس مال سے کھائیں گے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے لیے کام کریں گے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2070)»
عن بريدة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من استعملناه على عمل فرزقناه رزقا فما اخذ بعد ذلك فهو غلول» . رواه ابو داود عَن بُرَيْدَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَى عَمَلٍ فَرَزَقْنَاهُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ غُلُولٌ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
بُریدہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہم جس شخص کو کسی کام پر مقرر کریں اور اسے تنخواہ بھی دیں، اور پھر اس کے علاوہ جو مال وہ حاصل کرے گا وہ خیانت ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2943) [و صححه ابن خزيمة (2369) و الحاکم علي شرط الشيخين (406/1) ووافقه الذهبي]»
وعن عمر رضي الله عنه قال: عملت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فعملني. رواه ابو داود وَعَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فعملني. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں (امارت کا) کام کیا تو آپ نے مجھے اجرت عطا فرمائی۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (2944) [و مسلم (1045)]»
وعن معاذ قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فلما سرت ارسل في اثري فرددت فقال: «اتدري لم بعثت إليك؟ لا تصيبن شيئا بغير إذني فإنه غلول ومن يغلل يات بما غل يوم القيامة لهذا دعوتك فامض لعملك» . رواه الترمذي وَعَن مُعَاذٍ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ فَلَمَّا سِرْتُ أَرْسَلَ فِي أَثَرِي فَرُدِدْتُ فَقَالَ: «أَتَدْرِي لِمَ بَعَثْتُ إِلَيْكَ؟ لَا تُصِيبَنَّ شَيْئًا بِغَيْرِ إِذْنِي فَإِنَّهُ غُلُولٌ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لهَذَا دعوتك فَامْضِ لعملك» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا، جب میں چلا تو آپ نے میرے پیچھے قاصد بھیج کر مجھے واپس بلا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو جانتا ہے کہ میں نے تمہاری طرف (قاصد) کیوں بھیجا؟ (اس لیے کہ تمہیں کوئی وصیت کروں) تم میری اجازت کے بغیر کوئی چیز نہ لینا، کیونکہ (اگر تم لو گے تو) وہ خیانت ہو گی، اور جو شخص خیانت کرے گا وہ اس خیانت کو روز قیامت لے کر حاضر ہو گا۔ میں نے اسی لیے تمہیں واپس بلایا تھا، اب تم اپنے کام کے لیے جاؤ۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1335 وقال: حسن غريب) ٭ داود الأودي: ضعيف.»