عن عائشة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «اتدرون من السابقون إلى ظل الله عز وجل يوم القيامة؟» قالوا: الله ورسوله اعلم قال: «الذين إذا اعطوا الحق قبلوه وإذا سئلوه بذلوه وحكموا للناس كحكمهم لانفسهم» عَنْ عَائِشَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَنِ السَّابِقُونَ إِلَى ظِلِّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: «الَّذِينَ إِذَا أُعْطُوا الْحَقَّ قَبِلُوهُ وَإِذَا سُئِلُوهُ بَذَلُوهُ وَحَكَمُوا لِلنَّاسِ كحكمِهم لأنفُسِهم»
عائشہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو، روزِ قیامت اللہ عزوجل کے سائے کی طرف سبقت لے جانے والے کون ہوں گے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ جنہیں کلمۂ حق (پیش کیا) جاتا ہے تو وہ اسے قبول کرتے ہیں، جب اس سے حق بات کہنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے بیان کرتے ہیں اور وہ لوگوں کے لیے وہی فیصلہ کرتے ہیں جو وہ اپنی ذات کے لیے کرتے ہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (69/6 ح 24902) ٭ عبد الله بن لھيعة مدلس و عنعن.»
وعن جابر بن سمرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ثلاثة اخاف على امتي: الاستسقاء بالانواء وحيف السلطان وتكذيب القدر وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: ثلاثةٌ أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي: الِاسْتِسْقَاءُ بِالْأَنْوَاءِ وَحَيْفُ السُّلْطَانِ وَتَكْذيب الْقدر
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مجھے اپنی امت کے متعلق تین چیزوں کا اندیشہ ہے: ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنے، بادشاہ کا ظلم کرنا اور تقدیر کو جھٹلانا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (90/5 ح 21121) ٭ محمد بن قاسم الأسدي ضعيف ضعفه الجمھور و للحديث شواھد ضعيفة.»
وعن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ستة ايام اعقل يا ابا ذر ما يقال لك بعد» فلما كان اليوم السابع قال: «اوصيك بتقوى الله في سر امرك وعلانيته وإذا اسات فاحسن ولا تسالن احدا شيئا وإن سقط سوطك ولا تقبض امانة ولا تقض بين اثنين» وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سِتَّةَ أَيَّامٍ اعْقِلْ يَا أَبَا ذَرٍّ مَا يُقَالُ لَكَ بَعْدُ» فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ السَّابِعُ قَالَ: «أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ فِي سِرِّ أَمْرِكَ وَعَلَانِيَتِهِ وَإِذَا أَسَأْتَ فَأَحْسِنْ وَلَا تَسْأَلَنَّ أَحَدًا شَيْئًا وَإِنْ سَقَطَ سَوْطُكَ وَلَا تَقْبِضْ أَمَانَةً وَلَا تَقْضِ بَيْنَ اثْنَيْنِ»
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ روز مجھے فرماتے رہے: ”ابوذر! جو کچھ تجھے بتایا جا رہا ہے اسے یاد کر لو۔ “ جب اس کے بعد ساتواں روز ہوا تو فرمایا: ”میں تیرے ظاہری و باطنی امور میں تجھے اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اور جب تو بُرائی کر بیٹھے تو پھر نیکی کر، اور کسی سے کوئی چیز نہ مانگنا خواہ تمہارا کوڑا گِر پڑے، اور امانت نہ رکھ اور دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرنا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (181/5 ح 21906) ٭ فيه ابن لھيعة ضعيف لاختلاطه و للحديث سند آخر ضعيف عند أحمد و الطحاوي في شرح مشکل الآثار (39/1 ح 46)»
وعن ابي امامة عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: «ما من رجل يلي امر عشرة فما فوق ذلك إلا اتاه الله عز وجل مغلولا يوم القيامة يده إلى عنقه فكه بره او اوبقه إثمه اولها ملامة واوسطها ندامة وآخرها خزي يوم القيامة» وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَا مِنْ رَجُلٍ يَلِي أَمْرَ عَشَرَةٍ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَّا أتاهُ اللَّهُ عزَّ وجلَّ مغلولاً يومَ القيامةِ يَدُهُ إِلَى عُنُقِهِ فَكَّهُ بِرُّهُ أَوْ أَوْبَقَهُ إِثْمُهُ أَوَّلُهَا مَلَامَةٌ وَأَوْسَطُهَا نَدَامَةٌ وَآخِرُهَا خِزْيٌ يومَ القيامةِ»
ابوامامہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے دس یا اس سے زائد افراد کے امور کی سرپرستی قبول کی تو روزِ قیامت وہ اللہ عزوجل کے حضور اس حال میں پیش ہو گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھا ہو گا، اس کی نیکی اسے کھول دے گی یا اس کا گناہ اسے ہلاک کر دے گا۔ امارت کا آغاز ملامت، اس کا وسط باعث ندامت اور اس کا آخر روزِ قیامت باعث رسوائی ہو گا۔ “ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه أحمد (267/5 ح 22656) [و الطبراني في مسند الشاميين (1580)] ٭ يزيد بن أيھم ھذا غير يزيد بن أبي مالک، وھو مجھول الحال، روي عنه جماعة و ذکره ابن حبان في الثقات و لحديثه شاھد ضعيف عند الطبراني في الکبير (135/12 ح 12689) و الأوسط (288)»
وعن معاوية قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا معاوية إن وليت امرا فاتق الله واعدل» . قال: فما زلت اظن اني مبتلى بعمل لقول النبي صلى الله عليه وسلم حتى ابتليت وَعَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ وُلِّيتَ أَمْرًا فَاتَّقِ اللَّهَ وَاعْدِلْ» . قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَظُنُّ أَنِّي مُبْتَلًى بِعَمَلٍ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم حَتَّى ابْتليت
معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”معاویہ! اگر تمہیں حکمرانی مل جائے تو اللہ سے ڈرنا اور عدل کرنا۔ “ معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں ہمیشہ اس یقین کے ساتھ رہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے کسی عمل کے ذریعے آزمایا جاؤں گا حتی کہ میں آزمائش سے دوچار ہو گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (101/4 ح 17057) [و البيھقي في دلائل النبوة (446/6)] ٭ في سماع سعيد بن عمرو بن سعيد بن العاص من معاوية رضي الله عنه نظر. وانظر سير أعلام النبلاء (331/3)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تعوذوا بالله من راس السبعين وإمارة الصبيان» . روى الاحاديث الستة احمد وروى البيهقي حديث معاوية في «دلائل النبوة» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ رَأْسِ السَّبْعِينَ وَإِمَارَةِ الصِّبْيَانِ» . رَوَى الْأَحَادِيثَ السِّتَّةَ أَحْمَدُ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ حَدِيثَ مُعَاوِيَةَ فِي «دَلَائِلِ النُّبُوَّة»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ستر کی دہائی کے آغاز سے اور نو عمروں کی حکومت سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ “ یہ چھ احادیث امام احمد نے روایت کی ہیں، اور امام بیہقی نے حدیث معاویہ ”دلائل النبوۃ“ میں نقل کی ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (326/2 ح 8319. 8320 و أخطأ من ضعفه) ٭ أبو صالح مولي ضباعة و ثقه الترمذي و ابن حبان و الذهبي فھو حسن الحديث.»
وعن يحيى بن هاشم عن يونس بن ابي إسحاق عن ابيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كما تكونون كذلك يؤمر عليكم» وَعَنْ يَحْيَى بْنِ هَاشِمٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَمَا تَكُونُونَ كَذَلِك يُؤمر عَلَيْكُم»
یحیی بن ہاشم، یونس بن ابی اسحاق سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جیسے تم ہو گے ویسے تم پر حکمران مقرر کیے جائیں گے۔ “ اسنادہ موضوع، ر��اہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده موضوع، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7391، نسخة محققة: 7006) ٭ يحيي بن ھاشم: کذاب و السند مظلم، و له شاھد موضوع عند الديلمي في الفردوس (4918)»
وعن ابن عمر رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن السلطان ظل الله في الارض ياوي إليه كل مظلوم من عباده فإذا عدل كان له الاجر وعلى الرعية الشكر وإذا جار كان عليه الإصر وعلى الرعية الصبر» وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ السُّلْطَانَ ظِلُّ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ يَأْوِي إِلَيْهِ كُلُّ مَظْلُومٍ مِنْ عِبَادِهِ فَإِذَا عَدَلَ كَانَ لَهُ الْأَجْرُ وَعَلَى الرَّعِيَّةِ الشُّكْرُ وَإِذَا جَارَ كَانَ عَلَيْهِ الْإِصْرُ وعَلى الرّعية الصَّبْر»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بادشاہ، زمین پر اللہ کا سایہ ہے، جہاں اس کا ہر مظلوم بندہ پناہ حاصل کرتا ہے، جب وہ عدل کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے، اور رعیت کے ذمہ شکر کرنا ہے، اور جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس پر گناہ ہوتا ہے اور رعیت کے ذمہ صبر کرنا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعيب الإيمان (7369، نسخة محققة: 6984) ٭ فيه سعيد بن سنان الحمصي: متروک.»
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن افضل عباد الله عند الله منزلة يوم القيامة إمام عادل رفيق وإن شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة إمام جائر خرق» وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَفْضَلَ عِبَادِ اللَّهِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِمَامٌ عَادِلٌ رَفِيقٌ وَإِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِمامٌ جَائِر خرق»
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک روزِ قیامت اللہ کے بندوں میں سے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے سب سے بہتر شخص عدل کرنے والا نرم مزاج حکمران ہو گا۔ جبکہ روزِ قیامت اللہ کے نزدیک مقام و مرتبہ کے لحاظ سے بدترین شخص ظالم اور سخت مزاج بادشاہ ہو گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7371، نسخة محققة: 6986) ٭ فيه محمد بن أبي حميد: ضعيف، و علل أخري.»
وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نظر إلى اخيه نظرة يخيفه اخافه الله يوم القيامة» . روى الاحاديث الاربعة البيهقي في «شعب الإيمان» وقال في حديث يحيى هذا: منقطع وروايته ضعيف وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «من نَظَرَ إِلَى أَخِيهِ نَظْرَةً يُخِيفُهُ أَخَافَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَى الْأَحَادِيثَ الْأَرْبَعَةَ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» وَقَالَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى هَذَا: مُنْقَطع وَرِوَايَته ضَعِيف
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اپنے بھائی کی طرف ڈراؤنی نظر سے دیکھا تو روزِ قیامت اللہ اسے ڈرائے گا۔ “ امام بیہقی نے چاروں احادیث شعب الایمان میں روایت کی ہیں، اور یحیی سے مروی حدیث [رقم ۳۷۱۷] کے بارے میں فرمایا: یہ روایت منقطع ہے اور اس کی روایت ضعیف ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7468، نسخة محققة: 7064) ٭ ھذا فيه عبد الرحمٰن بن زياد بن أنعم عن عبد الرحمٰن بن رافع و ھما ضعيفان و رواه ابن أنعم الإفريقي (ضعيف) عن مسلم بن يسار عن رجل من بني سليم إلخ. حديث يحيي بن ھاشم تقدم (3717)»