مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب القصاص
--. ایک صحابی کی خودکشی کا واقعہ
حدیث نمبر: 3456
Save to word اعراب
وعن جابر: ان الطفيل بن عمرو الدوسي لما هاجر النبي صلى الله عليه وسلم إلى المدينة هاجر إليه وهاجر معه رجل من قومه فمرض فجزع فاخذ مشاقص له فقطع بها براجمه فشخبت يداه حتى مات فرآه الطفيل بن عمرو في منامه وهيئته حسنة ورآه مغطيا يديه فقال له: ما صنع بكل ربك؟ فقال: غفر لي بهجرتي إلى نبيه صلى الله عليه وسلم فقال: ما لي اراك مغطيا يديك؟ قال: قيل لي: لن تصلح منك ما افسدت فقصها الطفيل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اللهم وليديه فاغفر» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ: أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ عَمْرٍو الدَّوْسِيَّ لَمَّا هَاجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ هَاجَرَ إِلَيْهِ وَهَاجَرَ مَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ فَمَرِضَ فَجَزِعَ فَأَخَذَ مَشَاقِصَ لَهُ فَقَطَعَ بِهَا بَرَاجِمَهُ فَشَخَبَتْ يَدَاهُ حَتَّى مَاتَ فَرَآهُ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فِي مَنَامِهِ وَهَيْئَتُهُ حسنةٌ ورآهُ مغطيّاً يدَيْهِ فَقَالَ لَهُ: مَا صنع بِكُل رَبُّكَ؟ فَقَالَ: غَفَرَ لِي بِهِجْرَتِي إِلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكَ مُغَطِّيًا يَدَيْكَ؟ قَالَ: قِيلَ لِي: لَنْ تصلح مِنْكَ مَا أَفْسَدْتَ فَقَصَّهَا الطُّفَيْلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ وَلِيَدَيْهِ فَاغْفِر» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک آدمی نے بھی ہجرت کی، وہ شخص بیمار ہو گیا اور اس نے بے صبری کا مظاہرہ کیا اور اس نے اپنی چھری لی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا جس سے خون بہنے لگا حتی کہ وہ فوت ہو گیا۔ طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ اس کی ہیئت اچھی ہے اور اس نے اپنے ہاتھ ڈھانپ رکھے ہیں، انہوں نے اس سے پوچھا: تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ تو اس نے کہا: اس نے اپنے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف میری ہجرت کی وجہ سے مجھے معاف فرما دیا، طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آپ کو ہاتھ ڈھانپے ہوئے کیوں دیکھ رہا ہوں؟ اس نے کہا: مجھے کہا گیا کہ ہم تمہارے اس حصے کو درست نہیں کریں گے جسے تم نے خود خراب کیا ہے، طفیل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں یہ قصہ عرض کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اور اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی معاف فرما۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (116/184)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. قتل کی دیت
حدیث نمبر: 3457
Save to word اعراب
وعن ابي شريح الكعبي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ثم انتم يا خزاعة قد قتلتم هذا القتيل من هذيل وانا والله عاقله من قتل بعده قتيلا فاهله بين خيرتين: عن احبوا قتلوا وإن احبوا اخذا العقل. رواه الترمذي والشافعي. وفي شرح السنة بإسناده وصرح: بانه ليس في الصحيحين عن ابي شريح وقال: وَعَن أبي شُرَيحٍ الكعبيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثُمَّ أَنْتُمْ يَا خُزَاعَةُ قَدْ قَتَلْتُمْ هَذَا الْقَتِيلَ مِنْ هُذَيْلٍ وَأَنَا وَاللَّهِ عَاقِلُهُ مَنْ قَتَلَ بَعْدَهُ قَتِيلًا فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ: عَن أَحبُّوا قتلوا وَإِن أَحبُّوا أخذا العقلَ. رَوَاهُ الترمذيُّ وَالشَّافِعِيّ. وَفِي شرح السنَّة بإِسنادِه وَصَرَّحَ: بِأَنَّهُ لَيْسَ فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ أَبِي شُرَيْح وَقَالَ:
ابوشریح الکعبی رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خزاعہ (قبیلے والو)! تم نے ہذیل کے اس مقتول کو قتل کیا، اور اللہ کی قسم! میں اس کی دیت ادا کر دیتا ہوں، جس نے اس کے بعد کسی کو قتل کیا تو اس کے وارثوں کو دو چیزوں کے درمیان اختیار ہے، اگر وہ پسند کریں تو اسے قتل کریں اور اگر چاہیں تو دیت لے لیں۔ اسے ترمذی اور امام شافعی نے روایت کیا ہے اور امام بغوی نے شرح السنہ میں اپنی سند سے روایت کیا ہے اور انہوں نے صراحت کی کہ ابوشریح کی سند سے یہ حدیث صحیحین میں نہیں ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و الشافعی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده صحيح، رواه الترمذي (1406) و الشافعي في الأم (9/6) [و أبو داود (4504) و أصله متفق عليه، و البخاري (104) و مسلم (1354) مختصرًا و لم يذکرا ھذا اللفظ]
٭ و رواه البغوي في شرح السنة (301/7 ح 2004 وقال: متفق علي صحته، أخرجاه جميعًا‘‘ إلخ.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
--. قتل کی دیت، بروایت بخاری و مسلم
حدیث نمبر: 3458
Save to word اعراب
واخرجاه من رواية ابي هريرة يعني بمعناه وَأَخْرَجَاهُ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ يَعْنِي بِمَعْنَاهُ
اور انہوں (بغوی ؒ) نے فرمایا: ان دونوں (امام بخاری اور امام مسلم) نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی روایت نقل کی ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (112) و مسلم (447 / 1355)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. خون کا بدلہ خون
حدیث نمبر: 3459
Save to word اعراب
وعن انس: ان يهوديا رض راس جارية بين حجرين فقيل لها: من فعل بك هذا؟ افلان؟ حتى سمي اليهودي فاومات براسها فجيء باليهودي فاعترف فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض راسه بالحجارة وَعَنْ أَنَسٍ: أَنَّ يَهُودِيًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ فَقِيلَ لَهَا: مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا؟ أَفُلَانٌ؟ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا فَجِيءَ بِالْيَهُودِيِّ فَاعْتَرَفَ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا، اس سے پوچھا گیا، تمہارے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا؟ کیا فلاں نے؟ کیا فلاں نے؟ حتی کہ اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا: ہاں، اس یہودی کو پیش کیا گیا تو اس نے اعتراف کر لیا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اس کے سر کو پتھر کے ساتھ کچل دیا گیا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (6884) و مسلم (1672/15)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. دانت کا قصاص
حدیث نمبر: 3460
Save to word اعراب
وعنه قال: كسرت الربيع وهي عمة انس بن مالك ثنية جارية من الانصار فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فامر بالقصاص فقال انس بن النضر عم انس بن مالك لا والله لا تكسر ثنيتها يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا انس كتاب الله القصاص» فرضي القوم وقبلوا الارش فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن من عباد الله من لو اقسم على الله لابره» وَعَنْهُ قَالَ: كَسَرَتِ الرُّبَيِّعُ وَهِيَ عَمَّةُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَأَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِالْقِصَاصِ فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ عَمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ لَا وَاللَّهِ لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ» فَرَضِيَ الْقَوْمُ وَقَبِلُوا الْأَرْشَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى الله لَأَبَره»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ان کی پھوپھی رُبیع رضی اللہ عنہ نے انصار کی ایک لونڈی کے سامنے کے دانت توڑ دیے تو وہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قصاص کا حکم فرمایا تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پھوپھا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! اس کے دانت نہیں توڑے جائیں گے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انس! اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم ہے۔ وہ لوگ دیت لینے پر راضی ہو گئے، تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم اٹھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (4611) و مسلم (1675/24)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. کافر کے بدلے میں مسلمان کو قتل کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 3461
Save to word اعراب
وعن ابي جحيفة قال: سالت عليا رضي الله عنه هل عندكم شيء ليس في القرآن؟ فقال: والذي فلق الحبة وبرا النسمة ما عندنا إلا ما في القرآن إلا فهما يعطى رجل في كتابه وما في الصحيفة قلت: وما في الصحيفة؟ قال: العقل وفكاك الاسير وان لا يقتل مسلم بكافر. رواه البخاري وذكر حديث ابن مسعود: «لا تقتل نفس ظلما» في «كتاب العلم» وَعَن أبي جُحيفةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ؟ فَقَالَ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا عِنْدَنَا إِلَّا مَا فِي الْقُرْآنِ إِلَّا فَهْمًا يُعْطَى رَجُلٌ فِي كِتَابِهِ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: الْعَقْلُ وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَذَكَرَ حَدِيثَ ابْنِ مَسْعُودٍ: «لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا» فِي «كتاب الْعلم»
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں نہ ہو؟ انہوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو پیدا فرمایا! ہمارے پاس صرف وہی کچھ ہے جو قرآن میں ہے، البتہ دین کا وہ فہم ہے جو بندے کو اللہ کی کتاب سے عطا کیا جاتا ہے اور جو کچھ صحیفہ میں لکھا ہوا ہے (وہ ہمارے پاس ہے)۔ میں نے عرض کیا: صحیفہ میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: دیت، قیدی چھڑانے اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے، کے متعلق احکامات۔ رواہ البخاری۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کہ کسی جان کو ناحق قتل نہ کیا جائے۔ کتاب العلم میں ذکر کی گئی ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (6903)
حديث ابن مسعود تقدم (211)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. مسلمان کے خون کی حرمت
حدیث نمبر: 3462
Save to word اعراب
عن عبد الله بن عمرو ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لزوال الدنيا اهون على الله من قتل رجل مسلم» . رواه الترمذي والنسائي ووقفه بعضهم وهو الاصح عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ ووقفَه بعضُهم وَهُوَ الْأَصَح
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں پوری دنیا کا تباہ و برباد ہو جانا ایک مسلمان آدمی کے قتل کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ ترمذی، نسائی۔ اور بعض نے اسے موقوف قرار دیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ حسن، رواہ الترمذی و النسائی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه الترمذي (1395) و النسائي (82/7 ح 3991. 3994)»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
--. مسلمان کے خون کی حرمت، بروایت ابن ماجہ
حدیث نمبر: 3463
Save to word اعراب
ورواه ابن ماجه عن البراء بن عازب وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ
ابن ماجہ نے اسے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه ابن ماجه (3619)
٭ سفيان الثوري عنعن و الحديث ضعيف من جميع طرقه و لم يصب من صححه.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
--. مؤمن کی جان کی اہمیت کا بیان
حدیث نمبر: 3464
Save to word اعراب
وعن ابي سعيد وابي هريرة عن رسول صلى الله عليه وسلم قال: «لو ان اهل السماء والارض اشتركوا في دم مؤمن لاكبهم الله في النار» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَن أبي سعيدٍ وَأبي هريرةَ عَن رسولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَكَبَّهُمُ اللَّهُ فِي النَّارِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
ابوسعید رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر زمین و آسمان کے تمام باسی ایک مومن کے قتل کرنے میں شریک پائے جائیں تو اللہ ان سب کو چہرے کے بل جہنم میں پھینک دے گا۔ ترمذی، اور انہوں نے کہا: یہ حدیث غریب ہے۔ ضعیف، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«ضعيف، رواه الترمذي (1398)
٭ يزيد الرقاشي ضعيف و له شواھد ضعيفة عند البيھقي (22/8) وغيره.»

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
--. مقتول کا اپنے قاتل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے لانا
حدیث نمبر: 3465
Save to word اعراب
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: يجيء المقتول بالقاتل يوم القيامة ناصيته وراسه بيده واوداجه تشخب دما يقول: يا رب قتلني حتى يدنيه من العرش. رواه الترمذي والنسائي وابن ماجه وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخُبُ دَمًا يَقُولُ: يَا رَبِّ قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنَ العرشِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ وَابْن مَاجَه
ابن عباس رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس (قاتل) کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ اور وہ کہے گا: رب جی! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و النسائی و ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده صحيح، رواه الترمذي (3029 وقال: حسن) و النسائي (87/7ح 4010) و ابن ماجه (2621)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.