وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا اصاب المكاتب حدا او ميراثا ورث بحساب ما عتق منه» . رواه ابو داود والترمذي وفي رواية له قال: «يودى المكاتب بحصة ما ادى دية حر وما بقي دية عبد» . وضعفه الفص الثالث وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَصَابَ الْمُكَاتَبُ حَدًّا أَوْ مِيرَاثًا وَرِثَ بِحِسَابِ مَا عَتَقَ مِنْهُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ قَالَ: «يُودَى الْمُكَاتَبُ بِحِصَّةِ مَا أَدَّى دِيَةَ حر وَمَا بَقِي دِيَة عبد» . وَضَعفه الفص الثَّالِث
ابن عباس رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب مکاتب دیت یا میراث کا مستحق بنتا ہے تو وہ اپنی آزادی کے حساب سے وارث بنے گا۔ “ اور ترمذی کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مکاتب کو اس حصہ کے مطابق دیت دی جائے گی جو اس نے دیت حر ادا کی ہے اور جو بچ جائے وہ دیت عبد ہے۔ “ اور امام ترمذی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4582) و الترمذي (1259 وقال: حسن) [و النسائي (46/8ح 4815 ب] ٭ قوله ’’و ضعفه‘‘ أي: ضعفه البغوي في مصابيح السنة (490/2 ح 2547) و ھذا التضعيف مردود.»
عن عبد الرحمن بن ابي عمرة الانصاري: ان امه ارادت ان تعتق فاخرت ذلك إلى ان تصبح فماتت قال عبد الرحمن: فقلت للقاسم بن محمد: اينفعها ان اعتق عنها؟ فقال القاسم: اتى سعد بن عبادة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن امي هلكت فهل ينفعها ان اعتق عنها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعم» . رواه مالك عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيِّ: أَنَّ أُمَّهُ أَرَادَتْ أَنْ تَعْتِقَ فَأَخَّرَتْ ذَلِكَ إِلَى أَنْ تُصْبِحَ فَمَاتَتْ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَقُلْتُ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ: أَيَنْفَعُهَا أَنْ أَعْتِقَ عَنْهَا؟ فَقَالَ الْقَاسِمُ: أَتَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي هَلَكَتْ فَهَلْ يَنْفَعُهَا أَنْ أَعْتِقَ عَنْهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نعم» . رَوَاهُ مَالك
عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری سے روایت ہے کہ ان کی والدہ نے غلام آزاد کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اسے صبح تک مؤخر کر دیا، سو وہ فوت ہو گئیں، عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں، میں نے قاسم بن محمد سے کہا: اگر میں ان کی طرف سے غلام آزاد کر دوں تو کیا انہیں فائدہ ہو گا؟ قاسم نے کہا: سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا: میری والدہ فوت ہو گئیں ہیں، اگر میں ان کی طرف سے غلام آزاد کروں تو کیا انہیں فائدہ ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔ “ حسن، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه مالک (779/2 ح 1555) ٭ قاسم بن محمد لم يدرک عبادة و للحديث شواھد عند البخاري (2761) و مسلم (1638) و النسائي (3689. 3694) وغيرهم بألفاظ أخري غير ذکر العتيق، وله شاھد تقدم (3077)»
وعن يحيى بن سعيد قال: توفي عبد الرحمن بن ابي بكر في نوم نامه فاعتقت عنه عائشة اخته رقابا كثيرة. رواه مالك وَعَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فِي نَوْمٍ نَامَهُ فَأَعْتَقَتْ عَنْهُ عَائِشَةُ أُخْتُهُ رِقَابًا كَثِيرَةً. رَوَاهُ مَالك
یحیی بن سعید بیان کرتے ہیں، عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حالت نیند ہی میں وفات پا گئے تو ان کی بہن عائشہ رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف سے بہت سے غلام آزاد کیے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه مالک (779/2 ح 1556) ٭ السند منقطع.»
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اشترى عبدا فلم يشترط ماله فلا شيء له» . رواه الدارمي وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ اشْتَرَى عَبْدًا فَلَمْ يَشْتَرِطْ مَاله فَلَا شَيْء لَهُ» . رَوَاهُ الدَّارمِيّ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی غلام خریدا اس (غلام) کے مال کی شرط قائم نہ کی تو اس (خریدنے والے) کے لیے (اس کے مال سے) کچھ بھی نہیں ملے گا۔ “ صحیح، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الدارمي (253/2 ح 2564) ٭ الزھري مدلس و عنعن و للحديث شواھد عند عبد الله بن أحمد (309/3) و أبي داود (3962، 3947) و البخاري و مسلم وغيرهم. و بھا صح الحديث.»