عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يجمع بين المراة وعمتها ولا بين المراة وخالتها» عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُجْمَعُ بَيْنَ الْمَرْأَة وعمتها وَلَا بَين الْمَرْأَة وخالتها»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عورت اور اس کی پھوپھی نیز عورت اور اس کی خالہ کو نکاح میں اکٹھا نہ کیا جائے۔ “(یعنی پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی، ایک وقت میں ایک آدمی کی بیویاں نہیں ہو سکتیں) متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5109) و مسلم (1408/33)»
وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة» . رواه البخاري وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يحرم من الْولادَة» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دودھ پینے سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں، جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5239)»
وعنها قالت: جاء عمي من الرضاعة فاستاذن علي فابيت ان آذن له حتى اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالته فقال: «انه عمك فاذني له» قالت: فقلت: يا رسول الله إنما ارضعتني المراة ولم يرضعني الرجل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنه عمك فليلج عليك» وذلك بعدما ضرب علينا الحجاب وَعَنْهَا قَالَتْ: جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ فَاسْتَأْذَنَ عَلَيَّ فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: «أَنَّهُ عَمُّكِ فَأْذَنِي لَهُ» قَالَت: فَقلت: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يرضعني الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّه عمك فليلج عَلَيْك» وَذَلِكَ بَعْدَمَا ضرب علينا الْحجاب
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میرے رضاعی چچا آئے، انہوں نے میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا حتی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کر لوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، میں نے آپ سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ وہ تمہارا چچا ہے لہذا اسے اجازت دے دو۔ “ وہ بیان کرتی ہیں، میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے تو مجھے دودھ نہیں پلایا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ وہ تمہارا چچا ہے۔ لہذا وہ تمہارے پاس آ سکتا ہے۔ “ اور یہ ہم پر پردہ کے احکام نازل ہونے سے بعد کا واقعہ ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5239) و مسلم (1445/7)»
وعن علي رضي الله عنه قال: يا رسول الله هل لك في بنت عمك حمزة؟ فإنها اجمل فتاة في قريش فقال له: «اما علمت ان حمزة اخي من الرضاعة؟ وان الله حرم من الرضاعة ما حرم من النسب؟» . رواه مسلم وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ لَكَ فِي بِنْتِ عَمِّكَ حَمْزَةَ؟ فَإِنَّهَا أَجْمَلُ فَتَاةٍ فِي قُرَيْشٍ فَقَالَ لَهُ: «أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ حَمْزَةَ أَخِي مَنِ الرَّضَاعَةِ؟ وَأَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا حرم من النّسَب؟» . رَوَاهُ مُسلم
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں رغبت رکھتے ہیں؟ وہ قریش کی سب سے زیادہ حسین و جمیل لڑکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حمزہ میرے رضاعی بھائی ہیں، اور اللہ نے رضاعت کی وجہ سے وہ رشتے حرام کیے ہیں، جو اس نے نسب کی وجہ سے حرام کیے ہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1446/11)»
وعن ام الفضل قالت: ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تحرم الرضعة او الرضعتان» وَعَنْ أُمِّ الْفَضْلِ قَالَتْ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تُحَرِّمُ الرضعة أَو الرضعتان»
ام فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دودھ پینا حرمت ثابت نہیں کرتا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1451/21)»
وعن عائشة قالت: كان فيما انزل من القرآن: «عشر رضعات معلومات يحرمن» . ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي فيما يقرا من القرآن. رواه مسلم وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ: «عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ» . ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ فِيمَا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ. رَوَاهُ مُسلم
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، قرآن میں یہ حکم نازل ہوا تھا کہ دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت واقع ہوتی ہے۔ پھر وہ حکم پانچ مرتبہ پینے کی قید کے ساتھ منسوخ کر دیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس وقت وفات پائی تو اس وقت تک (پانچ مرتبہ دودھ پینے والی آیت) قرآن میں پڑھی جاتی تھی۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1452/24)»
وعنها: ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها وعندها رجل فكانه كره ذلك فقالت: إنه اخي فقال: «انظرن من إخوانكن؟ فإنما الرضاعة من المجاعة» وَعَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا رَجُلٌ فَكَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ فَقَالَت: إِنَّه أخي فَقَالَ: «انظرن من إخوانكن؟ فَإِنَّمَا الرضَاعَة من المجاعة»
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میرے پاس ایک آدمی تھا، گویا آپ نے اسے ناپسند فرمایا، عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یہ تو میرا بھائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو کہ تمہارے بھائی کون ہیں، رضاعت تو صرف وہ دودھ ہے جسے بھوک دور کرنے کے لیے پیا گیا ہو۔ “(بچے کو صغر سنی کی عمر میں بھوک لگی ہو او�� وہ کسی عورت کا دودھ پی لے) متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5102) ومسلم (1455/22)»
وعن عقبة بن الحارث: انه تزوج ابنة لابي إهاب بن عزيز فاتت امراة فقالت: قد ارضعت عقبة والتي تزوج بها فقال لها عقبة: ما اعلم انك قد ارضعتني ولا اخبرتني فارسل إلى آل ابي إهاب فسالهم فقالوا: ما علمنا ارضعت صاحبتنا فركب إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة فساله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كيف وقد قيل؟» ففارقها عقبة ونكحت زوجا غيره. رواه البخاري وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ: أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ فَأَتَتِ امْرَأَة فَقَالَتْ: قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ بِهَا فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ قَدْ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي فَأَرْسَلَ إِلَى آلِ أَبِي إِهَابٍ فَسَأَلَهُمْ فَقَالُوا: مَا عَلِمْنَا أَرْضَعْتَ صَاحِبَتُنَا فَرَكِبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ فَسَأَلَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ؟» فَفَارَقَهَا عُقْبَةُ وَنَكَحَتْ زوجا غَيره. رَوَاهُ البُخَارِيّ
عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابواہاب بن عزیز کی بیٹی سے شادی کر لی تو ایک عورت آئی، اس نے کہا: میں نے عقبہ اور اس کی بیوی کو دودھ پلایا ہے۔ (یعنی یہ آپس میں رضاعی بہن بھائی ہیں) عقبہ نے اس عورت سے کہا: مجھے تو معلوم نہیں کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ ہی تم نے مجھے بتایا ہے۔ انہوں نے ابواہاب کے گھر والوں کے پاس کسی آدمی کو بھیجا تو اس نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہمیں تو معلوم نہیں کہ اس نے ہماری اس لڑکی کو دودھ پلایا ہے، وہ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(تم اس کے ساتھ) کس طرح (تعلق زن و شو قائم کر سکتے ہو) حالانکہ یہ کہہ دیا گیا (کہ تم اس کے رضاعی بھائی ہو)۔ “ عقبہ رضی اللہ عنہ نے اسے الگ کر دیا اور اس نے ان کے علاوہ کسی اور سے نکاح کیا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2640)»