وعن لقيط بن صبرة قال: قلت: يا رسول الله إن لي امراة في لسانها شيء يعني البذاء قال: «ط لقها» . قلت: إن لي منها ولدا ولها صحبة قال: «فمرها» يقول عظها «فإن يك فيها خير فستقبل ولا تضربن ظعينتك ضربك اميتك» . رواه ابو داود وَعَنْ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي امْرَأَةً فِي لِسَانِهَا شَيْءٌ يَعْنِي الْبَذَاءَ قَالَ: «ط لِّقْهَا» . قُلْتُ: إِنَّ لِي مِنْهَا وَلَدًا وَلَهَا صُحْبَةٌ قَالَ: «فَمُرْهَا» يَقُولُ عِظْهَا «فَإِنْ يَكُ فِيهَا خَيْرٌ فَسَتَقْبَلُ وَلَا تَضْرِبَنَّ ظَعِينَتَكَ ضَرْبَكَ أُمَيَّتَكَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے اس کی زبان میں کچھ (نقص) ہے یعنی وہ فحش گو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو۔ “ میں نے عرض کیا، میری اس سے اولاد ہے اور اس کے ساتھ ایک تعلق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے وعظ و نصیحت کرو، اگر اس میں کوئی خیر و بھلائی ہوئی تو وہ نصیحت قبول کر لے گی، اور اپنی اہلیہ کو لونڈی کی طرح نہ مارو۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (142. 143)»
وعن إياس بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تضربوا إماء الله» فجاء عمر إلى رسول الله فقال: ذئرن النساء على ازواجهن فرخص في ضربهن فاطاف بال رسول الله صلى الله عليه وسلم نساء كثير يشكون ازواجهن فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لقد طاف بآل محمد نساء كثير يشكون ازواجهن ليس اولئك بخياركم» . رواه ابو داود وابن ماجه والدارمي وَعَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «لَا تَضْرِبُوا إِمَاءِ اللَّهِ» فَجَاءَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ الله فَقَالَ: ذَئِرْنَ النِّسَاءُ عَلَى أَزْوَاجِهِنَّ فَرَخَّصَ فِي ضَرْبِهِنَّ فَأَطَافَ بَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءٌ كَثِيرٌ يَشْكُونَ أَزْوَاجَهُنَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ طَافَ بِآلِ مُحَمَّدٍ نِسَاءٌ كَثِيرٌ يَشْكُونَ أَزْوَاجَهُنَّ لَيْسَ أُولَئِكَ بِخِيَارِكُمْ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه والدارمي
ایاس بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی لونڈیوں (اپنی بیویوں) کو نہ مارو۔ “ عمر رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: عورتیں اپنے خاوندوں پر جرأت کرنے لگی ہیں، تب آپ نے انہیں مارنے کے متعلق رخصت عطا فرمائی تو بہت سی عورتیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے پاس آئیں ہیں، ایسے لوگ (جو اپنی ازواج کو مارتے ہیں) تم میں سے بہتر نہیں ہیں۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (2146) و ابن ماجه (1985) و الدارمي (147/2 ح 2225)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من خبب امراة على زوجها او عبدا على سيده» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا أَوْ عَبْدًا عَلَى سَيّده» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی عورت کو اس کے خاوند کے خلاف یا غلام کو اس کے آقا کے خلاف بھڑکائے وہ ہم میں سے نہیں۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (5170)»
وعن عائشة رضي الله عنه قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن من اكمل المؤمنين إيمانا احسنهم خلقا والطفهم باهله» . رواه الترمذي وَعَن عَائِشَة رَضِي الله عَنهُ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وألطفهم بأَهْله» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومنوں میں سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سے اچھے اخلاق والا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ مہربان ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2612 وقال: حسن) ٭ أبو قلابة لم يسمع من عائشة رضي الله عنھا و للحديث شواھد کثيرة دون قوله: ’’و الطفھم...‘‘ وانظر الحديث الآتي: 3264»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اكمل المؤمنين إيمانا احسنهم خلقا وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن صحيح ورواه ابو داود إلى قوله «خلقا» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُد إِلَى قَوْله «خلقا»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومنوں میں سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اِن میں سے اچھے اخلاق والا ہے، اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہے۔ “ ترمذی۔ اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور امام ابوداؤد نے اسے ((خُلُقًا)) تک روایت کیا ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1162) و أبو داود (4682)»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك او حنين وفي سهوتها ستر فهبت ريح فكشفت ناحية الستر عن بنات لعائشة لعب فقال: «ما هذا يا عائشة؟» قالت: بناتي وراى بينهن فرسا له جناحان من رقاع فقال: «ما هذا الذي ارى وسطهن؟» قالت: فرس قال: «وما الذي عليه؟» قالت: جناحان قال: «فرس له جناحان؟» قالت: اما سمعت ان لسليمان خيلا لها اجنحة؟ قالت: فضحك حتى رايت نواجذه. رواه ابو داود وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ غَزْوَة تَبُوك أَو حنين وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ فَهَبَّتْ رِيحٌ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ لُعَبٍ فَقَالَ: «مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ؟» قَالَتْ: بَنَاتِي وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَهُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي أَرَى وَسْطَهُنَّ؟» قَالَتْ: فَرَسٌ قَالَ: «وَمَا الَّذِي عَلَيْهِ؟» قَالَتْ: جَنَاحَانِ قَالَ: «فَرَسٌ لَهُ جَنَاحَانِ؟» قَالَتْ: أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَيْمَانَ خَيْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ؟ قَالَتْ: فَضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک یا غزوہ حنین سے واپس تشریف لائے، اور ان (عائشہ رضی اللہ عنہ) کی الماری پر پردہ تھا، ہوا چلی تو اس نے عائشہ رضی اللہ عنہ کی گڑیوں اور کھلونوں سے پردہ ہٹا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: میری گڑیاں ہیں، آپ نے ان میں ایک گھوڑا دیکھا جس کے کپڑے سے بنے ہوئے دو پَر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں ان کے درمیان میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟“ انہوں نے عرض کیا: گھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اور جو اِس کے اُوپر ہے، وہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: دو پَر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑا اور اس کے دو پَر!“ انہوں نے عرض کیا: کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان ؑ کا ایک گھوڑا تھا جس کے پر تھے۔ “ وہ بیان کرتی ہیں، یہ سن کر آپ مسکرا دیے حتی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھیں دیکھیں۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (4932)»
عن قيس بن سعد قال: اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم فقلت: لرسول الله صلى الله عليه وسلم احق ان يسجد له فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: إني اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم فانت احق بان يسجد لك فقال لي: «ارايت لو مررت بقبرى اكنت تسجد له؟» فقلت: لا فقال: «لا تفعلوا لو كنت آمر احد ان يسجد لاحد لامرت النساء ان يسجدن لازواجهن لما جعل الله لهم عليهن من حق» . رواه ابو داود عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَقُلْتُ: لَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَحَق أَن يسْجد لَهُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: إِنِّي أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَأَنْتَ أَحَقُّ بِأَنْ يُسْجَدَ لَكَ فَقَالَ لِي: «أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِى أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ؟» فَقُلْتُ: لَا فَقَالَ: «لَا تَفْعَلُوا لَو كنت آمُر أحد أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ حق» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں حیرہ پہنچا تو میں نے وہاں کے باشندوں کو اپنے سپہ سالار کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زیادہ حق ہے کہ انہیں سجدہ کیا جائے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا: میں حیرہ گیا تھا میں نے وہاں کے باشندوں کو اپنے سپہ سالار کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا، آپ زیادہ حق دار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بتاؤ اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا تم اسے سجدہ کرو گے؟“ میں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مت کرو، اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں اس لیے کہ اللہ نے انہیں ان پر حق عطا کیا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2140) [و صححه الحاکم (187/2) ووافقه الذهبي] ٭ شريک القاضي صرح بالسماع عند البيھقي (291/7) و للحديث شواھد.»
وعن عمر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يسال الرجل فيما ضرب امراته عليه» . رواه ابو داود وابن ماجه وَعَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَا ضَرَبَ امْرَأَتَهُ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه
عمر رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”خاوند سے دریافت نہ کیا جائے کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا ہے؟“ حسن، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (2147) و ابن ماجه (1986)»
وعن ابي سعيد قال: جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن عنده فقالت: زوجي صفوان بن المعطل يضربني إذا صليت ويفطرني إذا صمت ولا يصلي الفجر حتى تطلع الشمس قال: وصفوان عنده قال: فساله عما قالت فقال: يا رسول الله اما قولها: يضربني إذا صليت فإنها تقرا بسورتين وقد نهيتها قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كانت سورة واحدة لكفت الناس» . قال: واما قولها يفطرني إذا صمت فإنها تنطلق تصوم وانا رجل شاب فلا اصبر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تصوم امراة إلا بإذن زوجها» واما قولها: إني لا اصلي حتى تطلع الشمس فإنا اهل بيت قد عرف لنا ذاك لا نكاد نستيقظ حتى تطلع الشمس قال: «فإذا استيقظت يا صفوان فصل» . رواه ابو داود وابن ماجه وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْده فَقَالَت: زَوْجِي صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ وَيُفَطِّرُنِي إِذَا صُمْتُ وَلَا يُصَلِّي الْفَجْرَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ: وَصَفْوَانُ عِنْدَهُ قَالَ: فَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَت فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا قَوْلُهَا: يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ فَإِنَّهَا تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ وَقَدْ نَهَيْتُهَا قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَتْ سُورَةً وَاحِدَةً لَكَفَتِ النَّاسَ» . قَالَ: وَأَمَّا قَوْلُهَا يُفَطِّرُنِي إِذَا صُمْتُ فَإِنَّهَا تَنْطَلِقُ تَصُوم وَأَنا رجل شَاب فَلَا أَصْبِر فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَصُومُ امْرَأَةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا» وَأَمَّا قَوْلُهَا: إِنِّي لَا أُصَلِّي حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإنَّا أهل بَيت قد عرف لنا ذَاك لَا نَكَادُ نَسْتَيْقِظُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ: «فَإِذَا اسْتَيْقَظْتَ يَا صَفْوَانُ فَصَلِّ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی تو اس نے عرض کیا: میرا خاوند صفوان بن معطل، جب میں نماز پڑھتی ہوں تو وہ مجھے مارتا ہے، جب میں (نفلی) روزہ رکھتی ہوں تو وہ مجھے افطار کرنے کا حکم دیتا ہے، اور وہ سورج طلوع ہونے پر نماز فجر پڑھتا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں، صفوان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہی تھا، راوی نے کہا: آپ نے اس چیز کے متعلق جو اس (عورت) نے کہا تھا صفوان سے دریافت کیا، تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! رہا اس کا یہ کہنا کہ جب میں نماز پڑھتی ہوں تو وہ مجھے مارتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دو سورتیں پڑھتی ہے�� حالانکہ میں نے اسے منع کیا ہے، راوی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفوان سے فرمایا: ”اگر ایک ہی سورت ہوتی وہ لوگوں کے لیے کافی ہوتی۔ صفوان نے کہا: رہا اس کا یہ کہنا کہ جب میں روزہ رکھتی ہوں تو وہ مجھے افطار کرا دیتا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روزے رکھتی چلی جاتی ہے جبکہ میں نوجوان آدمی ہوں، میں (جماع سے) رُک نہیں سکتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزے نہ رکھے۔ “ اور اس کا یہ کہنا کہ میں سورج طلوع ہونے پر نماز پڑھتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھرانے کے متعلق مشہور ہے کہ ہم سورج طلوع ہونے پر ہی بیدار ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”صفوان! جب تم بیدار ہو تب نماز پڑھ لیا کرو۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (2459) و ابن ماجه (1762) ٭ الأعمش عنعن.»