وعن لقيط بن صبرة قال: قلت: يا رسول الله إن لي امراة في لسانها شيء يعني البذاء قال: «ط لقها» . قلت: إن لي منها ولدا ولها صحبة قال: «فمرها» يقول عظها «فإن يك فيها خير فستقبل ولا تضربن ظعينتك ضربك اميتك» . رواه ابو داود وَعَنْ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي امْرَأَةً فِي لِسَانِهَا شَيْءٌ يَعْنِي الْبَذَاءَ قَالَ: «ط لِّقْهَا» . قُلْتُ: إِنَّ لِي مِنْهَا وَلَدًا وَلَهَا صُحْبَةٌ قَالَ: «فَمُرْهَا» يَقُولُ عِظْهَا «فَإِنْ يَكُ فِيهَا خَيْرٌ فَسَتَقْبَلُ وَلَا تَضْرِبَنَّ ظَعِينَتَكَ ضَرْبَكَ أُمَيَّتَكَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے اس کی زبان میں کچھ (نقص) ہے یعنی وہ فحش گو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو۔ “ میں نے عرض کیا، میری اس سے اولاد ہے اور اس کے ساتھ ایک تعلق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے وعظ و نصیحت کرو، اگر اس میں کوئی خیر و بھلائی ہوئی تو وہ نصیحت قبول کر لے گی، اور اپنی اہلیہ کو لونڈی کی طرح نہ مارو۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (142. 143)»