وعن عائشة ان سودة لما كبرت قالت: يا رسول الله قد جعلت يومي منك لعائشة فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقسم لعائشة يومين يومها ويوم سودة وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ سَوْدَةَ لَمَّا كَبِرَتْ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ جَعَلْتُ يَوْمِي مِنْكَ لِعَائِشَةَ فَكَانَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَسَّمُ لِعَائِشَةَ يَوْمَيْنِ يَوْمَهَا وَيَوْم سَوْدَة
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سودہ رضی اللہ عنہ عمر رسیدہ ہو گئیں تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کی طرف سے جو میری باری کا دن تھا وہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہ کو ہبہ کر دیا، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عائشہ رضی اللہ عنہ کے لیے دو دن تقسیم فرمایا کرتے تھے، ایک ان کا اپنا اور دوسرا سودہ رضی اللہ عنہ کا دن تھا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5212) و مسلم (1463/47)»
وعنها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسال في مرضه الذي مات فيه: «اين انا غدا؟» يريد يوم عائشة فاذن له ازواجه يكون حيث شاء فكان في بيت عائشة حتى مات عندها. رواه البخاري وَعَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْأَلُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: «أَيْنَ أَنَا غَدًا؟» يُرِيدُ يَوْمَ عَائِشَةَ فَأَذِنَ لَهُ أَزْوَاجُهُ يَكُونُ حَيْثُ شَاءَ فَكَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ حَتَّى مَاتَ عِنْدَهَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرض وفات میں دریافت کیا کرتے تھے، میں کل کہاں ہوں گا؟ میں کل کہاں ہوں گا؟ آپ (اس سوال سے) عائشہ رضی اللہ عنہ کی باری کا دن پوچھنا چاہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے آپ کو اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں، آپ، عائشہ رضی اللہ عنہ کے گھر تھے حتی کہ آپ نے ان کے ہاں ہی وفات پائی۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5217) و مسلم (2443/840)»
وعنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد سفرا اقرع بين نسائه فايهن خرج سهمها خرج بها معه وَعَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ فأيهن خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر کا ارادہ فرمایا کرتے تھے تو آپ اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کیا کرتے تھے، جس کے نام قرعہ نکلتا تو وہ آپ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوتی تھیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2688) و مسلم (2770/56)»
وعن ابي قلابة عن انس قال: من السنة إذا تزوج الرجل البكر على الثيب اقام عندها سبعا وقسم إذا تزوج الثيب اقام عندها ثلاثا ثم قسم. قال ابو قلابة: ولو شئت لقلت: إن انسا رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم وَعَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْبِكْرَ عَلَى الثَّيِّبِ أَقَامَ عِنْدهَا سبعا وَقسم إِذا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا ثُمَّ قَسَمَ. قَالَ أَبُو قلَابَة: وَلَو شِئْت لَقلت: إِن أَنَسًا رَفْعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابوقلابہ، انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: ”مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب آدمی مطلقہ / بیوہ کے ہوتے ہوئے کسی کنواری سے شادی کرے تو وہ اس (کنواری) کے ہاں سات راتیں قیام کرے اور پھر باری تقسیم کرے، اور جب بیوہ / مطلقہ سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین راتیں قیام کرے اور پھر باری تقسیم کرے۔ ابوقلابہ نے کہا: اگر میں چاہوں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرفوع روایت کیا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5214) و مسلم (1461/44)»
--. حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو تین راتوں کی باری میں اختیار
حدیث نمبر: 3234
اعراب
وعن ابي بكر بن عبد الرحمن: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين تزوج ام سلمة واصبحت عنده قال لها: «ليس بك على اهلك هوان إن شئت سبعت عندك وسبعت عندهن وإن شئت ثلثت عندك ودرت» . قالت: ثلث. وفي رواية: إنه قال لها: «للبكر سبع وللثيب ثلاث» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِين تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَةَ وَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ قَالَ لَهَا: «لَيْسَ بِكِ عَلَى أَهْلِكِ هَوَانٌ إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ عِنْدَكِ وَسَبَّعْتُ عِنْدَهُنَّ وَإِنْ شِئْتِ ثَلَّثْتُ عِنْدَكِ وَدُرْتُ» . قَالَتْ: ثَلِّثْ. وَفِي رِوَايَةٍ: إِنَّهُ قَالَ لَهَا: «لِلْبِكْرِ سَبْعٌ وَلِلثَّيِّبِ ثَلَاثٌ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور وہ آپ کے ہاں اقامت گزیں ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”ایسی بات نہیں ہے کہ تیری میرے ہاں عزت نہیں ہے بلکہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے ہاں سات راتیں قیام کرتا ہوں اور پھر میں ان کے ہاں بھی سات راتیں قیام کروں گا، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے ہاں تین راتیں قیام کرتا ہوں اور پھر باقیوں کے پاس جاتا ہوں۔ “ انہوں (ام سلمہ رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا، آپ تین راتیں قیام کریں۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”کنواری کے لیے سات راتیں ہیں اور بیوہ / مطلقہ کے لیے تین راتیں ہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (41. 1460/42)»
عن عائشة: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقسم بين نسائه فيعدل ويقول: «اللهم هذا قسمي فيما املك فلا تلمني فيما تملك ولا املك» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ فَيَعْدِلُ وَيَقُولُ: «اللَّهُمَّ هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ والدارمي
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری تقسیم فرمایا کرتے تھے اور آپ عدل کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: ”اے اللہ! میں نے اپنی بساط کے مطابق باری تقسیم کر رکھی ہیں، آپ مجھے اس چیز (یعنی دلی محبت) کے بارے میں ملامت نہ کرنا جس کا تجھے اختیار ہے اور مجھے کوئی اختیار نہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1140) و أبو داود (2134) و النسائي (64/7 ح 3395) و ابن ماجه (1971) والدارمي (144/2 ح 2213)»
وعن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كانت عند الرجل امراتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَتْ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ فَلَمْ يَعْدِلْ بَيْنَهُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ سَاقِطٌ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ والدارمي
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے مابین عدل نہ کرے تو وہ روز قیامت اس حال میں ہو گا کہ اس کا ایک پہلو (نصف دھڑ) مفلوج ہو گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1141) و أبو داود (2133) والنسائي (63/7ح 3394) و ابن ماجه (1969) و الدارمي (143/2ح 2212) ٭ قتاده مدلس و عنعن و للحديث شاھد ضعيف عند أبي نعيم في أخبار أصبھان (300/2) فيه محمد بن الحارث الحارثي: ضعيف.»
عن عطاء قال: حضرنا مع ابن عباس جنازة ميمونة بسرف فقال: هذه زوجة رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا رفعتم نعشها فلا تزعزعوها ولا تزلزلوها وارفقوا بها فإنه كان عند رسول الله صلى الله عليه وسلم تسع نسوة كان يقسم منهن لثمان ولا يقسم لواحدة قال عطاء: التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يقسم لها بلغنا انها صفية وكانت آخرهن موتا ماتت بالمدينة وقال رزين: قال غير عطاء: هي سودة وهو اصح وهبت يومها لعائشة حين اراد رسول الله صلى الله عليه وسلم طلاقها فقالت له: امسكني قد وهبت يومي لعائشة لعلي اكون من نسائك في الجنة عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: حَضَرْنَا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَنَازَةَ مَيْمُونَةَ بِسَرِفَ فَقَالَ: هَذِهِ زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا رَفَعْتُمْ نَعْشَهَا فَلَا تُزَعْزِعُوهَا وَلَا تُزَلْزِلُوهَا وَارْفُقُوا بِهَا فَإِنَّهُ كَانَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعُ نِسْوَةٍ كَانَ يَقْسِمُ مِنْهُنَّ لِثَمَانٍ وَلَا يَقْسِمُ لِوَاحِدَةٍ قَالَ عَطَاءٌ: الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَقْسِمُ لَهَا بَلَغَنَا أَنَّهَا صَفِيَّةُ وَكَانَتْ آخِرهنَّ موتا مَاتَت بِالْمَدِينَةِ وَقَالَ رَزِينٌ: قَالَ غَيْرُ عَطَاءٍ: هِيَ سَوْدَةُ وَهُوَ أصح وهبت يَوْمهَا لِعَائِشَةَ حِينَ أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَاقَهَا فَقَالَتْ لَهُ: أَمْسِكْنِي قَدْ وهبت يومي لعَائِشَة لعَلي أكون من نِسَائِك فِي الْجنَّة
عطاء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم مقام سرف پر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ میمونہ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں شریک تھے، تو انہوں نے فرمایا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں، انہیں جھٹکے سے نہیں اٹھانا اور نہ چلتے وقت جھٹکے دینا اور بلکہ اسے آرام سے لے کر چلنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، آپ ان میں سے آٹھ کے لیے باری مقرر کرتے تھے اور ایک کے لیے باری مقرر نہیں فرماتے تھے، عطاء بیان کرتے ہیں، ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس زوجہ محترمہ کے لیے باری مقرر نہیں فرمایا کرتے تھے وہ صفیہ رضی اللہ عنہ تھیں، اور انہوں نے ان میں سے سب سے آخر میں مدینہ میں وفات پائی۔ متفق علیہ۔ رزین نے فرمایا: عطاء کے علاوہ دیگر محدثین نے فرمایا: وہ (جن کی باری مقرر نہیں تھی) سودہ رضی اللہ عنہ تھیں، اور یہی بات زیادہ صحیح ہے، کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہ کو ہبہ کر دی تھی، اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: میں نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہ کو ہبہ کر دی، تاکہ میں جنت میں آپ کی ازواج مطہرات میں سے ہوں۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5067) و مسلم (1465/51) و رزين (لم أجده) ٭ لقوله سودة: انظر صحيح مسلم (47. 48 / 1463) وغيره.»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «استوصوا بالنساء خيرا فإنهن خلقن من ضلع وإن اعوج شيء في الضلع اعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل اعوج فاستوصوا بالنساء» عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسْرَتَهُ وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کے ساتھ خیر و بھلائی سے پیش آؤ، کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں، اور پسلی کا اوپر والا حصہ سب سے زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے، اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھا رہے گا، تم عورتوں کے ساتھ خیر و بھلائی کا خیال رکھو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5186) و مسلم (1468/60)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن المراة خلقت من ضلع لن تستقيم لك على طريقة فإن استمتعت بها استمتعت بها وبها عوج وإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها» . رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ لَنْ تَسْتَقِيمَ لَكَ عَلَى طَرِيقَةٍ فَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَبِهَا عِوَجٌ وَإِنْ ذَهَبْتَ تقيمها كسرتها وَكسرهَا طَلاقهَا» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، وہ آپ کے ساتھ کبھی ایک انداز پر گزر بسر نہیں کرے گی، اگر تم اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو تم اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی اس سے فائدہ حاصل کرو، اور اگر تم نے اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی تو تم اسے توڑ دو گے، اور اسے توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1468/59)»