عن انس ان النبي صلى الله عليه وسلم اولم على صفية بسويق وتمر. رواه احمد والترمذي وابو داود وابن ماجه عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أولم على صَفِيَّة بسويق وتمر. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہ کا ستو اور کھجور سے ولیمہ کیا۔ حسن، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (110/3 ح 12102) و الترمذي (1095 وقال حسن غريب) و أبو داود (2744) و ابن ماجه (1909)»
--. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر سے واپس چلے جانا
حدیث نمبر: 3221
اعراب
وعن سفينة: ان رجلا ضاف علي بن ابي طالب فصنع له طعاما فقالت فاطمة: لو دعونا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاكل معنا فدعوه فجاء فوضع يديه على عضادتي الباب فراى القرام قد ضرب في ناحية البيت فرجع. قالت فاطمة: فتبعته فقلت: يا رسول الله ما ردك؟ قال: «إنه ليس لي او لنبي ان يدخل بيتا مزوقا» . رواه احمد وابن ماجه وَعَنْ سَفِينَةَ: أَنَّ رَجُلًا ضَافَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: لَوْ دَعَوْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ مَعَنَا فَدَعَوْهُ فَجَاءَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى عِضَادَتَيِ الْبَابِ فَرَأَى الْقِرَامَ قَدْ ضُرِبَ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ فَرَجَعَ. قَالَتْ فَاطِمَةُ: فَتَبِعْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَدَّكَ؟ قَالَ: «إِنَّهُ لَيْسَ لِي أَوْ لِنَبِيٍّ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتا مزوقا» . رَوَاهُ أَحْمد وَابْن مَاجَه
سفینہ (ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام) سے روایت ہے کہ ایک آدمی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرا تو انہوں نے اس کے لیے کھانا تیار کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی مدعو کر لیں تاکہ وہ ہمارے ساتھ تناول فرما لیں؟ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی تو آپ تشریف لائے اور آپ نے اپنے ہاتھ دروازے کی چوکھٹ پر رکھے تھے کہ گھر کی ایک جانب لگے ہوئے منقش پردے کو دیکھا تو آپ واپس تشریف لے گئے۔ فاطمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں آپ کے پیچھے گئی اور عرض کیا، اللہ کے رسول! کس چیز نے آپ کو واپس کر دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے یا کسی نبی کے لیے لائق نہیں کہ وہ کسی مزین گھر میں داخل ہو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (220/5. 221 ح 22267، 22271) و ابن ماجه (3360)»
وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من دعي فلم يجب فقد عصى الله ورسوله ومن دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ دُعِيَ فَلَمْ يُجِبْ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَمن دخل على غَيْرِ دَعْوَةٍ دَخَلَ سَارِقًا وَخَرَجَ مُغِيرًا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو دعوت دی جائے اور وہ قبول نہ کرے تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور جو شخص بن بلائے چلا آئے تو وہ چور کی حیثیت سے داخل ہوا اور ڈاکو کی حیثیت سے خارج ہوا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3741) ٭ درست بن زياد: ضعيف، و أبان بن طارق: مجھول و قال ابن عدي: ’’ھذا حديث منکر‘‘»
وعن رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إذا اجتمع الداعيان فاجب اقربهما بابا وإن سبق احدهما فاجب الذي سبق» . رواه احمد وابو داود وَعَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا اجْتَمَعَ الدَّاعِيَانِ فَأَجِبْ أَقْرَبَهُمَا بَابًا وَإِنْ سَبَقَ أَحَدُهُمَا فَأَجِبِ الَّذِي سَبَقَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب دعوت دینے والے دو افراد اکٹھے ہو جائیں تو پھر ان میں سے جو ہمسائیگی کے لحاظ سے زیادہ قریب ہو اس کی دعوت قبول کرو، اور اگر ان میں سے کوئی ایک سبقت لے جائے تو پھر اس سبقت لے جانے والے کی دعوت قبول کرو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (408/5 ح 23860) و أبو داود (3756) ٭ أبو خالد الدا لاني مدلس و عنعن و الحديث ضعفه الحافظ في التلخيص الحبير (196/3)»
وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طعام اول يوم حق وطعام يوم الثاني سنة وطعام يوم الثالث سمعة ومن سمع سمع الله به» . رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طَعَامُ أَوَّلِ يَوْمٍ حق وَطَعَام يَوْم الثَّانِي سنة وَطَعَام يَوْم الثَّالِثِ سُمْعَةٌ وَمَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے روز (ولیمہ) کا کھانا حق (واجب) ہے، دوسرے روز دعوت کرنا سنت ہے جبکہ تیسرے روز دعوت کرنا شہرت و ریا کاری ہے اور جو کوئی دکھلاوا کرتا ہے تو اللہ (قیامت کے دن) اسے رسوا کر دے گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1097) ٭ عطاء بن السائب اختلط و للحديث شواھد ضعيفة عند أبي داود (3745) وغيره.»
وعن عكرمة عن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن طعام المتباريين ان يؤكل. رواه ابو داود وقال محيي السنة: والصحيح انه عن عكرمة عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا وَعَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ طَعَامِ الْمُتَبَارِيَيْنِ أَنْ يُؤْكَلَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَقَالَ مُحْيِي السُّنَّةِ: وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا
عکرمہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہم فخر کرنے والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد، اور محی السنہ نے فرمایا: صحیح یہ ہے کہ عکرمہ کی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ مرسل روایت ہے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (3754) و ذکره محيي السنة في شرح السنة (144/9 بعد ح 2319) [و صححه الحاکم (128/4. 129) ووافقه الذهبي و للحديث شواھد.]»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المتباريان لا يجابان ولا يؤكل طعامهما» . قال الإمام احمد: يعني المتعارضين بالضيافة فخرا ورياء عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمُتَبَارِيَانِ لَا يُجَابَانِ وَلَا يُؤْكَلُ طَعَامُهُمَا» . قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: يَعْنِي المتعارضين بالضيافة فخراً ورياء
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دو باہم فخر کرنے والوں کی دعوت قبول نہ کی جائے اور نہ ان دونوں کا کھانا کھایا جائے۔ “ امام احمد نے فرمایا: یعنی وہ دو آدمی جو فخر و ریا کی خاطر ضیافت کرتے ہیں۔ حسن، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه البيھقي في شعب الإيمان (6068، نسخة محققة: 5667) فائدة: قوله قال الإمام أحمد: يعني الإمام أحمد بن الحسين البيھقي رحمه الله و القائل: زاھر بن طاهر الشحامي، الراوي عن البيھقي رحمه الله. ٭ الأعمش مدلس و عنعن فالسند ضعيف والحديث حسن بالشاھد المتقدم (3225)»
وعن عمران ين حصين قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم إجابة طعام الفاسقين وَعَن عمرَان ين حُصَيْنٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِجَابَة طَعَام الْفَاسِقين
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاسق لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان: 5803، نسخة محققة: 5420) ٭ فيه أبو عبد الرحمٰن السلمي: ضعيف جدًا و محمد بن عبد الله بن (محمد بن ھمام بن) المطلب الشيباني مجروح کذاب فالسند موضوع و لکن رواه الطبراني في الکبير (168/18 ح 376) بسند مظلم عن (أبي) مروان الواسطي (يحيي بن أبي زکريا الغساني) عن ھشام بن حسان به و أبو مروان الغساني ھذا ضعيف کما في تقريب التهذيب (7550)»
--. مسلمان بھائی کی دعوت پر زیادہ سوال جواب نہ کیے جائیں
حدیث نمبر: 3228
اعراب
وعن ابي هريرة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا دخل احدكم على اخيه المسلم فلياكل من طعامه ولا يسال ويشرب من شرابه ولا يسال» روى الاحاديث الثلاثة البيهقي في «شعب الإيمان» وقال: هذا إ صح فلان الظاهر ان المسلم لا يطعمه ولا يسقيه إلا ما هو حلال عنده وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ عَلَى أَخِيهِ الْمُسْلِمِ فَلْيَأْكُلْ مِنْ طَعَامِهِ وَلَا يَسْأَلْ وَيَشْرَبْ مِنْ شَرَابِهِ وَلَا يَسْأَلْ» رَوَى الْأَحَادِيثَ الثَّلَاثَة الْبَيْهَقِيّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» وَقَالَ: هَذَا إِ ْ صَحَّ فَلِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الْمُسْلِمَ لَا يُطْعِمُهُ وَلَا يسْقِيه إِلَّا مَا هُوَ حَلَال عِنْده
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایک اپنے مسلمان بھائی کے پاس جائے تو وہ اس کے کھانے سے کھائے اور سوال نہ کرے (کہ یہ کہاں سے آیا ہے) اور وہ اس کے مشروب سے پیئے اور کچھ دریافت نہ کرے۔ “ امام بیہقی نے یہ تینوں احادیث شعب الایمان میں روایت کی ہیں، اور فرمایا: اگر یہ صحیح ہے، تو ظاہر ہے کہ مسلمان اسے صرف وہی چیز کھلاتا پلاتا ہے جو اس کے نزدیک حلال ہوتی ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (5801، نسخة محققة: 5419) [و صححه الحاکم (126/4 ح7160) ووافقه الذهبي!] ٭ فيه مسلم بن خالد: ضعيف و للحديث شاھد عند الحاکم (ح7161) فيه محمد بن عجلان مدلس وعنعن.»
عن ابن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض عن تسع نسوة وكان يقسم منهن لثمان عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ عَنْ تِسْعِ نِسْوَةٍ وَكَانَ يقسم مِنْهُنَّ لثمان
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو اس وقت آپ کی نو ازواج مطہرات تھیں، اور آپ نے ان میں سے آٹھ کے لیے باری مقرر کی تھی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5067) و مسلم (1465/51)»