وعن سفينة: ان رجلا ضاف علي بن ابي طالب فصنع له طعاما فقالت فاطمة: لو دعونا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاكل معنا فدعوه فجاء فوضع يديه على عضادتي الباب فراى القرام قد ضرب في ناحية البيت فرجع. قالت فاطمة: فتبعته فقلت: يا رسول الله ما ردك؟ قال: «إنه ليس لي او لنبي ان يدخل بيتا مزوقا» . رواه احمد وابن ماجه وَعَنْ سَفِينَةَ: أَنَّ رَجُلًا ضَافَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: لَوْ دَعَوْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ مَعَنَا فَدَعَوْهُ فَجَاءَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى عِضَادَتَيِ الْبَابِ فَرَأَى الْقِرَامَ قَدْ ضُرِبَ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ فَرَجَعَ. قَالَتْ فَاطِمَةُ: فَتَبِعْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَدَّكَ؟ قَالَ: «إِنَّهُ لَيْسَ لِي أَوْ لِنَبِيٍّ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتا مزوقا» . رَوَاهُ أَحْمد وَابْن مَاجَه
سفینہ (ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام) سے روایت ہے کہ ایک آدمی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرا تو انہوں نے اس کے لیے کھانا تیار کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی مدعو کر لیں تاکہ وہ ہمارے ساتھ تناول فرما لیں؟ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی تو آپ تشریف لائے اور آپ نے اپنے ہاتھ دروازے کی چوکھٹ پر رکھے تھے کہ گھر کی ایک جانب لگے ہوئے منقش پردے کو دیکھا تو آپ واپس تشریف لے گئے۔ فاطمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں آپ کے پیچھے گئی اور عرض کیا، اللہ کے رسول! کس چیز نے آپ کو واپس کر دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے یا کسی نبی کے لیے لائق نہیں کہ وہ کسی مزین گھر میں داخل ہو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (220/5. 221 ح 22267، 22271) و ابن ماجه (3360)»