--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کو جاگیر کا تحفہ
حدیث نمبر: 2999
اعراب
وعن علقمة بن وائل عن ابيه: ان النبي صلى الله عليه وسلم اقطعه ارضا بحضرموت قال: فارسل معي معاوية قال: «اعطها إياه» . رواه الترمذي والدارمي وَعَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَهُ أَرْضًا بِحَضْرَمَوْتَ قَالَ: فَأَرْسَلَ مَعِي مُعَاوِيَةَ قَالَ: «أَعْطِهَا إِيَّاه» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي
علقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرموت (یمن) کے علاقے میں انہیں جاگیر دی، وہ بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو میرے ساتھ بھیجا اور فرمایا: ”وہ انہیں دے آؤ۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (1381 وقال: حسن صحيح) و الدارمي (269/2 ح 2612)»
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کو نمک کی کان کا تحفہ
حدیث نمبر: 3000
اعراب
وعن ابيض بن حمال الماربي: انه وفد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستقطعه الملح الذي بمارب فاقطعه إياه فلما ولى قال رجل: يا رسول الله إنما اقطعت له الماء العد قال: فرجعه منه قال: وساله ماذا يحمى من الاراك؟ قال: «ما لم تنله اخفاف الإبل» . رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي وَعَن أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالِ الْمَأْرِبِيِّ: أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْتَقْطَعَهُ الْمِلْحَ الَّذِي بِمَأْرِبَ فَأَقْطَعُهُ إِيَّاهُ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا أَقْطَعْتَ لَهُ الْمَاءَ الْعِدَّ قَالَ: فَرَجَّعَهُ مِنْهُ قَالَ: وَسَأَلَهُ مَاذَا يحمى من الْأَرَاك؟ قَالَ: «مَا لَمْ تَنَلْهُ أَخْفَافُ الْإِبِلِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه والدارمي
ابیض بن حمال ماربی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ سے مارب کی نمک کی کان بطور جاگیر طلب کی تو آپ نے وہ اسے عطا کر دی، جب وہ آدمی واپس مڑا تو ایک آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نے تو اسے دائمی چیز عطا فرما دی، راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس سے واپس لے لیا۔ راوی بیان کرتے ہیں، کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا پیلو کے درختوں کی زمین کس قدر دور جا کر گھیر لی جائے؟ فرمایا: ”جہاں اونٹ نہ پہنچ پائیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1380 وقال: حسن غريب) و ابن ماجه (2475) والدارمي (269/2 ح2611)»
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المسلمون شركاء في ثلاث: الماء والكلا والنار. رواه ابو داود وابن ماجه وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاث: الْمَاءِ وَالْكَلَأِ وَالنَّارِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان تین چیزوں: پانی، گھاس اور آگ میں، حصہ دار ہیں۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (3477 وسنده صحيح) و ابن ماجه (2472 وسنده ضعيف جدًا)»
وعن اسمر بن مضرس قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فبايعته فقال: «من سبق إلى ماء لم يسبقه إليه مسلم فهو له» . رواه ابو داود وَعَنْ أَسْمَرَ بْنِ مُضَرِّسٍ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْتُهُ فَقَالَ: «مَنْ سَبَقَ إِلَى مَاءٍ لَمْ يَسْبِقْهُ إِلَيْهِ مُسْلِمٌ فَهُوَ لَهُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
اسمر بن مُضَرس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کی بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی ایسے پانی (چشمے) پر، جہاں کوئی مسلمان نہ پہنچا ہو، پہلے پہنچ جائے تو وہ پانی اسی کا ہے۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (3071)»
--. جس قوم میں کمزور لوگوں کے حقوق محفوظ نہ ہوں وہ پاک نہیں
حدیث نمبر: 3003
اعراب
وعن طاوس مرسلا: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من احيى مواتا من الارض فهو له وعادي الارض لله ورسوله ثم هي لكم مني» . رواه الشافعي وَعَنْ طَاوُسٍ مُرْسَلًا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «من أحيى مَوَاتًا مِنَ الْأَرْضِ فَهُوَ لَهُ وَعَادِيُّ الْأَرْضِ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ هِيَ لَكُمْ مِنِّي» . رَوَاهُ الشَّافِعِي
طاؤس ؒ سے مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بنجر زمین کو آباد کر لے تو وہ اسی کی ہے۔ اور قدیم بنجر زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے، پھر وہ میری طرف سے تمہارے لیے ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الشافعی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الشافعي في الأم (45/4) عن سفيان (بن عيينة) عن طاووس رحمه الله به. ٭ السند مرسل.»
وروي في «شرح السنة» : ان النبي صلى الله عليه وسلم اقطع لعبد الله بن مسعود الدور بالمدينة وهي بين ظهراني عمارة الانصار من المنازل والنخل فقال بنو عبد بن زهرة: نكتب عنا ابن ام عبد فقال لهم رسول الله: «فلم ابتعثني الله إذا؟ إن الله لا يقدس امة لا يؤخذ للضعيف فيهم حقه» وَرُوِيَ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ» : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ الدُّورَ بِالْمَدِينَةِ وَهِيَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ عِمَارَةِ الْأَنْصَارِ مِنَ الْمَنَازِلِ وَالنَّخْلِ فَقَالَ بَنُو عَبْدِ بن زهرَة: نكتب عَنَّا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ الله: «فَلِمَ ابْتَعَثَنِي اللَّهُ إِذًا؟ إِنَّ اللَّهَ لَا يُقَدِّسُ أُمَّةً لَا يُؤْخَذُ لِلضَّعِيفِ فِيهِمْ حَقُّهُ»
شرح السنہ میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں کچھ گھر بطور جاگیر عطا کیے، وہ انصار کے گھروں اور نخلستان کے درمیان تھے، بنوعبد بن زہرہ نے کہا: ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) کو ہم سے دور کر دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”تب اللہ نے مجھے مبعوث ہی کیوں کیا ہے، بے شک اللہ اس امت کو پاک نہیں کرتا جس میں ان کے ضعیف شخص کو اس کا حق نہ دلایا جائے۔ “ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (271/8 بعد ح 2189) [والشافعي في الأم 45/4، 50 وسنده مرسل أي ضعيف لإرساله] ٭ و له شاھد ضعيف عند الطبراني في المعجم الکبير، فيه عبد الرحمٰن بن سلام عن سفيان عن يحيي بن جعدة عن ھبيرة بن يريم عن ابن مسعود، و شاھد آخر ضعيف عند الخطيب (188/4)»
وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في السيل المهزور ان يمسك حتى يبلغ الكعبين ثم يرسل الاعلى على الاسفل. رواه ابو داود وابن ماجه وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي السَّيْلِ الْمَهْزُورِ أَنْ يُمْسَكَ حَتَّى يَبْلُغَ الْكَعْبَيْنِ ثُمَّ يُرْسَلَ الْأَعْلَى عَلَى الْأَسْفَل. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیل مہزور کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ اس کو روکا جائے حتی کہ وہ (پانی) ٹخنوں تک پہنچ جائے، پھر بالائی حصے سے نشیبی حصے کو پانی چھورا جائے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (3639) و ابن ماجه (2482)»
وعن سمرة بن جندب: انه كانت له عضد من نخل في حائط رجل من الانصار ومع الرجل اهله فكان سمرة يدخل عليه فيتاذى به فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكرذلك له فطلب إليه النبي صلى الله عليه وسلم ليبيعه فابى فطلب ان يناقله فابى قال: «فهبه له ولك كذا» امرا رغبة فيه فابى فقال: «انت مضار» فقال للانصاري: «اذهب فاقطع نخله» . رواه ابو داود وذكر حديث جابر: «من احيي ارضا» في «باب الغصب» برواية سعيد بن زيد. وسنذكر حديث ابي صرمة: «من ضار اضر الله به» في «باب ما ينهي من التهاجر» وَعَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ: أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ عضد من نخل فِي حَائِطِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَمَعَ الرَّجُلِ أَهْلُهُ فَكَانَ سَمُرَةُ يَدْخُلُ عَلَيْهِ فَيَتَأَذَّى بِهِ فَأتى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فذكرذلك لَهُ فَطَلَبَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم ليَبِيعهُ فَأبى فَطلب أَن يناقله فَأَبَى قَالَ: «فَهَبْهُ لَهُ وَلَكَ كَذَا» أَمْرًا رَغْبَةً فِيهِ فَأَبَى فَقَالَ: «أَنْتَ مُضَارٌّ» فَقَالَ لِلْأَنْصَارِيِّ: «اذْهَبْ فَاقْطَعْ نَخْلَهُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَذكر حَدِيث جَابر: «من أحيي أَرضًا» فِي «بَاب الْغَصْب» بِرِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ. وَسَنَذْكُرُ حَدِيثَ أَبِي صِرْمَةَ: «مَنْ ضَارَّ أَضَرَّ اللَّهُ بِهِ» فِي «بَاب مَا يُنْهِي من التهاجر»
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے کھجوروں کے کچھ درخت ایک انصاری شخص کے باغ میں تھے، اور اس کے بچے بھی اس شخص کے ساتھ (باغ میں) تھے، سمرہ رضی اللہ عنہ جب اس شخص کے پاس جاتے تو وہ ان سے تکلیف محسوس کرتا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو ساری بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمرہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا تاکہ وہ اسے فروخت کر دیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا، آپ نے مطالبہ کیا کہ ان درختوں کے بدلہ میں کسی اور جگہ لے لو، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، فرمایا: ”اسے ہبہ کر دو۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ترغیب کے انداز میں فرمایا کہ: ”تمہیں (جنت میں) یہ کچھ ملے گا۔ “ انہوں نے پھر بھی انکار کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم تکلیف پہنچانے والے ہو۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصاری شخص سے فرمایا: ”جاؤ اور اس کے کھجوروں کے درخت کاٹ دو۔ “ اور جابر سے مروی حدیث: ”جس نے بنجر زمین کو آباد کیا۔ “ سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت سے ”باب الغصب“ میں ذکر کی گئی ہے۔ اور ہم ابوصرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ”جس نے کسی کو تکلیف پہنچائی تو اللہ اسے تکلیف پہنچائے گا۔ “”باب ما ینھی عن التھاجر“ میں ذکر کریں گے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3636) ٭ قال ابن الترکماني: ’’ذکر ابن حزم أنه منقطع لأن محمد بن علي لا سماع له من سمرة‘‘ (الجوھر النقي 157/6)»
عن عائشة انها قالت: يا رسول الله ما الشيء الذي لا يحل منعه؟ قال: «الماء والملح والنار» قالت: قلت: يا رسول الله هذا الماء قد عرفناه فما بال الملح والنار؟ قال: «يا حميراء امن اعطى نارا فكانما تصدق بجميع ما انضجت تلك النار ومن اعطى ملحا فكانما تصدق بجميع ما طيبت تلك الملح ومن سقى مسلما شربة من ماء حيث يوجد الماء فكانما اعتق رقبة ومن سقى مسلما شربة من ماء حيث لا يوجد الماء فكانما احياها» . رواه ابن ماجه عَن عَائِشَة أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟ قَالَ: «الْمَاءُ وَالْمِلْحُ وَالنَّار» قَالَت: قلت: يَا رَسُول الله هَذَا الْمَاءُ قَدْ عَرَفْنَاهُ فَمَا بَالُ الْمِلْحِ وَالنَّارِ؟ قَالَ: «يَا حميراء أَمن أَعْطَى نَارًا فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِيعِ مَا أَنْضَجَتْ تِلْكَ النَّارُ وَمَنْ أَعْطَى مِلْحًا فَكَأَنَّمَا تَصَدَّقَ بِجَمِيعِ مَا طَيَّبَتْ تِلْكَ الْمِلْحُ وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ حَيْثُ يُوجَدُ الْمَاءُ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَ رَقَبَةً وَمَنْ سَقَى مُسْلِمًا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ حَيْثُ لَا يُوجَدُ الْمَاءُ فَكَأَنَّمَا أَحْيَاهَا» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! وہ کون سی چیز ہے جس کا روکنا حلال نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پانی، نمک اور آگ۔ “ وہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پانی کی اہمیت و ضرورت کا تو ہمیں پتہ ہے، لیکن نمک اور آگ کی تو وہ صورت نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حمیراء! جس شخص نے آگ دی تو گویا اس نے اس آگ سے پکنے والی تمام چیزیں، صدقہ کیں۔ اور جس نے نمک دیا تو گویا اس نمک نے جن چیزوں کو لذیذ بنایا وہ تمام چیزیں اس نے صدقہ کیں۔ جس شخص نے پانی کے ہوتے ہوئے کسی مسلمان کو ایک گھونٹ پانی پلایا تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا، اور جس نے پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں کسی مسلمان کو پانی کا گھونٹ پلا دیا تو گویا اس نے اسے زندگی عطا کر دی۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (2474) ٭ علي بن زيد بن جدعان: ضعيف و زھير بن مرزوق: مجھول، و علي بن غراب: مدلس، وللحديث شاھدان ضعيفان.»
--. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی زمین کی پیداوار کو عطیہ میں دینے کا قصہ
حدیث نمبر: 3008
اعراب
عن ابن عمر رضي الله عنهما ان عمر اصاب ارضا بخيبر فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إني اصبت ارضا بخيبر لم اصب مالا قط انفس عندي منه فما تامرني به؟ قال: «إن شئت حبست اصلها وتصدقت بها» . فتصدق بها عمر: إنه لا يباع اصلها ولا يوهب ولا يورث وتصدق بها في الفقراء وفي القربى وفي الرقاب وفي سبيل الله وابن السبيل والضيف لا جناح على من وليها ان ياكل منها بالمعروف او يطعم غير متمول قال ابن سيرين: غير متاثل مالا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عُمَرَ أَصَابَ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ فَمَا تَأْمُرُنِي بِهِ؟ قَالَ: «إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا» . فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ: إِنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهب وَلَا يُورث وَتصدق بهَا فِي الْفُقَرَاءِ وَفِي الْقُرْبَى وَفِي الرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالضَّيْفِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ قَالَ ابْنُ سِيرِينَ: غير متأثل مَالا
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کی کچھ زمین عمر رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے خیبر کی جو زمین ملی ہے اس سے پہلے اتنا نفیس مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپ اس کے متعلق مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اس کا اصل مال تم رکھ لو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے اس شرط پر اسے صدقہ کیا کہ اس کے اصل کو بیچا جائے گا نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ ہی وراثت میں تقسیم ہو گا اور اس کی پیداوار کو فقراء، رشتہ داروں، غلاموں کو آزاد کرانے، اللہ کی راہ میں، مسافر پر اور مہمانوں پر خرچ کیا جائے گا، اور اس کی سرپرستی و نگرانی کرنے والے پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ اس میں سے بھلے طریقے سے کھائے ذخیرہ نہ کرتے ہوئے دوسروں (اہل خانہ وغیرہ) کو بھی کھلائے۔ “ ابن سرین ؒ نے فرمایا: مال جمع کرنے والا نہ ہو۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2737) و مسلم (1632/15)»