عن رافع بن خديج عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من زرع في ارض قوم بغير إذنهم فليس له من الزرع شيء وله نفقته» . رواه الترمذي وابو داود وقال الترمذي: هذا حديث غريب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ زَرَعَ فِي أَرْضِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ فَلَيْسَ لَهُ مِنَ الزَّرْعِ شَيْءٌ وَلَهُ نَفَقَتُهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر کاشت کرے تو زرعی پیداوار سے اسے کچھ نہیں ملے گا، وہ صرف خرچے کا حقدار ہے۔ “ ترمذی، ابوداؤد۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (1366) و أبو داود (3403) [و ابن ماجه: 2466] ٭ أبو إسحاق عنعن و عطاء لم يسمع من رافع بن خديج رضي الله عنه.»
عن قيس بن مسلم عن ابي جعفر قال: ما بالمدينة اهل بيت هجرة إلا يزرعون على الثلث والربع وزارع علي وسعد بن مالك وعبد الله بن مسعود وعمر ابن عبد العزيز والقاسم وعروة وآل ابي بكر وآل عمر وآل علي وابن سيرين وقال عبد الرحمن بن الاسود: كنت اشارك عبد الرحمن بن يزيد في الزرع وعامل عمر الناس على: إن جاء عمر بالبذر من عنده فله الشطر. وإن جاؤوا بالبذر فلهم كذا. رواه البخاري عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ: مَا بِالْمَدِينَةِ أَهْلُ بَيْتِ هِجْرَةٍ إِلَّا يَزْرَعُونَ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَزَارَعَ عَلِيٌّ وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعُمَرُ ابْن عبد الْعَزِيز وَالقَاسِم وَعُرْوَة وَآل أبي بَكْرٍ وَآلُ عُمَرَ وَآلُ عَلِيٍّ وَابْنُ سِيرِينَ وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ: كُنْتُ أُشَارِكُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ فِي الزَّرْعِ وَعَامَلَ عُمَرُ النَّاسَ عَلَى: إِنْ جَاءَ عُمَرُ بِالْبَذْرِ من عِنْده فَلهُ الشّطْر. وَإِن جاؤوا بالبذر فَلهم كَذَا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
قیس بن مسلم، ابوجعفر سے بیان کرتے ہیں، تمام مہاجر مدینہ میں تہائی یا چوتھائی حصے پر زراعت کرتے تھے، علی، سعد بن مالک، عبداللہ بن مسعود، عمر بن عبدالعزیز، قاسم، عروہ، آل ابوبکر، آل عمر، اور آل علی اور ابن سرین نے زراعت کی، اور عبدالرحمٰن بن اسود بیان کرتے ہیں، میں زراعت میں عبدالرحمٰن بن یزید کے ساتھ شراکت کیا کرتا تھا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے معاملہ کیا کہ اگر عمر بیج مہیا کرے گا تو نصف پیداوار وہ لے گا اور اگر وہ بیج مہیا کریں گے تو ان کے لیے اتنا حصہ ہو گا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (کتاب الحرث و المزارعة باب: 8 قبل ح 2328 تعليقًا) [و عبد الرزاق في المصنف (100/8 ح 14476) و ابن حجر في تغليق التعليق (300/3)]»
عن عبد الله بن مغفل قال: زعم ثابت بن الضحاك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزارعة وامر بالمؤاجرة وقال: «لا باس بها» . رواه مسلم عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: زَعَمَ ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُزَارَعَةِ وَأَمَرَ بِالْمُؤَاجَرَةِ وَقَالَ: «لَا بَأْسَ بِهَا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ثابت بن ضحاک نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزارعت سے منع فرمایا اور مؤاجرت (ٹھیکے) پر کام کرنے کا حکم فرمایا، اور فرمایا: ”اس میں کوئی حرج نہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (119/ 1549)»
وعن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم احتجم فاعطى الحجام اجره واستعط وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ فَأَعْطَى الْحَجَّامَ أجره واستعط
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پچھنے لگوائے تو پچھنے لگانے والے کو اس کی اجرت دی اور ناک میں دوائی ڈلوائی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5691) و مسلم (1202/65)»
وعن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم» . فقال اصحابه: وانت؟ فقال: «نعم كنت ارعى على قراريط لاهل مكة» . رواه البخاري وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الْغَنَمَ» . فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ كُنْتُ أَرْعَى عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔ “ آپ کے صحابہ نے عرض کیا: آپ نے بھی؟ فرمایا: ”ہاں! میں بھی چند قراط پر مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2262)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال الله تعالى: ثلاثة انا خصمهم يوم القيامة: رجل اعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فاكل ثمنه ورجل استاجر اجيرا فاستوفى منه ولم يعطه اجره. رواه البخاري وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ روزِ قیامت میں خود ان سے جھگڑوں گا: ایک وہ آدمی جو میرا نام لے کر عہد کرے پھر اسے توڑ ڈالے، وہ شخص جو کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھا جائے اور ایک وہ آدمی جو کسی مزدور کو اجرت پر رکھے تو اس سے پورا کام لے لیکن اسے اجرت نہ دے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2227)»
وعن ابن عباس: ان نفرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بماء فبهم لديغ او سليم فعرض لهم رجل من اهل الماء فقال: هل فيكم من راق؟ إن في الماء لديغا او سليما فانطلق رجل منهم فقرا بفاتحة الكتاب على شاء فبرئ فجاء بالشاء إلى اصحابه فكرهوا ذلك وقالوا: اخذت على كتاب الله اجرا حتى قدموا المدينة فقالوا: يا رسول الله اخذ على كتاب الله اجرا. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب الله» . رواه البخاري وفي رواية: «اصبتم اقسموا واضربوا لي معكم سهما» وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ فبهم لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَاءِ فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ؟ إِن فِي المَاء لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَة الْكتاب على شَاءَ فبرئ فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ فَكَرِهُوا ذَلِكَ وَقَالُوا: أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا حَتَّى قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَفِي رِوَايَةٍ: «أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا»
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند صحابہ کا پانی (کے گھاٹ) کے پاس سے گزر ہوا تو وہاں ایک آدمی تھا جسے بچھو یا سانپ نے ڈس لیا تھا، اس پانی پر آباد لوگوں میں سے ایک آدمی آیا تو اس نے کہا: کیا تم میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے؟ کیونکہ ہماری آبادی میں ایک آدمی ہے جسے بچھو یا سانپ نے ڈس لیا ہے، ان (صحابہ کرام) میں سے ایک آدمی گیا اور کچھ بکریوں کے عوض اس پر سورۂ فاتحہ پڑھی اور بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو انہوں نے اسے ناپسند کیا، اور کہا: کیا تم نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی؟ حتی کہ وہ مدینہ پہنچ گئے، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز پر تم اجرت لینے کے سب سے زیادہ حق دار ہو، وہ اللہ کی کتاب ہے۔ “ اور ایک دوسری حدیث میں ہے: ’ تم نے ٹھیک کیا، تقسیم کرو اور اپنے ساتھ میرا بھی حصہ مقرر کرو۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5737)»
عن خارجة بن الصلت عن عمه قال: اقبلنا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتينا على حي من العرب فقالوا: إنا انبئنا انكم قد جئتم من عند هذا الرجل بخير فهل عندكم من دواء او رقية؟ فإن عندنا معتوها في القيود فقلنا: نعم فجاؤوا بمعتوه في القيود فقرات عليه بفاتحة الكتاب ثلاثة ايام غدوة وعشية اجمع بزاقي ثم اتفل قال: فكانما انشط من عقال فاعطوني جعلا فقلت: لا حتى اسال النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «كل فلعمري لمن اكل برقية باطل لقد اكلت برقية حق» . رواه احمد وابو داود عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ عَمِّهِ قَالَ: أَقْبَلْنَا مِنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْنَا عَلَى حَيٍّ مِنَ الْعَرَبِ فَقَالُوا: إِنَّا أُنْبِئْنَا أَنَّكُمْ قَدْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِ هَذَا الرَّجُلِ بِخَيْرٍ فَهَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رُقْيَةٍ؟ فَإِنَّ عِنْدَنَا مَعْتُوهًا فِي الْقُيُود فَقُلْنَا: نعم فجاؤوا بِمَعْتُوهٍ فِي الْقُيُودِ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً أَجْمَعُ بُزَاقِي ثُمَّ أَتْفُلُ قَالَ: فَكَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَأَعْطَوْنِي جُعْلًا فَقُلْتُ: لَا حَتَّى أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «كُلْ فَلَعَمْرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
خارجہ بن صلت اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے واپس آ رہے تھے، تو ہم ایک عرب قبیلے کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: ہمیں پتہ چلا کہ تم اس آدمی سے خیر (یعنی قرآن) لے کر آ رہے ہو، کیا تمہارے پاس کوئی دوائی یا دم ہے کیونکہ ہمارے پاس ایک مجنون شخص جکڑا ہوا ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، وہ اس جکڑے ہوئے دیوانے کو لے آئے تو میں نے تین روز صبح و شام سورۂ فاتحہ کا دم کیا، میں اپنی تھوک (منہ میں) جمع کر لیتا پھر اسے (اس مجنون پر) تھوک دیتا، راوی بیان کرتے ہیں، اس کی بیماری اور دیوانگی جاتی رہی تو انہوں نے مجھے اجرت دی تو میں نے کہا:: نہیں، (میں اسے نہیں لوں گا) حتی کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ لوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری عمر کی قسم! کھاؤ، کچھ ایسے ہیں جو جھوٹے دم کے ذریعے کھاتے ہیں، جبکہ تم نے اچھے دم سے کھایا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (210/5. 211 ح 22179. 22180) و أبو داود (3420)»
وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اعطوا الاجير اجره قبل ان يجف عرقه» . رواه ابن ماجه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أعْطوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مزدور کو اس کی اجرت، اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔ “ صحیح، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه ابن ماجه (2443)»
وعن الحسين بن علي رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «للسائل حق وإن جاء على فرس» . رواه احمد وابو داود وفي المصابيح: مرسل وَعَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «لِلسَّائِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلَى فَرَسٍ» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد وَفِي المصابيح: مُرْسل
حسین بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سائل کا حق ہے خواہ وہ گھوڑے پر آئے۔ “ احمد، ابوداؤد۔ اور مصابیح میں مرسل روایت ہے۔ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (201/1 ح 1730) و أبوداود (1665) [و ابن خزيمة: 2468] ٭ و للحديث شواھد وھو بھا حسن، انظر تلخيص نيل المقصود (ص 334 ح 1665)»