وعن عبد الله بن عدي بن حمراء رضي الله عنه قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا على الحزورة فقال: «والله إنك لخير ارض الله واحب الله إلى الله ولولا اني اخرجت منك ما خرجت» . رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ حَمْرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا عَلَى الْحَزْوَرَةِ فَقَالَ: «وَاللَّهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللَّهِ وَأَحَبُّ اللَّهِ إِلَى اللَّهِ وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خرجْتُ» . رَوَاهُ الترمذيُّ وَابْن مَاجَه
عبداللہ بن عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حزورہ کے مقام پر کھڑے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: ”اللہ کی قسم! تو اللہ کی زمین کا سب سے بہترین ٹکڑا اور اللہ کی ساری زمین سے اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔ “ صحیح، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (3925 و قال: حسن غريب صحيح) و ابن ماجه (3108) [و صححه ابن حبان (الإحسان: 3700) والحاکم (7/3) ووافقه الذهبي]»
عن ابي شريح العدوي انه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير احدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح سمعته اذناي ووعاه قلبي وابصرته عيناي حين تكلم به: حمد الله واثنى عليه ثم قال: إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر ان يسفك بها دما ولا يعضد بها شجرة فإن احد ترخص بقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها فقولوا له: إن الله قد اذن لرسوله ولم ياذن لرسوله ولم ياذن لكم وإنما اذن لي فيها ساعة نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس وليبلغ الشاهد الغائب. فقيل لابي شريح: ما قال لك عمرو؟ قال: قال: انا اعلم بذلك منك يا ابا شريح ان الحرم لا يعيذ عاصيا ولا فارا بدم ولا فارا بخربة. متفق عليه. وفي البخاري: الخربة: الجناية عَن أبي شُريَحٍ العَدوِيِّ أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الغدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ: حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لرَسُوله وَلم يَأْذَن لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ وَإِنَّمَا أُذِنَ لِي فِيهَا سَاعَة نَهَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبْلِغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ. فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالُ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ أَنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي الْبُخَارِيِّ: الْخَرْبَةُ: الْجِنَايَة
ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے، جب کہ وہ مکہ کی طرف لشکر روانہ کر رہا تھا، کہا: جناب امیر! اگر تم مجھے اجازت دو تو میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے روز بیان فرمائی تھی، جسے میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے اسے یاد کیا اور میری آنکھوں نے اسے دیکھا، جب آپ نے وہ حدیث بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”بے شک مکہ ایسی جگہ ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، اور اسے کوئی لوگوں نے حرام قرار نہیں دیا، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس میں خون ریزی کرے اور اس کے درخت کاٹے، ہاں اگر کوئی شخص اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتال کرنے سے قتال کی اجازت و رخصت لے تو اسے کہو: بے شک اللہ نے اپنے رسول کو اس کی اجازت دی تھی اور تمہیں اجازت نہیں دی اور مجھے بھی ایک دن کے کچھ حصے کے لیے اجازت دی گئی تھی اور اس کی حرمت آج بھی ویسے ہی ہے جیسے کل تھی، اور چاہیے کہ جو یہاں موجود ہے وہ غیر موجود تک یہ باتیں پہنچا دے۔ “ ابوشریح رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ عمرو نے تمہیں کیا جواب دیا؟ انہوں نے کہا: اس نے مجھے کہا: ابوشریح! میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں بے شک حرم کسی گناہ گار کو پناہ دیتا ہے نہ کسی مفرور قاتل کو اور نہ ہی کسی مفرور چور کو پناہ دیتا ہے۔ “ بخاری، مسلم۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ الخربۃ کا معنی الجنایہ (قصور) ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4295) و مسلم (1354/446)»
وعن عياش بن ابي ربيعة المخزومي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تزال هذه الامة بخير ما عظموا هذه الحرمة حق تعظيمها فإذا ضيعوا ذلك هلكوا» . رواه ابن ماجه وَعَن عيَّاشِ بنِ أبي ربيعةَ المَخْزُومِي قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزَالُ هَذِهِ الْأُمَّةُ بِخَيْرٍ مَا عَظَّمُوا هَذِهِ الْحُرْمَةَ حَقَّ تَعْظِيمِهَا فَإِذَا ضَيَّعُوا ذلكَ هلَكُوا» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
عیاش بن ابی ربیعہ المخزومی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اُمت خیر و بھلائی پر قائم رہے گی جب تک یہ اس حرمت (مکہ مکرمہ) کی اس کی تعظیم کے مطابق اس کی تعظیم کرتی رہے گی، جب وہ اس کو ضائع کریں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (3110) ٭ يزيد بن أبي زياد: ضعيف، ضعفه الجمھور.»
عن علي رضي الله عنه قال: ما كتبنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا القرآن وما في هذه الصحيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المدينة حرام ما بين عير إلى ثور فمن احدث فيها حدثا او آوى محدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل ذمة المسلمين واحدة يسعى بها ادناهم فمن اخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل ومن والى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل» وفي رواية لهما: «من ادعى إلى غير ابيه او تولى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل» عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: مَا كَتَبْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْقُرْآنَ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ فمنْ أحدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ ذمَّةُ المسلمينَ واحدةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ وَمَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عدل» وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا: «مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صرف وَلَا عدل»
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صرف قرآن اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے وہ لکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ عیر سے ثور تک حرم ہے، جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے تو اس پر اللہ تعالیٰ، تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کی نفل عبادت قبول ہو گی نہ فرض۔ مسلمانوں کی امان ایک ہی ہے، اور اس میں ادنی مسلمان کی امان کی بھی برابر حیثیت ہے، جو شخص کسی مسلمان کے عہد کو توڑے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا نفل قبول ہو گا نہ فرض، اور جو شخص اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر کسی قوم سے معاہدہ کر لے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اور اس کا نفل قبول ہو گا نہ فرض۔ “ اور صحیحین ہی کی روایت میں ہے: ”جو شخص اپنے آپ کو باپ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کر لے یا اپنے مالکوں کے علاوہ کسی اور سے معاہدہ کر لے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس سے نفل قبول ہو گا نہ فرض۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1870) و مسلم (467 /1370)»
وعن سعد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني احرم ما بين لابتي المدينة: ان يقطع عضاهها او يقتل صيدها وقال: «المدينة خير لهم لو كانوا يعلمون لا يدعها احد رغبة عنها إلا ابدل الله فيها من هو خير منه ولا يثبت احد على لاوائها وجهدها إلا كنت له شفيعا او شهيدا يوم القيامة» . رواه مسلم وَعَنْ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ: أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا وَقَالَ: «الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يعلَمونَ لَا يَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا أَو شَهِيدا يَوْم الْقِيَامَة» . رَوَاهُ مُسلم
سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں مدینہ کے دونوں پتھریلے مقاموں کے درمیانی حصے کو حرم قرار دیتا ہوں، اور اس علاقے کا درخت کاٹنا یا اس کا شکار قتل کرنا حرام ہے۔ “ اور فرمایا: ”مدینہ ان کے لیے بہتر ہے کاش کہ وہ جانتے، اگر کوئی شخص اس سے عدم رغبت کی وجہ سے اسے چھوڑ جائے گا تو اللہ اس میں اس کے بدلہ میں ایسے شخص کو آباد کرے گا، جو اس سے بہتر ہو گا، اور جو شخص اس کی بھوک اور تکلیف پر صبر کرے گا تو روز قیامت میں اس کی سفارش کروں گا یا میں اس کے حق میں گواہی دوں گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1363/459)»
وعن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يصبر على لاواء المدينة وشدتها احد من امتي إلا كنت له شفيعا يوم القيامة» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَصْبِرُ عَلَى لَأْوَاءِ الْمَدِينَةِ وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری اُمت میں سے جو شخص مدینہ کی بھوک اور اس کی تکلیف پر صبر کرے گا تو روز قیامت میں اس کی سفارش کروں گا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (484 / 1378)»
وعنه قال: كان الناس إذا راوا اول الثمرة جاءوا به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فإذا اخذه قال: «اللهم بارك لنا في ثمرنا وبارك لنا في مدينتنا وبارك لنا في صاعنا وبارك لنا في مدنا اللهم إن إبراهيم عبدك وخليلك ونبيك وإني عبدك ونبيك وإنه دعاك لمكة وانا ادعوك للمدينة بمثل ما دعاك لمكة ومثله معه» . ثم قال: يدعو اصغر وليد له فيعطيه ذلك الثمر. رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا أَوَّلَ الثَّمَرَةِ جَاءُوا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَخَذَهُ قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنِّي عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَأَنَا أدعوكَ للمدينةِ بمثلِ مَا دعَاكَ لمكةَ ومِثْلِهِ مَعَهُ» . ثُمَّ قَالَ: يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ لَهُ فيعطيهِ ذَلِك الثَّمر. رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب لوگ پہلا پہلا پھل دیکھتے تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے پکڑلیتے تو دعا فرماتے: ”اے اللہ! ہمارے لیے پھلوں میں برکت فرما، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینے میں برکت فرما، ہمارے صاع اور ہمارے مد (ناپ تول کے پیمانے) میں برکت فرما، اے اللہ! بے شک ابراہیم ؑ تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے، اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، بے شک انہوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا فرمائی اور میں تجھ سے اسی مثل مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں اور اس کی مثل اس کے ساتھ مزید دعا کرتا ہوں۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کسی سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ پھل اسے دے دیتے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1373/473)»
وعن ابي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن إبراهيم حرم مكة فجعلها حراما وإني حرمت المدينة حراما ما بين مازميها ان لا يهراق فيها دم ولا يحمل فيها سلاح لقتال ولا تخبط فيها شجرة إلا لعلف» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ فَجَعَلَهَا حَرَامًا وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ حَرَامًا مَا بَيْنَ مَأْزِمَيْهَا أَنْ لَا يُهْرَاقَ فِيهَا دَمٌ وَلَا يُحْمَلَ فِيهَا سلاحٌ لقتالٍ وَلَا تُخبَطَ فِيهَا شجرةٌ إِلَّا لعلف» . رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرام قرار دیا اور اس کی حرمت کو ثابت کیا، اور میں مدینہ کو، اس کے دو پہاڑوں کے درمیانی علاقے کو، حرام قرار دیتا ہوں کہ اس میں خون ریزی کی جائے نہ قتال کے لیے اس میں اسلحہ اٹھایا جائے اور نہ ہی چارے کے علاوہ اس کے درختوں کے پتے جھاڑے جائیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1374/475)»
وعن عامر بن سعد: ان سعدا ركب إلى قصره بالعقيق فوجد عبدا يقطع شجرا او يخبطه فسلبه فلما رجع سعد جاءه اهل العبد فكلموه ان يرد على غلامهم او عليهم ما اخذ من غلامهم فقال: معاذ الله ان ارد شيئا نفلنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي ان يرد عليهم. رواه مسلم وَعَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ سَعْدًا رَكِبَ إِلَى قَصْرِهِ بِالْعَقِيقِ فَوَجَدَ عَبْدًا يَقْطَعُ شَجَرًا أَوْ يَخْبِطُهُ فَسَلَبَهُ فَلَمَّا رَجَعَ سَعْدٌ جَاءَهُ أَهْلُ الْعَبْدِ فَكَلَّمُوهُ أَنْ يَرُدَّ عَلَى غُلَامِهِمْ أَوْ عَلَيْهِمْ مَا أَخَذَ مِنْ غُلَامِهِمْ فَقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا نَفَّلَنِيهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي أَنْ يرد عَلَيْهِم. رَوَاهُ مُسلم
عامر بن سعد ؒ سے روایت ہے کہ سعد (بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) موضع عقیق میں واقع اپنے محل کی طرف جا رہے تھے کہ انہوں نے کسی غلام کو درخت کاٹتے ہوئے یا اس کے پتے جھاڑتے ہوئے پایا تو انہوں نے اس کا کپڑا سلب کر لیا، جب سعد رضی اللہ عنہ واپس (مدینہ) آئے تو غلام کے مالک ان کے پاس آئے اور ان سے بات کی کہ انہوں نے غلام سے جو کچھ لیا ہے وہ اسے ان کے غلام کو یا ہمیں واپس لٹا دیں، اس پر انہوں (سعد رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اللہ کی پناہ کہ میں اس چیز کو واپس کر دوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بطور غنیمت عطا فرمائی ہے، اور انہوں نے انہیں وہ کپڑا واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1364/461)»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وعك ابو بكر وبلال فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته فقال: «اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة او اشد وصححها وبارك لنا في صاعها ومدها وانقل حماها فاجعلها بالجحفة» وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ وَبِلَالٌ فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ وَصَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِي صاعها ومدها وانقل حماها فاجعلها بِالْجُحْفَةِ»
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ بخار میں مبتلا ہو گئے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! جس طرح ہمیں مکہ محبوب ہے اس طرح یا اس سے بھی زیادہ مدینہ ہمیں محبوب بنا دے اور اسے صحت افزا بنا دے، اس کے صاع و مد میں ہمارے لیے برکت فرما دے اور اس کے بخار کو منتقل فرما اور اسے جحفہ بھیج دے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1889) و مسلم (1376/480)»