عن عمرو بن عبد الله بن صفوان عن خال له يقال له يزيد بن شيبان قال: كنا في موقف لنا بعرفة يباعده عمرو من موقف الإمام جدا فاتانا ابن مربع الانصاري فقال: إني رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم إليكم يقول لكم: «قفوا على مشاعركم فإنكم على إرث من إرث ابيكم إبراهيم عليه السلام» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي وابن ماجه عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ خَالٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ يَزِيدُ بْنُ شَيْبَانَ قَالَ: كُنَّا فِي مَوْقِفٍ لَنَا بِعَرَفَةَ يُبَاعِدُهُ عَمْرٌو مِنْ مَوْقِفِ الْإِمَامِ جِدًّا فَأَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ: إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْكُمْ يَقُولُ لَكُمْ: «قِفُوا عَلَى مَشَاعِرِكُمْ فَإِنَّكُمْ عَلَى إِرْثِ من إِرْثِ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ
عمرو بن عبداللہ بن صفوان اپنے ماموں یزید بن شیبان سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: ہم نے میدان عرفات میں ایسی جگہ وقوف کیا جو کہ بقول ان کے امام کے وقوف کی جگہ سے بہت دور تھا، ابن مربع انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تمہاری طرف قاصد بنا کر بھیجا ہے، وہ تمہیں فرماتے ہیں: ”تم اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو، کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم ؑ کی میراث پر ہو۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (883 وقال: حسن) و أبو داود (1919) و النسائي (255/5 ح 3017) و ابن ماجه (3011)»
وعن جابر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «كل عرفة موقف وكل منى منحر وكل المزدلفة موقف وكل فجاج مكة طريق ومنحر» . رواه ابو داود والدارمي وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيقٌ وَمَنْحَرٌ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میدان عرفات پورے کا پورا وقوف کی جگہ ہے، پورا منی قربان گاہ ہے، پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے، اور مکہ کے تمام راستے، راستے اور قربان گاہ ہیں۔ “(یعنی مکہ آنے والے کے لیے کسی بھی راستے سے مکہ میں داخل ہونا جائز ہے) اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1937) والدارمي (57/2 ح 1886)»
وعن خالد بن هوذة قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب الناس يوم عرفة على بعير قائما في الركابين. رواه ابو داود وَعَن خالدِ بنَ هَوْذَةَ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ عَرَفَةَ عَلَى بَعِيرٍ قَائِمًا فِي الركابين. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
خالد بن ہوذہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرفہ کے دن اونٹ کی دونوں رکابوں میں پاؤں رکھ کر کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1917)»
وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: خير الدعاء دعاء يوم عرفة وخير ما قلت انا والنبيون من قبلي: لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير. رواه الترمذي وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْء قدير. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عرفہ کے دن کی دعا بہترین دعا ہے اور میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء ؑ نے جو بہترین دعا کی ہے وہ یہ ہے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہت ہے اور اس کے لیے ہر قسم کی تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3585 وقال: حسن غريب) ٭ حماد بن أبي حميد ضعيف و للحديث شاھد ضعيف (انظر الحديث الآتي: 2599)»
وروى مالك عن طلحة بن عبيد الله إلى قوله: «لا شريك له» وروى مالكٌ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ: «لَا شريك لَهُ»
امام مالک ؒ نے طلحہ بن عبیداللہ سے ((لا شریک لہ)) تک روایت کیا ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه مالک (214/1. 215 ح 501، 422/1. 423 ح 974) من حديث طلحة بن عبيد الله بن کريز رحمه الله فالسند مرسل.»
لإرساله وعن طلحة بن عبيد الله بن كريز ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما رئي الشيطان يوما هو فيه اصغر ولا ادحر ولا احقر ولا اغيظ منه في يوم عرفة وما ذاك إلا لما يرى من تنزل الرحمة وتجاوز الله عن الذنوب العظام إلا ما رئي يوم بدر» . فقيل: ما رئي يوم بدر؟ قال: «فإنه قد راى جبريل يزع الملائكة» . رواه مالك مرسلا وفي شرح السنة بلفظ المصابيح لإرساله وَعَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ كَرِيزٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا رُئِيَ الشَّيْطَانُ يَوْمًا هُوَ فِيهِ أَصْغَرُ وَلَا أَدْحَرُ وَلَا أَحْقَرُ وَلَا أَغْيَظُ مِنْهُ فِي يَوْمِ عَرَفَةَ وَمَا ذَاكَ إِلَّا لِمَا يَرَى مِنْ تَنَزُّلِ الرَّحْمَةِ وَتَجَاوُزِ اللَّهِ عَنِ الذُّنُوبِ الْعِظَامِ إِلَّا مَا رُئِيَ يَوْمَ بَدْرٍ» . فَقِيلَ: مَا رُئِيَ يَوْمَ بَدْرٍ؟ قَالَ: «فَإِنَّهُ قَدْ رَأَى جِبْرِيلَ يَزَعُ الْمَلَائِكَةَ» . رَوَاهُ مَالِكٌ مُرْسَلًا وَفِي شَرْحِ السُّنَّةِ بِلَفْظِ الْمَصَابِيحِ
طلحہ بن عبیداللہ بن کریز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان عرفہ کے دن سب سے زیادہ حقیر، سب سے زیادہ راندہ ہوا، سب سے زیادہ ذلیل اور سب سے زیادہ غصے میں ہوتا ہے اور وہ ایسی حالت میں اس لیے ہوتا ہے کہ وہ نزولِ رحمت اور کبیرہ گناہوں کی مغفرت ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہے، البتہ غزوہ بدر کے موقع پر بھی اسے اس کیفیت میں دیکھا گیا۔ “ کہا گیا بدر کے دن اس نے کیا دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیونکہ اس نے جبریل ؑ کو فرشتوں کی صف بندی کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ “ امام مالک نے مرسل روایت کیا ہے، اور شرح السنہ میں مصابیح کے الفاظ میں مروی ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ مالک و شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه مالک (422/1 ح 973) و البغوي في شرح السنة (158/7 ح 1930) من حديث طلحة بن عبيد الله بن کريز رحمه الله فالسند مرسل.»
وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا كان يوم عرفة إن الله ينزل إلى السماء الدنيا فيباهي بهم الملائكة فيقول: انظروا إلى عبادي اتوني شعثا غبرا ضاجين من كل فج عميق اشهدكم اني قد غفرت لهم فيقول الملائكة: يا رب فلان كان يرهق وفلان وفلانة قال: يقول الله عز وجل: قد غفرت لهم. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فما من يوم اكثر عتيقا من النار من يوم عرفة» . رواه في شرح السنة وَعَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ إِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ فَيَقُولُ: انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي أَتَوْنِي شُعْثًا غُبْرًا ضَاجِّينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ فَيَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: يَا رَبِّ فُلَانٌ كَانَ يُرَهَّقُ وَفُلَانٌ وَفُلَانَةُ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَمَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ عَتِيقًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ» . رَوَاهُ فِي شرح السّنة
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب عرفہ کا دن ہوتا ہے تو اللہ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اِن (عرفات میں وقوف کرنے والوں) کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے: میرے بندوں کو دیکھو کس طرح بکھرے بالوں، غبار آلود پاؤں اور بلند آواز سے پکارتے ہوئے دور دراز سے آئے ہیں۔ میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا۔ تو فرشتے عرض کرتے ہیں، رب جی! فلاں بندہ تو برے کام کیا کرتا تھا، اور فلاں مرد اور فلاں عورت بھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: ”میں نے انہیں بخش دیا ہے۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عرفہ کے دن کے سوا کوئی ایسا دن نہیں جس میں عرفہ کے دن سے زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزادی ملتی ہو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (159/7 ح 1931) [و ابن خزيمة (2840 وقال: أنا أبرأ من عھدة مرزوق) و ابن حبان (1006)] ٭ أبو الزبير مدلس و عنعن و حديث مسلم (1348) يغني عنه.»
عن عائشة قالت: كان قريش ومن دان دينها يقفون بالمزدلفة وكانوا يسمون الحمس فكان سائر العرب يقفون بعرفة فلما جاء الإسلام امر الله تعالى نبيه صلى الله عليه وسلم ان ياتي عرفات فيقف بها ثم يفيض منها فذلك قوله عز وجل: (ثم افيضوا من حيث افاض الناس) عَن عَائِشَة قَالَتْ: كَانَ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بالمزْدَلفَةِ وَكَانُوا يُسمَّوْنَ الحُمْسَ فكانَ سَائِرَ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ فَيَقِفُ بِهَا ثُمَّ يَفِيضُ مِنْهَا فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: (ثُمَّ أفِيضُوا من حَيْثُ أَفَاضَ النَّاس)
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، قریش اور ان کے ہم دین لوگ مزدلفہ میں قیام کیا کرتے تھے، اور انہیں حمس کہا جاتا تھا، جبکہ باقی سب عرب عرفہ میں وقوف کیا کرتے تھے، جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا کہ وہ عرفات آئیں اور وہاں وقوف کریں اور پھر وہاں سے واپس آئیں۔ اسی طرح اللہ عزوجل کا فرمان ہے: ”پھر تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے عام لوگ لوٹتے ہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4520) و مسلم (1219/151)»
وعن عباس بن مرداس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا لامته عشية عرفة بالمغفرة فاجيب: «إني قد غفرت لهم ما خلا المظالم فإني آخذ للمظلوم منه» . قال: «اي رب إن شئت اعطيت المظلوم من الجنة وغفرت للظالم» فلم يجب عشيته فلما اصبح بالمزدلفة اعاد الدعاء فاجيب إلى ما سال. قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم او قال تبسم فقال له ابو بكر وعمر: بابي انت وامي إن هذه لساعة ما كنت تضحك فيها فما الذي اضحكك اضحك الله سنك؟ قال: «إن عدو الله إبليس لما علم ان الله عز وجل قد استجاب دعائي وغفر لامتي اخذ التراب فجعل يحشوه على راسه ويدعو بالويل والثبور فاضحكني ما رايت من جزعه» . رواه ابن ماجه وروى البيهقي في كتاب البعث والنشور نحوه وَعَن عبَّاسِ بنِ مِرْداسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لِأُمَّتِهِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ بِالْمَغْفِرَةِ فَأُجِيبَ: «إِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ مَا خَلَا الْمَظَالِمَ فَإِنِّي آخُذُ لِلْمَظْلُومِ مِنْهُ» . قَالَ: «أَيْ رَبِّ إِنْ شِئْتَ أَعْطَيْتَ الْمَظْلُومَ مِنَ الْجَنَّةِ وَغَفَرْتَ لِلظَّالِمِ» فَلَمْ يُجَبْ عَشِيَّتَهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ أَعَادَ الدُّعَاءَ فَأُجِيبَ إِلَى مَا سَأَلَ. قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوِ قَالَ تبسَّمَ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنَّ هَذِهِ لَسَاعَةٌ مَا كُنْتَ تَضْحَكُ فِيهَا فَمَا الَّذِي أَضْحَكَكَ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ؟ قَالَ: «إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِيسَ لَمَّا عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدِ اسْتَجَابَ دُعَائِي وَغَفَرَ لأمَّتي أخذَ الترابَ فَجعل يحشوه عَلَى رَأْسِهِ وَيَدْعُو بِالْوَيْلِ وَالثُّبُورِ فَأَضْحَكَنِي مَا رَأَيْتُ مِنْ جَزَعِهِ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَرَوَى البيهقيُّ فِي كتاب الْبَعْث والنشور نحوَه
عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقوفِ عرفات میں اپنی امت کی مغفرت کے لیے دعا فرمائی تو قبولیت کا جواب آیا کہ ”میں نے حقوق العباد کے سوا باقی سب گناہ معاف کر دیے، کیونکہ میں اس سے مظلوم کا حق لوں گا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا: ”رب جی! اگر آپ چاہیں تو مظلوم کو جنت عطا کر دیں اور ظالم کو بخش دیں۔ “ لیکن اس قیام میں آپ کی دعا قبول نہ ہوئی، تو جب مزدلفہ میں صبح کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا دہرائی تو آپ کی دعا قبول کر لی گئی۔ راوی بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنسے یا تبسم فرمایا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے والدین آپ پر قربان ہوں یہ تو ایسا وقت ہے کہ اس وقت آپ ہنسا نہیں کرتے تھے، آپ کو کس چیز نے ہنسایا، اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے دشمن ابلیس کو جب پتہ چلا کہ اللہ عزوجل نے میری دعا قبول فرما کر میری امت کو بخش دیا ہے تو وہ اپنے سر میں مٹی ڈالنے لگا اور تباہی و ہلاکت کو پکارنے لگا، جب میں نے اس کی بے صبری دیکھی تو مجھے ہنسی آ گئی۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ و البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (3013) و البيھقي في البعث والنشور (لم أجده، و في شعب الإيمان: 346) ٭ عبد الله بن کنانة و أبوه مجھولان و قال البخاري في ھذا الحديث: ’’لم يصح حديثه.‘‘»
عن هشام بن عروة عن ابيه قال: سئل اسامة بن زيد: كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في حجة الوداع حين دفع؟ قال: كان يسير العنق فإذا وجد فجوة نص عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حِينَ دَفَعَ؟ قَالَ: كَانَ يَسِيرُ الْعُنُق فَإِذا وجد فجوة نَص
ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر واپسی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح چلتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: آپ اوسط رفتار سے چلتے تھے اور جب کشادہ جگہ آ جاتی تو پھر تیز ہو جاتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1666) و مسلم (1286/283)»