وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من جلس مجلسا فكثر فيه لغطه فقال قبل ان يقوم: سبحانك اللهم وبحمدك اشهد ان لا إله إلا انت استغفرك واتوب إليك إلا غفر له ما كان في مجلسه ذلك. رواه الترمذي والبيهقي في الدعوات الكبير وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا فَكَثُرَ فِيهِ لَغَطُهُ فَقَالَ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا كَانَ فِي مَجْلِسِهِ ذَلِكَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالْبَيْهَقِيّ فِي الدَّعْوَات الْكَبِير
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اسکی بے مقصد اور بے ہودہ باتیں زیادہ ہو جائیں اور پھر وہ اٹھنے سے پہلے یہ دعا: ”اے اللہ! تو اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔ “ پڑھتا ہے تو اس کی اس مجلس میں ہونے والی خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3433 وقال: حسن صحيح) و البيھقي في الدعوات الکبير (لم أجده ورواه في شعب الإيمان:628)»
وعن علي: انه اتي بدابة ليركبها فلما وضع رجله في الركاب قال: بسم الله فلما استوى على ظهرها قال: الحمد لله ثم قال: (سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون) ثم قال: الحمد لله ثلاثا والله اكبر ثلاثا سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا انت ثم ضحك فقيل: من اي شيء ضحكت يا امير المؤمنين؟ قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع كما صنعت ثم ضحك فقلت: من اي شيء ضحكت يا رسول الله؟ قال: إن ربك ليعجب من عبده إذا قال: رب اغفر لي ذنوبي يقول: يعلم انه لا يغفر الذنوب غيري رواه احمد والترمذي وابو داود وَعَنْ عَلِيٍّ: أَنَّهُ أُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا فَلَمَّا وضَعَ رِجْلَه فِي الركابِ قَالَ: بسمِ اللَّهِ فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ قَالَ: (سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبنَا لمنُقلِبون) ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثًا وَاللَّهُ أَكْبَرُ ثَلَاثًا سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ثُمَّ ضَحِكَ فَقِيلَ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ كَمَا صَنَعْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِنَّ رَبَّكَ لَيَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي يَقُولُ: يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرِي رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی سواری کے لئے ایک جانور لایا گیا، جب انہوں نے رکاب میں پاؤں رکھا تو کہا: ”بسم اللہ۔ “ جب اس کی پشت پر براجمان ہو گئے تو کہا: ”الحمدللہ۔ “ پھر فرمایا: ”پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع کر دیا جبکہ ہم تو اس کی قدرت نہیں رکھتے تھے، اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ “ پھر انہوں نے تین مرتبہ ”الحمدللہ“ تین مرتبہ ”اللہ اکبر“ کہا، پھر کہا: ”پاک ہے تو، میں نے ہی اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخشتا۔ “ پھر وہ مسکرائے، ان سے پوچھا گیا، امیرالمومنین! آپ کس چیز سے مسکرائے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا جس طرح میں نے کیا، پھر آپ مسکرائے تو میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ کس چیز سے مسکرائے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا رب اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: ”میرے رب! میرے گناہ معاف کر دے۔ “ رب تعالیٰ فرماتا ہے: ”وہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی اور گناہ معاف نہیں کرتا۔ “ صحیح، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (97/1 ح 753) و الترمذي (3446 وقال: غريب) و أبو داود (2602)»
وعن ابن عمر قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا ودع رجلا اخذ بيده فلا يدعها حتى يكون الرجل هو يدع يد النبي صلى الله عليه وسلم ويقول: «استودع الله دينك وامانتك وآخر عملك» وفي رواية «خواتيم عملك» . رواه الترمذي وابو داود وابن ماجه وفي روايتهما لم يذكر: «وآخر عملك» وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَدَّعَ رَجُلًا أَخَذَ بِيَدِهِ فَلَا يَدَعُهَا حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ يَدَعُ يَدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَقُولُ: «أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَآخِرَ عَمَلِكَ» وَفِي رِوَايَة «خَوَاتِيم عَمَلِكَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَفِي روايتهما لم يذكر: «وَآخر عَمَلك»
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو الوداع کرتے تو آپ اس کا ہاتھ تھامے رکھتے حتیٰ کہ وہ آدمی خود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ چھوڑ دیتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا پڑھتے: ”میں تمہارے دین، تمہاری امانت اور تمہارے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ “ اور ایک روایت میں ہے: ”تیرے عملوں کے خاتمے کو۔ “ ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، اور ان دونوں (ابوداؤد، ابن ماجہ) کی روایت میں ((وَآخِرَ عَمَلِکَ)) کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (3443 وقال: حسن صحيح) و أبو داود (2600) و ابن ماجه (2866)»
وعن عبد الله الخطمي قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يستودع الجيش قال: «استودع الله دينكم وامانتكم وخواتيم اعمالكم» . رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْخَطْمِيِّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَسْتَوْدِعَ الْجَيْشَ قَالَ: «أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكُمْ وأمانتكم وخواتيم أَعمالكُم» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ خطمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر روانہ کرنے کا ارادہ فرماتے تو یوں دعا فرماتے: ”میں تمہارے دین، تمہاری امانتوں اور تمہارے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (2601)»
وعن انس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: يا رسول الله إني اريد سفرا فزودني فقال: «زودك الله التقوى» . قال: زدني قال: «وغفر ذنبك» قال: زدني بابي انت وامي قال: «ويسر لك الخير حيثما كنت» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ سَفَرًا فَزَوِّدْنِي فَقَالَ: «زَوَّدَكَ اللَّهُ التَّقْوَى» . قَالَ: زِدْنِي قَالَ: «وَغَفَرَ ذَنْبَكَ» قَالَ: زِدْنِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي قَالَ: «وَيَسَّرَ لكَ الْخَيْر حيثُما كُنْتَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں، آپ مجھے زاد راہ عطا فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تمہیں تقویٰ کا زاد راہ عطا فرمائے۔ “ اس نے عرض کیا: کچھ زیادہ فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارے گناہ بخش دے۔ “ اس نے عرض کیا، میرے والدین آپ پر قربان ہوں، زیادہ فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم جہاں بھی ہو اللہ تمہارے لئے خیرو بھلائی آسان فرما دے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3444)»
وعن ابي هريرة قال: إن رجلا قال: يا رسول الله إني اريد ان اسافر فاوصني قال: «عليك بتقوى الله والتكبير على كل شرف» . قال: فلما ولى الرجل قال: «اللهم اطو له البعد وهون عليه السفر» . رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُسَافِرَ فَأَوْصِنِي قَالَ: «عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالتَّكْبِيرِ عَلَى كل شرف» . قَالَ: فَلَمَّا وَلَّى الرَّجُلُ قَالَ: «اللَّهُمَّ اطْوِ لَهُ الْبعد وهون عَلَيْهِ السّفر» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں سفر کرنا چاہتا ہوں، لہذا آپ مجھے کوئی وصیت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے تقویٰ اور ہر اونچی جگہ پر اللہ اکبر پڑھنے کا التزام کرنا۔ “ جب وہ آدمی واپس چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اس کی دوری و مسافت کو لپیٹ (کر سمیٹ) دے اور سفر کو اس کے لئے آسان کر دے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3445 و قال: حسن)»
وعن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سافر فاقبل الليل قال: «يا ارض ربي وربك الله اعوذ بالله من شرك وشر ما فيك وشر ما خلق فيك وشر ما يدب عليك واعوذ بالله من اسد واسود ومن الحية والعقرب ومن شر ساكن البلد ومن والد وما ولد» . رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ فَأَقْبَلَ اللَّيْلُ قَالَ: «يَا أَرْضُ رَبِّي وَرَبُّكِ اللَّهُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكِ وَشَرِّ مَا فِيكِ وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِيكِ وَشَرِّ مَا يَدِبُّ عَلَيْكِ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ أَسَدٍ وَأَسْودَ وَمِنَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ وَمِنْ شَرِّ سَاكِنِ الْبَلَدِ وَمِنْ والدٍ وَمَا ولد» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں ہوتے اور رات ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”زمین! میرا اور تیرا رب اللہ ہے، میں تیرے شر سے، جو کچھ تجھ میں ہے اس کے شر سے، جو تجھ میں پیدا کیا گیا ہے اس کے شر سے اور جو چیز تیری سطح پر چل رہی ہے اس کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ میں شیر، کالے ناگ، سانپ و بچھو کے شر سے اور بستی کے باسیوں اور والد (شیطان) اور ذریت (اولاد شیطان) کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2603)»
وعن انس رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا غزا قال: «اللهم انت عضدي ونصيري بك احول وبك اصول وبك اقاتل» . رواه الترمذي وابو داود وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا قَالَ: «اللَّهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي وَنَصِيرِي بِكَ أَحُولُ وَبِكَ أَصُولُ وَبِكَ أُقَاتِلُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُد
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد کے لئے نکلتے تو یوں دعا فرماتے: ”اے اللہ! تو ہی میرا بازو ہے، تو ہی میرا مددگار ہے، میں تیری ہی توفیق سے دشمن کی چالوں کو رد کرتا ہوں، تیری ہی مدد سے (دشمن پر) حملہ کرتا ہوں اور تیری توفیق و نصرت سے قتال کرتا ہوں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3584 وقال: حسن غريب) و أبو داود (2632) ٭ قتادة مدلس و لم أجد تصريح سماعه.»
وعن ابي موسى: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا خاف قوما قال: «اللهم إنا نجعلك في نحورهم ونعوذ بك من شرورهم» . رواه احمد وابو داود وَعَنْ أَبِي مُوسَى: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَافَ قَوْمًا قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ من شرورهم» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی قوم سے اندیشہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں دعا فرماتے تھے: ”اے اللہ ہم ان کے مقابلے میں تجھے کرتے ہیں، اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (414/4 ح 19958) و أبو داود (1537) ٭ قتادة مدلس و لم أجد تصريح سماعه.»
وعن ام سلمة رضي الله عنها ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج من بيته قال: «بسم الله توكلت على الله اللهم إنا نعوذ بك من ان نزل او نضل او نظلم او نظلم او نجهل او يجهل علينا» . رواه احمد والترمذي والنسائي وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح وفي رواية ابي داود وابن ماجه قالت ام سلمة: ما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من بيتي قط إلا رفع طرفه إلى السماء فقال: «اللهم إني اعوذ بك ان اضل او اضل او اظلم او اظلم او اجهل او يجهل علي» وَعَنْ أُمُّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ أَوْ نَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي رِوَايَةِ أَبِي دَاوُدَ وَابْنِ مَاجَهْ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: مَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا رَفَعَ طَرْفَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أُضَلَّ أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ أَوْ أَجْهَلَ أَو يجهل عَليّ»
ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو دعا فرماتے: ”اللہ کے نام کے ساتھ، میں نے اللہ پر توکل کیا، اے اللہ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں کہ ہم (صراط مستقیم سے) پھسل جائیں یا گمراہ ہو جائیں، یا ہم ظلم کریں یا ہم پر ظلم کیا جائے، یا ہم کسی سے جہالت سے پیش آئیں یا ہمارے ساتھ جہالت سے پیش آیا جائے۔ “ احمد، ترمذی، نسائی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ کی روایت میں ہے، ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی میرے گھر سے تشریف لے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دعا فرماتے: ”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں گمراہ ہو جاؤں یا گمراہ کر دیا جاؤں، یا میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے، یا میں جہالت سے پیش آؤں یا مجھ سے جہالت سے پیش آیا جائے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی و النسائی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (306/6 ح 27151) والترمذي (3427) والنسائي (في عمل اليوم والليلة:89 والسنن الکبري:9917) و أبو داود (5094) و ابن ماجه (2884) ٭ عامر الشعبي لم يسمع من أم سلمة عند ابن المديني و قوله ھو الراجح.»