وعن بلال بن يسار بن زيد مولى النبي صلى الله عليه وسلم قال: حدثني ابي عن جدي انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من قال: استغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم واتوب إليه غفر له وإن كان قد فر من الزحف. رواه الترمذي وابو داود لكنه عند ابي داود هلال بن يسار وقال الترمذي: هذا حديث غريب وَعَن بِلَال بن يسَار بن زيدٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ غُفِرَ لَهُ وَإِنْ كَانَ قَدْ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ لَكِنَّهُ عِنْدَ أَبِي دَاوُدَ هِلَالُ بْنُ يَسَارٍ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيب
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام زید رضی اللہ عنہ کے پوتے بلال بن یسار بیان کرتے ہیں، میرے والد (یسار رضی اللہ عنہ) نے میرے دادا (زید رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: کو فرماتے ہوئے سنا!”جو شخص یہ دعا پڑھے: ((استغفر اللہ ...... واتوب الیہ))”میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے، اور میں اس کے حضور توبہ کرتا ہوں“ تو اسے بخش دیا جاتا ہے خواہ وہ میدان جہاد سے فرار ہوا ہو۔ “ ترمذی، ابوداؤد۔ لیکن ابوداؤد کی روایت میں ہلال بن یسار ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3577) و أبو داود (1517)»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله عز وجل ليرفع الدرجة للعبد الصالح في الجنة فيقول: يا رب انى لي هذه؟ فيقول: باستغفار ولدك لك. رواه احمد عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَرْفَعُ الدَّرَجَةَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَنَّى لِي هَذِهِ؟ فَيَقُولُ: باستغفار ولدك لَك. رَوَاهُ أَحْمد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل صالح بندے کا جنت میں درجہ بلند فرماتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے: رب جی! یہ مجھے کیسے حاصل ہوا؟ تو وہ فرماتا ہے: تیرے بچے (بیٹا، بیٹی) کے تیرے لئے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (509/2 ح 10618) [و ابن ماجه: 3660]»
وعن عبد الله بن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما الميت في القبر إلا كالغريق المتغوث ينتظر دعوة تلحقه من اب او ام او اخ او صديق فإذا لحقته كان احب إليه من الدنيا وما فيها وإن الله تعالى ليدخل على اهل القبور من دعاء اهل الارض امثال الجبال وإن هدية الاحياء إلى الاموات الاستغفار لهم» . رواه البيهقي في شعب الإيمان وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعب الْإِيمَان
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میت قبر میں، ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہے، وہ باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچنے والی دعا کی منتظر رہتی ہے، جب وہ اسے پہنچ جاتی ہے تو وہ اس کے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتی ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ (دنیا) والوں کی دعاؤں سے اہل قبور پر پہاڑوں جتنی رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور زندوں کا مردوں کے لئے تحفہ ان کے لئے مغفرت طلب کرنا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا منکر، رواہ البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا منکر، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7905، نسخة محققة: 7526) ٭ فيه محمد بن جابر بن أبي عياش المصيصي، قال الذهبي: ’’لا أعرفه و خبره منکر جدًا‘‘ (ميزان الاعتدال 396/3) والفضل بن محمد بن عبد الله بن الحارث بن سليمان الانطاکي مجروح متھم.»
وعن عبد الله بن يسر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طوبى لمن وجد في صحيفته استغفارا كثيرا» . رواه ابن ماجه وروى النسائي في «عمل يوم وليلة» وَعَن عبد الله بن يسر قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَرَوَى النَّسَائِيُّ فِي «عملِ يَوْم وَلَيْلَة»
عبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کے لئے خوشخبری ہو جو اپنے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار پائے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه ابن ماجه (2818) والنسائي في عمل اليوم والليلة (455 و الکبري: 10289)»
وعن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول: «اللهم اجعلني من الذين إذا احسنوا استبشروا وإذا اساؤوا استغفروا» . رواه ابن ماجه والبيهقي في الدعوات الكبير وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ إِذا أحْسَنوا استبشَروا وإِذا أساؤوا اسْتَغْفَرُوا» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعَوَاتِ الْكَبِير
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا کرتے تھے: ”اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں شامل فرما کہ جب وہ نیکی کرتے ہیں تو خوش ہو جاتے ہیں اور جب کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں۔ “ حسن، رواہ ابن ماجہ و البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه ابن ماجه (3802 و سنده ضعيف فيه علي بن زيد بن جدعان: ضعيف) و البيھقي في الدعوات الکبير (لم أجده و شعب الإيمان: 6992) ٭ و له طريق آخر عند البيھقي في شعب الإيمان (6996) وسنده حسن، فيه الحسن بن المثني، قال الذهبي: ’’من نبلاء الثقات‘‘ (سير أعلام النبلاء 526/13)»
وعن الحارث بن سويد قال: حدثنا عبد الله بن مسعود حديثين: احدهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم والآخر عن نفسه قال: إن المؤمن يرى ذنوبه كانه قاعد تحت جبل يخاف ان يقع عليه وإن الفاجر يرى ذنوبه كذباب مر على انفه فقال به هكذا اي بيده فذبه عنه ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لله افرح بتوبة عبده المؤمن من رجل نزل في ارض دوية مهلكة معه راحلته عليها طعامه وشرابه فوضع راسه فنام نومة فاستيقظ وقد ذهبت راحلته فطلبها حتى إذا اشتد عليه الحر والعطش او ما شاء الله قال: ارجع إلى مكاني الذي كنت فيه فانام حتى اموت فوضع راسه على ساعده ليموت فاستيقظ فإذا راحلته عنده عليها زاده وشرابه فالله اشد فرحا بتوبة العبد المؤمن من هذا براحلته وزاده. روى مسلم المرفوع إلى رسول صلى الله عليه وسلم منه فحسب وروى البخاري الموقوف على ابن مسعود ايضا وَعَن الْحَارِث بن سُويَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ حَدِيثَيْنِ: أحدُهما عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْآخِرُ عَنْ نَفْسِهِ قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ فَقَالَ بِهِ هَكَذَا أَيْ بِيَدِهِ فَذَبَّهُ عَنْهُ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ مِنْ رَجُلٍ نَزَلَ فِي أَرْضٍ دَوِيَّةٍ مَهْلَكَةٍ مَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَوَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ نَوْمَةً فَاسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ رَاحِلَتُهُ فَطَلَبَهَا حَتَّى إِذَا اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْحَرُّ وَالْعَطَشُ أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ قَالَ: أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِي الَّذِي كُنْتُ فِيهِ فَأَنَامُ حَتَّى أَمُوتَ فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى سَاعِدِهِ لِيَمُوتَ فَاسْتَيْقَظَ فَإِذَا رَاحِلَتُهُ عِنْدَهُ عَلَيْهَا زَادُهُ وَشَرَابُهُ فَاللَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ هَذَا بِرَاحِلَتِهِ وَزَادِهِ. رَوَى مُسْلِمٌ الْمَرْفُوع إِلَى رَسُول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ فَحَسْبُ وَرَوَى البُخَارِيّ الموقوفَ على ابنِ مَسْعُود أَيْضا
حارث بن سُوید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں۔ ان میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے (مرفوع) اور دوسری اپنی طرف سے (موقوف)، فرمایا: ”مومن اپنے گناہوں کو یوں سمجھتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور وہ ڈرتا ہے کہ وہ اس پر گر پڑے گا، جبکہ فاجر شخص اپنے گناہوں کو یوں سمجھتا ہے جیسے مکھی اس کی ناک پر بیٹھ گئی ہو، پھر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے آپ سے مکھی اڑا کر دکھائی، پھر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے، جو کسی مہلک بیاباں میں پڑاؤ ڈالے، اس کے ساتھ اس کی سواری ہو جس پر اس کا کھانا پینا ہو، اس نے اپنا سر رکھا اور سو گیا، جب وہ بیدار ہوا تو اس کی سواری کہیں جا چکی تھی، اس نے اسے تلاش کیا حتیٰ کہ جب گرمی، پیاس یا جو اللہ نے چاہا اس پر شدید ہو گئی تو اس نے کہا: میں اپنی اسی پہلی جگہ پر واپس جاتا ہوں اور سو جاتا ہوں حتیٰ کہ میں فوت ہو جاؤں، اس نے اپنے بازو پر اپنا سر رکھا تاکہ وہ فوت ہو جائے، وہ بیدار ہوا تو اس کی سواری اس کے پاس کھڑی تھی اور اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اس پر موجود تھا، اللہ مومن بندے کی توبہ سے اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اپنی سواری اور اپنا زاد راہ ملنے پر خوشی ہوتی ہے۔ “ امام مسلم نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فقط مرفوع روایت کیا ہے، جبکہ امام بخاری نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسے موقوف بھی روایت کیا ہے۔ رواہ مسلم و البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2744/3) والبخاري (6308)»
وعن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله يحب العبد المؤمن المفتن التواب» وَعَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ المؤمنَ المفتَّنَ التوَّابَ»
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ گناہ میں مبتلا بہت زیادہ توبہ کرنے والے مومن بندے کو پسند کرتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا موضوع۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا موضوع، رواه [عبد الله بن] أحمد (80/1 ح 605) [و عنه أبو نعيم في حلية الأولياء (178/3. 179)] ٭ فيه عبد الملک بن سفيان الثقفي: مجھول (تعجيل المنفعة ص 265) و أبو عمرو البجلي: لا يحل الإحتجاج به [أيضًا ص508] يروي الموضوعات عن الثقات، قاله ابن حبان و فيه علل أخري منھا أبو عبد الله مسلمة الرازي: لم أجد له ترجمة.»
وعن ثوبان قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما احب ان لي الدنيا بهذه الآية (يا عبادي الذين اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا) الآية» فقال رجل: فمن اشرك؟ فسكت النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال: «الا ومن اشرك» ثلاث مرات وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي الدُّنْيَا بِهَذِهِ الْآيَةِ (يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرفُوا على أنْفُسِهم لَا تَقْنَطوا) الْآيَةَ» فَقَالَ رَجُلٌ: فَمَنْ أَشْرَكَ؟ فَسَكَتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «أَلا وَمن أشرَكَ» ثَلَاث مرَّاتٍ
ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اس آیت ”میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا“ کے بدلے پوری دنیا کا مل جانا بھی مجھے پسند نہیں۔ “ کسی آدمی نے عرض کیا، تو جس نے شرک کیا ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے، پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ”سن لو! جس نے شرک کیا ہو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (275/5 ح 22720) ٭ فيه أبو عبد الرحمٰن الجبلاني (صحح): لم أجد من وثقه، ترجمته في تعجيل المنفعة (ص 499) وغيره و ابن لھيعة ضعيف لاختلاطه و في السند ألوان أخري.»
وعن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله تعالى ليغفر لعبده ما لم يقع الحجاب» . قالوا: يا رسول الله وما الحجاب؟ قال: «ان تموت النفس وهي مشركة» روى الاحاديث الثلاثة احمد وروى البيهقي الاخير في كتاب البعث والنشور وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيَغْفِرُ لِعَبْدِهِ مَا لَمْ يَقَعِ الْحِجَابُ» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْحِجَابُ؟ قَالَ: «أَنْ تَمُوتَ النَّفْسُ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ» رَوَى الْأَحَادِيثَ الثَّلَاثَةَ أَحْمَدُ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ الْأَخِيرَ فِي كِتَابِ الْبَعْثُ والنشور
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ حجاب واقع ہونے سے پہلے تک اپنے بندے کو بخشتا رہتا ہے۔ “ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حجاب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی جان حالت شرک میں فوت ہو۔ “ تینوں احادیث امام احمد نے روایت کیں اور امام بیہقی نے آخری حدیث ”کتاب البعث والنشور“ میں روایت کی ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (174/5 ح 21855، 21856) [و صححه ابن حبان (2450) والحاکم (257/4) ووافقه الذهبي] ٭ فيه عمر بن نعيم و أسامة بن سلمان: و حديثھما لا ينزل عن درجة الحسن، و ثقھما ابن حبان والحاکم وغيرھما.»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من لقي الله لا يعدل به شيئا في الدنيا ثم كان عليه مثل جبال ذنوب غفر الله له» . رواه البيهقي في كتاب البعث والنشور وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يَعْدِلُ بِهِ شَيْئًا فِي الدُّنْيَا ثُمَّ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلَ جِبَالٍ ذُنُوبٌ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي كتاب الْبَعْث والنشور
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس حال میں اللہ کے ساتھ ملاقات کرے کہ وہ دنیا میں کسی کو اللہ کے برابر قرار نہ دیتا ہو، پھر اس پر پہاڑوں جتنے بھی گناہ ہوں تو اللہ اس کو معاف فرما دے گا۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه البيھقي في البعث و النشور (ص 43 ح 33) ٭ رجاله ثقات والسند متصل و ھو غريب: لم أجده إلا في البعث والنشور و لأصل الحديث شواھد.»