وعن عبد الله بن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما الميت في القبر إلا كالغريق المتغوث ينتظر دعوة تلحقه من اب او ام او اخ او صديق فإذا لحقته كان احب إليه من الدنيا وما فيها وإن الله تعالى ليدخل على اهل القبور من دعاء اهل الارض امثال الجبال وإن هدية الاحياء إلى الاموات الاستغفار لهم» . رواه البيهقي في شعب الإيمان وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعب الْإِيمَان
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میت قبر میں، ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہے، وہ باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچنے والی دعا کی منتظر رہتی ہے، جب وہ اسے پہنچ جاتی ہے تو وہ اس کے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتی ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ (دنیا) والوں کی دعاؤں سے اہل قبور پر پہاڑوں جتنی رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور زندوں کا مردوں کے لئے تحفہ ان کے لئے مغفرت طلب کرنا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا منکر، رواہ البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا منکر، رواه البيھقي في شعب الإيمان (7905، نسخة محققة: 7526) ٭ فيه محمد بن جابر بن أبي عياش المصيصي، قال الذهبي: ’’لا أعرفه و خبره منکر جدًا‘‘ (ميزان الاعتدال 396/3) والفضل بن محمد بن عبد الله بن الحارث بن سليمان الانطاکي مجروح متھم.»