وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله يقبل توبة العبد ما لم يغرغر» . رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْن مَاجَه
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک بندے کی روح حلقوم تک نہ پہنچے، اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ “ حسن، رواہ الترمذی (۳۵۳۷) و ابن ماجہ (۴۲۵۳) و صححہ ابن حبان (۲۴۴۹) و الحاکم (۴ / ۲۵۷)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3537 وقال: حسن غريب) و ابن ماجه (4253) [و صححه ابن حبان (2449) والحاکم (257/4) ووافقه الذهبي]»
وعن ابي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الشيطان قال: وعزتك يا رب لا ابرح اغوي عبادك ما دامت ارواحهم في اجسادهم فقال الرب عز وجل: وعزتي وجلالي وارتفاع مكاني لا ازال اغفر لهم ما استغفروني رواه احمد وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ: وَعِزَّتِكَ يَا رَبِّ لَا أَبْرَحُ أُغْوِي عِبَادَكَ مَا دَامَتْ أَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ فَقَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَارْتِفَاعِ مَكَانِي لَا أَزَالُ أَغْفِرُ لَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُونِي رَوَاهُ أَحْمَدُ
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان نے کہا: رب! تیری عزت کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسم میں ہیں میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا، تو رب عزوجل نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال اور اپنی بلند مکانی کی قسم! جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد (۳ / ۲۹ ح ۱۱۲۵۷، ۴۱ ح ۱۱۳۸۷) و فی شرح السنہ (۵ / ۷۶، ۷۷ ح ۱۲۹۳) و الحاکم (۴ / ۲۶۱ ح ۷۶۷۲)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (29/3 ح 11257، 41ح 11387) [والبغوي في شرح السنة 76/5. 77ح 1293) واللفظ له] ٭ ابن لھيعة مدلس و لم يصرح بالسماع فيما حدث قبل اختلاطه فالسند ضعيف و للحديث شاھد حسن عند الحاکم (261/4ح7672) دون قوله: ’’و ارتفاع مقامي‘‘ و سنده حسن.و أخرج أحمد (19/3، 41) من حديث عمرو بن أبي عمرو عن أبي سعيد به وھو منقطع فيما أري.»
وعن صفوان بن عسال رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله تعالى جعل بالمغرب بابا عرضه مسيرة سبعين عاما للتوبة لا يغلق ما لم تطلع عليه الشمس من قبله وذلك قول الله عز وجل: (يوم ياتي بعض آيات ربك لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل) رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا عَرْضُهُ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا لِلتَّوْبَةِ لَا يُغْلَقُ مَا لم تطلع عَلَيْهِ الشَّمْسُ مِنْ قِبَلِهِ وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: (يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قبل) رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مغرب کی طرف توبہ کے لئے ایک دروازہ بنایا جس کا عرض ستر سال کی مسافت کے برابر ہے، اور جب تک سورج اس کی طرف سے طلوع نہیں ہوتا وہ (باب التوبہ) کھلا ہوا ہے، اور یہی وہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: ”جس روز تیرے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں گی تو کسی نفس کا اس وقت ایمان لانا فائدہ مند نہیں ہو گا جو پہلے ایمان نہیں لایا تھا۔ “ حسن، رواہ الترمذی (۳۵۳۶) و ابن ماجہ (۴۰۷۰)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3536 وقال: حسن صحيح) و ابن ماجه (4070)»
وعن معاوية قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تنقطع الهجرة حتى ينقطع التوبة ولا تنقطع التوبة حتى تطلع الشمس من مغربها» . رواه احمد وابو داود والدارمي وَعَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ حَتَّى يَنْقَطِع التَّوْبَةُ وَلَا تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ
معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہجرت منقطع نہیں ہو گی حتیٰ کہ توبہ منقطع ہو جائے اور توبہ منقطع نہیں ہو گی حتیٰ کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔ “ صحیح، رواہ احمد (۴ / ۹۹ ح ۱۷۰۳۰) و ابوداؤد (۳۴۷۹) و الدارمی (۲ / ۲۴۰ ح ۲۵۱۶)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (99/4 ح 17030) و أبو داود (3479) والدارمي (240/2 ح 2516)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن رجلين كانا في بني إسرائيل متحابين احدهما مجتهد للعبادة والآخر يقول: مذنب فجعل يقول: اقصر عما انت فيه فيقول خلني وربي حتى وجده يوما على ذنب استعظمه فقال: اقصر فقال: خلني وربي ابعثت علي رقيبا؟ فقال: والله لا يغفر الله لك ابدا ولا يدخلك الجنة فبعث الله إليهما ملكا فقبض ارواحهما فاجتمعا عنده فقال للمذنب: ادخل الجنة برحمتي وقال للآخر: اتستطيع ان تحظر على عبدي رحمتي؟ فقال: لا يا رب قال: اذهبوا به إلى النار. رواه احمد وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَجُلَيْنِ كَانَا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ مُتَحَابَّيْنِ أَحدهمَا مُجْتَهد لِلْعِبَادَةِ وَالْآخَرُ يَقُولُ: مُذْنِبٌ فَجَعَلَ يَقُولُ: أَقْصِرْ عَمَّا أَنْتَ فِيهِ فَيَقُولُ خَلِّنِي وَرَبِّي حَتَّى وَجَدَهُ يَوْمًا عَلَى ذَنْبٍ اسْتَعْظَمَهُ فَقَالَ: أَقْصِرْ فَقَالَ: خَلِّنِي وَرَبِّيَ أَبُعِثْتَ عَلَيَّ رَقِيبًا؟ فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ أَبَدًا وَلَا يُدْخِلُكَ الْجَنَّةَ فَبَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهِمَا مَلَكًا فَقَبَضَ أَرْوَاحَهُمَا فَاجْتَمَعَا عِنْدَهُ فَقَالَ لِلْمُذْنِبِ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي وَقَالَ لِلْآخَرِ: أَتَسْتَطِيعُ أَنْ تَحْظِرَ عَلَى عَبْدِي رَحْمَتِي؟ فَقَالَ: لَا يَا رَبِّ قَالَ: اذْهَبُوا بِهِ إِلَى النَّار. رَوَاهُ أَحْمد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کے دو آدمی ایک دوسرے کے دوست تھے، ان میں سے ایک انتہائی عبادت گزار تھا جبکہ دوسرا کہتا تھا: میں گناہ گار ہوں، یہ اسے کہتا: اپنی روش سے باز آ جاؤ، تو وہ کہتا: میرا معاملہ میرے رب پر چھوڑ دو، حتیٰ کہ اس نے ایک روز اسے گناہ کرتے ہوئے پایا تو اس نے اسے بہت برا سمجھتے ہوئے کہا: باز آ جاؤ، اس نے کہا: مجھے میرے رب پر چھوڑ دو، کیا تم مجھ پر نگران بنا کر بھیجے گئے ہو؟ تو اس (عبادت گزار) نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ تمہیں کبھی معاف کرے گا نہ کبھی تمہیں جنت میں داخل کرے گا، پس اللہ نے ان دونوں کی طرف فرشتہ بھیجا تو اس نے ان دونوں کی روحیں قبض کر لیں، اور وہ دونوں اس کے پاس اکٹھے ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے گناہ گار شخص سے فرمایا: میری رحمت کے ساتھ جنت میں داخل ہو جا، اور دوسرے سے فرمایا: کیا تم طاقت رکھتے ہو کہ تم میری رحمت کو میرے بندے سے روک دو؟ وہ عرض کرتا ہے، نہیں، میرے رب! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اسے جہنم میں لے جاؤ۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد (۲ / ۳۲۳ ح ۸۲۷۵، ۲ / ۳۶۲ ح ۸۷۳۴) و ابوداؤد (۴۹۰۱) و تفسیر ابن کثیر (۲ / ۲۶۵)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (323/2 ح 8275، 362/2 ح 8734) [و أبو داود (4901)] ٭ انظر نيل المقصود (مخطوط 1033/3) و تفسير ابن کثير (265/2)»
وعن اسماء بنت يزيد قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا: (يا عبادي الذي اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعا) ولا يبالي رواه احمد والترمذي وقال هذا حديث حسن غريب وفي شرح السنة يقول: بدل: يقرا وَعَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يقْرَأ: (يَا عبَادي الَّذِي أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا) وَلَا يُبَالِي رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِي شَرْحِ السُّنَّةِ يَقُولُ: بَدَلَ: يقْرَأ
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: ”میرے وہ بندے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کیونکہ اللہ تمام گناہ معاف کر دیتا ہے۔ “ اور وہ پرواہ نہیں کرتا۔ “ احمد، ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے، اور شرح السنہ میں یقرا کے بدلے یقول کے الفاظ ہیں۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد (۶ / ۴۵۹ ح ۲۸۱۴۸) و الترمذی (۳۲۳۷) و فی شرح السنہ (۱۴ / ۳۸۴ ح ۴۱۸۶)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (459/6 ح 28148) والترمذي (3237) و البغوي في شرح السنة (384/14 ح 4186)»
وعن ابن عباس: في قوله تعالى: (إلا اللمم) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن تغفر اللهم تغفر جما واي عبد لك لا الما رواه الترمذي. وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب وَعَن ابْن عَبَّاس: فِي قَوْله تَعَالَى: (إِلَّا اللمم) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ تَغْفِرِ اللَّهُمَّ تَغْفِرْ جَمَّا وَأَيُّ عَبْدٍ لَكَ لَا أَلَمَّا رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيب
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کا فرمان: (اِلَّا اللَّمَمَ) کے بارے میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اگر تو معاف کر دے تو سبھی گناہ معاف کر دے، اور تیرا کون سا بندہ ہے جو صغیرہ گناہ نہیں کرتا۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی (۳۲۸۴) و صححہ الحاکم (۲ / ۴۶۹، ۴۷۰)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3284) [و صححه الحاکم (469/2. 470) علي شرط الشيخين ووافقه الذهبي]»
وعن ابي ذر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقول الله تعالى يا عبادي كلكم ضال إلا من هديت فاسالوني الهدى اهدكم وكلكم فقراء إلا من اغنيت فاسالوني ارزقكم وكلكم مذنب إلا من عافيت فمن علم منكم اني ذو قدرة على المغفرة فاستغفرني غفرت له ولا ابالي ولو ان اولكم وآخركم وحيكم وميتكم ورطبكم ويابسكم اجتمعوا على اتقى قلب عبد من عبادي ما زاد في ملكي جناح بعوضةولو ان اولكم وآخركم وحيكم وميتكم ورطبكم ويابسكم اجتمعوا على اشقى قلب عبد من عبادي ما نقص ذلك من ملكي جناح بعوضة. ولو ان اولكم وآخركم وحيكم وميتكم ورطبكم ويابسكم اجتمعوا في صعيد واحد فسال كل إنسان منكم ما بلغت امنيته فاعطيت كل سائل منكم ما نقص ذلك من ملكي إلا كما لو ان احدكم مر بالبحر فغمس فيه إبرة ثم رفعها ذلك باني جواد ماجد افعل ما اريد عطائي كلام وعذابي كلام إنما امري لشيء إذا اردت ان اقول له (كن فيكون) رواه احمد والترمذي وابن ماجه وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُ فَاسْأَلُونِي الْهُدَى أَهْدِكُمْ وَكُلُّكُمْ فُقَرَاءُ إِلَّا مَنْ أَغْنَيْتُ فَاسْأَلُونِي أُرْزَقْكُمْ وَكُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَيْتُ فَمَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ أَنِّي ذُو قُدْرَةٍ عَلَى الْمَغْفِرَةِ فَاسْتَغْفَرَنِي غَفَرْتُ لَهُ وَلَا أُبَالِي وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عبَادي مَا زَاد فِي ملكي جنَاح بعوضةولو أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا عَلَى أَشْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ. وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْكُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَّتُهُ فَأَعْطَيْتُ كُلَّ سَائِلٍ مِنْكُمْ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي إِلَّا كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِالْبَحْرِ فَغَمَسَ فِيهِ إِبْرَةً ثُمَّ رَفَعَهَا ذَلِكَ بِأَنِّي جَوَادٌ مَاجِدٌ أَفْعَلُ مَا أُرِيدُ عَطَائِي كَلَامٌ وَعَذَابِي كَلَامٌ إِنَّمَا أَمْرِي لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ لَهُ (كُنْ فَيَكُونُ) رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندو! تم سب گمراہ ہو مگر جسے میں ہدایت عطا فرما دوں، تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، تم سب فقرا ہو مگر جسے میں غنی کر دوں، تم مجھ سے اپنا رزق طلب کرو، اور تم سب گناہ گار ہو مگر جسے میں بچا لوں، تم میں سے جسے علم ہو کہ میں مغفرت کرنے پر قادر ہوں اور وہ مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور میں پرواہ نہیں کرتا، اور اگر تمہارا اول و آخر، تمہارے زندہ اور مردہ، تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے، سارے میرے بندوں میں سے اس شخص جیسے ہو جائیں جو سب سے زیادہ متقی ہے تو اس سے میری بادشاہت میں مچھر کے پر جتنا بھی اضافہ نہیں ہو گا، اور اگر تمہارا اول و آخر، تمہارے زندہ و مردہ اور تمہارے جوان و بوڑھے سب، میرے بندوں میں سے اس شخص جیسے ہو جائیں جو کہ سب سے زیادہ بدنصیب و گمراہ ہے تو اس سے میری بادشاہت میں مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں آئے گی، اور اگر تمہارا اول و آخر، تمہارے زندہ و مردہ اور تمہارے جوان و بوڑھے سب ایک میدان میں اکٹھے ہو جائیں، پھر تم میں سے ہر انسان جی بھر کر مانگ لے اور میں تم میں سے ہر سائل کو دے دوں تو اس سے میری بادشاہت میں اتنا ہی فرق آئے گا جیسے تم میں سے کوئی سمندر کے پاس سے گزرے اور وہ اس میں ایک سوئی ڈبو کر باہر نکال لے، اس لئے کہ میں سخی داتا ہوں، جو چاہتا ہوں کر گزرتا ہوں، میرا عطا کرنا کلام ہے اور میرا عذاب کرنا بھی کلام ہے، کسی چیز کے بارے میں میرا امر تو بس اتنا ہی ہے کہ جب میں ارادہ کرتا ہوں تو میں اس کے بارے میں یہی کہتا ہوں کہ، ہو جا، تو وہ ہو جاتا ہے۔ “ حسن، رواہ احمد (۵ / ۱۵۴ ح ۲۱۶۹۵) و الترمذی (۲۴۹۵) و ابن ماجہ (۴۲۵۷)۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (154/5ح 21695) والترمذي (2495 وقال: حسن) و ابن ماجه (4257)»
وعن انس عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قرا (هو اهل التقوى واهل المغفرة) قال: قال ربكم انا اهل ان اتقى فمن اتقاني فانا اهل ان اغفر له. رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي وَعَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ (هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَة) قَالَ: قَالَ رَبُّكُمْ أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَى فَمَنِ اتَّقَانِي فَأَنَا أَهْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه والدارمي
انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے یہ آیت پڑھی: ”وہ (اللہ تعالیٰ) اہل تقوی اور اہل مغفرت ہے۔ “ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا رب فرماتا ہے: میں اس لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، جو شخص مجھ سے ڈرتا ہے تو پھر میں اس کا اہل ہوں کہ میں اسے بخش دوں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3328 وقال: حسن غريب) و ابن ماجه (4299) والدارمي (303/2 ح 2727) ٭ سھيل بن عبد الله القطيعي: ضعيف.»
وعن ابن عمر قال: إن كنا لنعد لرسول الله صلى الله عليه وسلم في المجلس يقول: «رب اغفر لي وتب علي إنك انت التواب الغفور» مائة مرة. رواه احمد والترمذي وابو داود وابن ماجه وَعَن ابْن عمر قَالَ: إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَجْلِسِ يَقُولُ: «رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ» مِائَةَ مَرَّةٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک مجلس میں سو مرتبہ یہ فرماتے ہوئے: ”میرے رب! مجھے بخش دے، مجھ پر رجوع فرما، بے شک تو توبہ قبول کرنے والا بخشنے والا ہے۔ “ شمار کیا کرتے تھے۔ صحیح، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (21/2 ح 4726) و الترمذي (3434 وقال: حسن صحيح غريب) و أبو داود (1516) و ابن ماجه (3814)»