وعن عائشة رضي الله عنها قالت: ما اغبط احدا بهون موت بعد الذي رايت من شدة موت رسول الله صلى الله عليه وسلم. رواه الترمذي والنسائي وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَا أَغْبِطُ أَحَدًا بِهَوْنِ مَوْتٍ بَعْدَ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ شِدَّةِ مَوْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کی سختی دیکھنے کے بعد کسی کے آسان مرنے پر میں رشک نہیں کیا کرتی۔ حسن، رواہ الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (979) والنسائي (6/4. 7 ح 1831) [و للحديث شواھد.]»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: رايت النبي صلى الله عليه وسلم وهو بالموت وعنده قدح فيه ماء وهو يدخل يده في القدح ثم يمسح وجهه ثم يقول: «اللهم اعني على منكرات الموت او سكرات الموت» . رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْمَوْتِ وَعِنْدَهُ قَدَحٌ فِيهِ مَاءٌ وَهُوَ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْقَدَحِ ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْهَهُ ثُمَّ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى مُنْكَرَاتِ الْمَوْتِ أَوْ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نزع کے عالم میں دیکھا، آپ کے پاس پانی کا ایک پیالہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا ہاتھ پیالے میں ڈالتے، پھر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے: ”اے اللہ! موت کی ناگواریوں اور موت کی بے ہوشیوں پر میری مدد فرما۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (978 وقال: حسن غريب.) و ابن ماجه (1623) [و صححه الحاکم (465/2، 56/3. 57) ووافقه الذهبي.]»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا اراد الله تعالى بعبده الخير عجل له العقوبة في الدنيا وإذا اراد الله بعبده الشر امسك عنه بذنبه حتى يوافيه به يوم القيامة» . رواه الترمذي وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِيَهُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے خیرو بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا دنیا ہی میں دے دیتا ہے، اور جب اپنے بندے سے شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہ کے معاملے کو مؤخر فرما دیتا ہے حتیٰ کہ وہ اس کے بدلے میں روز قیامت اسے پورا پورا بدلہ دے گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2396 و قال: حسن غريب.) [و انظر الحديث الآتي: 1566]»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن عظم الجزاء مع عظم البلاء وإن الله عز وجل إذا احب قوما ابتلاهم فمن رضي فله الرضا ومن سخط فله السخط» . رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاءِ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بڑی جزا بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، کیونکہ اللہ عزوجل جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو وہ انہیں آزماتا ہے، جو شخص اس پر راضی ہو تو اسے رضا مندی حاصل ہو جاتی ہے، اور جو شخص ناراضی کا اظہار کرے تو وہ اس کی ناراضی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2396 وقال: حسن غريب.) و ابن ماجه (4031) — اضافه از معاذ علي زئي — إسناده ضعيف إذا أراد الله بعبده الخير عجل له العقوبة إسناده ضعيف/ ترمذي: 2396، ابن ماجه: 4031 باب [ما جاء] في الصبر علي البلاء سعد بن سنان صدوق لکن رواية يزيد بن أبي حبيب عنه منکرة (انظر کتاب الضعفاء للعقيلي 119/2، رواه عن الإمام أحمد و سنده قوي) وللحديث شواھد ضعيفة عند الحاکم (349/1، 376/4. 377) وغيره.»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يزال البلاء بالمؤمن او المؤمنة في نفسه وماله وولده حتى يلقى الله تعالى وما عليه من خطيئة» . رواه الترمذي وروى مالك نحوه وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ أَوِ الْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ تَعَالَى وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَرَوَى مَالِكٌ نَحْوَهُ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومن پر اس کی جان و مال اور اس کی اولاد کے بارے میں آزمائش آتی رہتی ہے حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے تو اس کے ذمے کوئی خطا نہیں ہوتی۔ “ ترمذی، امام مالک نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسنادہ حسن۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2399) و مالک (236/1 ح 559) [و صححه ابن حبان (697) والحاکم علٰي شرط مسلم (314/4. 315، 346/1) ووافقه الذهبي.]»
وعن محمد بن خالد السلمي عن ابيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن العبد إذا سبقت له من الله منزلة لم يبلغها بعمله ابتلاه الله في جسده افي ماله او في ولده ثم صبره على ذلك يبلغه المنزلة التي سبقت له من الله» . رواه احمد وابو داود وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ السُّلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَنْزِلَةٌ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ ابتلاه الله فِي جسده أَفِي مَالِهِ أَوْ فِي وَلَدِهِ ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذَلِكَ يُبَلِّغُهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ الله» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
محمد بن خالد سلمی اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی مقام و مرتبہ مقدر ہوتا ہے جہاں وہ اپنے عمل کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا تو اللہ اسے اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے بارے میں آزماتا ہے، پھر اس کو اس پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے حتیٰ کہ وہ اسے اس مقام و مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے لیے مقدر کیا ہوتا ہے۔ “ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (272/5 ح 22694) و أبو داود (3090) [سنده ضعيف و للحديث شواھد عند ابن حبان (الموارد: 2908) وغيره]»
وعن عبد الله بن شخير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مثل ابن آدم وإلى جنبه تسع وتسعون منية إن اخطاته المنايا وقع في الهرم حتى يموت» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَن عبد الله بن شخير قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُثِّلَ ابْنُ آدَمَ وَإِلَى جَنْبِهِ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ مَنِيَّةً إِنْ أَخْطَأَتْهُ الْمَنَايَا وَقَعَ فِي الْهَرَمِ حَتَّى يَمُوتَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کو اس حال میں تخلیق کیا جاتا ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے مہلک بلائیں ہوتی ہیں، اگر وہ ان سے بچ بھی جاتا ہے تو وہ بڑھاپے میں مبتلا ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ فوت ہو جاتا ہے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2150) ٭ قتادة مدلس و عنعن.»
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يود اهل العافية يوم القيامة حين يعطى اهل البلاء الثواب لو ان جلودهم كانت قرضت في الدنيا بالمقاريض» . رواه الترمذي وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَى أَهْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَهُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب آزمائش سے دوچار لوگوں کو روز قیامت جزا دی جائے گی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کہ کاش دنیا میں ان کی جلدوں کو قینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2402) ٭ سليمان الأعمش و أبو الزبير عنعنا و للحديث شواھد ضعيفة عند الطبراني (الکبير 182/12 ح 12729) وغيره.»
وعن عامر الرام قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الاسقام فقال: «إن المؤمن إذا اصابه السقم ثم اعفاه الله منه كان كفارة لما مضى من ذنوبه وموعظة له فيما يستقبل. وإن المنافق إذا مرض ثم اعفي كان كالبعير عقله اهله ثم ارسلوه فلم يدر لم عقلوه ولم يدر لم ارسلوه» . فقال رجل يا رسول الله وما الاسقام؟ والله ما مرضت قط فقال: «قم عنا فلست منا» . رواه ابو داود وَعَن عَامر الرام قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَسْقَامَ فَقَالَ: «إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَصَابَهُ السقم ثمَّ أَعْفَاهُ الله مِنْهُ كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ وَمَوْعِظَةً لَهُ فِيمَا يَسْتَقْبِلُ. وَإِنَّ الْمُنَافِقَ إِذَا مرض ثمَّ أعفي كَانَ كالبعير عَقَلَهُ أَهْلُهُ ثُمَّ أَرْسَلُوهُ فَلَمْ يَدْرِ لِمَ عقلوه وَلم يدر لم أَرْسَلُوهُ» . فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْأَسْقَامُ؟ وَاللَّهِ مَا مَرِضْتُ قَطُّ فَقَالَ: «قُمْ عَنَّا فلست منا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عامر رام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امراض (اور ان کے ثواب) کا ذکر کیا تو فرمایا: ”جب مومن کو کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے اور پھر اللہ عزوجل اسے اس سے عافیت و صحت عطا فرما دیتا ہے تو وہ (مرض) اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ اور مستقبل کے بارے میں وعظ و نصیحت بن جاتی ہے، اور جب منافق بیمار ہوتا ہے پھر اسے عافیت عطا کر دی جاتی ہے تو وہ اس اونٹ کی طرح ہوتا ہے جسے اس کے گھر والوں نے باندھ رکھا ہو اور پھر انہوں نے اسے چھوڑ دیا ہو اسے پتہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے اسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑا ہے۔ “ کسی شخص نے عرض کیا، اللہ کے رسول! بیماریاں کیا ہوتی ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے پاس سے چلے جاؤ، تم ہم میں سے نہیں ہو۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3089) ٭ أبو منظور: مجھول و عمه: لم أعرفه.»
وعن ابي سعيد قال: قال رسول الله صل الله عليه وسلم: «إذا دخلتم على المريض فنفسوا له في اجله فإن ذلك لا يرد شيئا ويطيب بنفسه» . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث غريب وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّ اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَخَلْتُمْ عَلَى الْمَرِيضِ فَنَفِّسُوا لَهُ فِي أَجَلِهِ فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَرُدُّ شَيْئًا وَيُطَيِّبُ بِنَفْسِهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مریض کے پاس جاؤ تو اس کی درازی عمر کی بات کرو بلاشبہ یہ تقدیر تو نہیں بدل سکتا لیکن اس کا دل خوش ہو جائے گا۔ “ ترمذی، ابن ماجہ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2087) و ابن ماجه (1438) ٭ موسي بن محمد: منکر الحديث.»