وعن سعد بن ابي وقاص رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عجب للمؤمن: إن اصابه خير حمد الله وشكر وإن اصابته مصيبة حمد الله وصبر فالمؤمن يؤجر في كل امره حتى في اللقمة يرفعها إلى في امراته. رواه البيهقي في شعب الإيمان وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجَبٌ لِلْمُؤْمِنِ: إِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ حمد الله وَشَكَرَ وَإِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ حَمِدَ اللَّهَ وَصَبَرَ فالمؤمن يُؤْجَرُ فِي كُلِّ أَمْرِهِ حَتَّى فِي اللُّقْمَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِهِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعب الْإِيمَان
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی عجیب شان ہے، اگر اسے کوئی خیرو بھلائی نصیب ہوتی ہے تو اللہ کی حمد بیان کرتا اور شکر کرتا ہے، اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو بھی اللہ کی حمد بیان کرتا ہے اور صبر کرتا ہے، پس مومن اپنے (شکر و صبر کے) ہر معاملے میں اجر پاتا ہے، حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو وہ اپنی اہلیہ کے منہ میں ڈالتا ہے۔ “ صحیح، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه البيھقي في شعب الإيمان (4485) [و أحمد (173/1، [177ح 1531، وسنده صحيح]، 182)] ٭ وله شاھد في صحيح مسلم (2999)»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من مؤمن إلا وله بابان: باب يصعد منه علمه وباب ينزل منه رزقه. فإذا مات بكيا عليه فذلك قوله تعالى: (فما بكت عليهم السماء والارض) رواه الترمذي وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَله بَابَانِ: بَاب يصعد مِنْهُ علمه وَبَابٌ يَنْزِلُ مِنْهُ رِزْقُهُ. فَإِذَا مَاتَ بَكَيَا عَلَيْهِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: (فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاء وَالْأَرْض) رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مومن کے لیے دو دروازے ہیں، ایک دروازے سے اس کے اعمال اوپر چڑھتے ہیں اور ایک دروازے سے اس کا رزق نازل ہوتا ہے، جب وہ فوت ہو جاتا ہے تو وہ دونوں اس پر روتے ہیں، پس یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”ان پر آسمان رویا نہ زمین۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3255 و قال: غريب) ٭ موسي بن عبيدة و يزيد بن أبان: ضعيفان.»
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان له فرطان من متي ادخله الله بهما الجنة. فقالت عائشة: فمن كان له فرط من امتك؟ قال: «ومن كان له فرط يا موفقة» . فقالت: فمن لم يكن له فرط من امتك؟ قال: «فانا فرط امتي لن يصابوا بمثلي» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَ لَهُ فرطان من متي أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِمَا الْجَنَّةَ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ مَنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: «وَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ يَا مُوَفَّقَةُ» . فَقَالَتْ: فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ؟ قَالَ: «فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِي لَنْ يُصَابُوا بِمِثْلِي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے جس شخص کے دو بچے پیش رو ہوں (یعنی فوت ہو جائیں) تو اللہ ان کی وجہ سے اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ “ عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، آپ کی امت میں سے جس کا ایک پیش رو ہو؟ آپ نے فرمایا: ”موفّقہ (جس کو توفیق دی گئی ہو)! جس کا ایک پیش رو ہو (وہ بھی جنتی ہے)۔ “ انہوں نے عرض کیا، آپ کی امت میں سے جس کا ایک بھی پیش رو نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنی امت کا پیش رو ہوں گا، انہیں میری مثل کوئی تکلیف نہیں پہنچائی گئی۔ “ ترمذی، اور انہوں نے کہا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1062)»
وعن ابي موسى اشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا مات ولد العبد قال الله تعالى لملائكته: قبضتم ولد عبدي؟ فيقولون: نعم. فيقول: قبضتم ثمرة فؤاده؟ فيقولون: نعم. فيقول: ماذا قال عبدي؟ فيقولون: حمدك واسترجع. فيقول الله: ابنوا لعبدي بيتا في الجنة وسموه بيت الحمد. رواه احمد والترمذي وَعَن أبي مُوسَى اشعري قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِمَلَائِكَتِهِ: قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ. فَيَقُولُ: قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِهِ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ. فَيَقُولُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِي؟ فَيَقُولُونَ: حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ. فَيَقُولُ اللَّهُ: ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوهُ بَيت الْحَمد. رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندے کا بچہ فوت ہو جاتاہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: کیا تم نے میرے بندے کے بچے (کی روح) کو قبض کر لیا؟ وہ عرض کرتے ہیں، جی ہاں، پھر وہ پوچھتا ہے: کیا تم نے اس کے ثمر قلب (جگر گوشہ کی روح) کو قبض کر لیا؟ وہ عرض کرتے ہیں، جی ہاں، اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے کیا کہا تھا؟ وہ عرض کرتے ہیں، اس نے تیری حمد بیان کی اور (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھا تھا، پھر اللہ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (415/4 ح 19963) والترمذي (1021 و قال: حسن غريب.) ٭ وقال البيھقي في السنن الکبري: ’’الضحاک بن عبد الرحمٰن: لم يثبت سماعه من أبي موسي و عيسي بن سنان: ضعيف‘‘ (284/1. 285)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من عزى مصابا فله مثل اجره» . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث غريب لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث علي بن عاصم الراوي وقال: ورواه بعضهم عن محمد بن سوقة بهذا الإسناد موقوفا وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «من عَزَّى مُصَابًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ الرَّاوِي وَقَالَ: وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ مُحَمَّد بن سوقة بِهَذَا الْإِسْنَاد مَوْقُوفا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مصیبت زدہ شخص کو تسلی دیتا ہے تو اسے بھی اس کی مثل اجر ملتا ہے۔ “ ترمذی، ابن ماجہ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، اور ہم علی بن عاصم سے مروی حدیث سے اسے مرفوع جانتے ہیں، اور انہوں نے (امام ترمذی) نے فرمایا: ان میں سے بعض نے اسے محمد بن سوقہ سے اسی سند کے ساتھ موقوف روایت کیا ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1073) و ابن ماجه (1602) ٭ قال البيھقي: ’’تفرد به علي بن عاصم وھو أحد ما أنکر عليه‘‘ (59/4) و ھو ضعيف (تقدم: 1177) و له متابعات ضعيفة.»
وعن ابي برزة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من عزى ثكلى كسي بردا في الجنة» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ عَزَّى ثَكْلَى كسي بردا فِي الْجَنَّةِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيب
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی عورت کو، جس کا بچہ گم جائے، تسلی دیتا ہے تو اسے جنت میں ایک قیمتی لباس پہنایا جائے گا۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1076) ٭ منية بنت عبيد: لا يعرف حالھا.»
وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعاما فقد اتاهم ما يشغلهم) رواه الترمذي وابو داود وابن ماجه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: صانعوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَقَدْ أَتَاهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ) رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب جعفر کی خبر شہادت آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو، ان کے پاس ایسی چیز (یعنی خبر) آئی ہے جو انہیں مشغول رکھے گی۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (998 وقال: حسن.) و أبوداود (3122) و ابن ماجه (1610) [و صححه الحاکم (372/1) ووافقه الذهبي.]»
عن المغيرة بن شعبة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من نيح عليه فإنه يعذب بما نيح عليه يوم القيامة» عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «من نِيحَ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ يُعَذَّبُ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ يَوْم الْقِيَامَة»
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص پر نوحہ کیا جائے تو اس پر نوحہ کیے جانے کے باعث روز قیامت اسے عذاب دیا جائے گا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1291) و مسلم (933/28)»
وعن عمرة بنت عبد الرحمن انها قالت: سمعت عائشة وذكر لها ان عبد الله بن عمر يقول: إن الميت ليعذب ببكاء الحي عليه تقول: يغفر الله لابي عبد الرحمن اما إنه لم يكذب ولكنه نسي او اخطا إنما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على يهودية يبكى عليها فقال: «إنهم ليبكون عليها وإنها لتعذب في قبرها» وَعَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ تَقُولُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لتعذب فِي قبرها»
عمرہ بنت عبدالرحمٰن ؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا، میں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے سنا، اور انہیں بتایا گیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میت کو، اس کے قبیلے کے اس پر رونے کی وجہ سے، عذاب دیا جاتا ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ! ابوعبدالرحمٰن کو معاف فرمائے، انہوں نے جھوٹ نہیں بولا، بلکہ وہ بھول گئے یا غلطی کر گئے، بات صرف اتنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک یہودی عورت کے پاس سے گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک یہ تو اس پر رو رہے ہیں جبکہ اسے اپنی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1289) و مسلم (932/27)»
وعن عبد الله بن ابي مليكة قال: توفيت بنت لعثمان بن عفان بمكة فجئنا لنشهدها وحضرها ابن عمر وابن عباس فإني لجالس بينهما فقال عبد الله بن عمر لعمرو بن عثمان وهو مواجهه: الا تنهى عن البكاء؟ فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الميت ليعذب ببكاء اهله عليه» . فقال ابن عباس: قد كان عمر يقول بعض ذلك. ثم حدث فقال: صدرت مع عمر من مكة حتى إذا كنا بالبيداء فإذا هو بركب تحت ظل سمرة فقال: اذهب فانظر من هؤلاء الركب؟ فنظرت فإذا هو صهيب. قال: فاخبرته فقال: ادعه فرجعت إلى صهيب فقلت: ارتحل فالحق امير المؤمنين فلما ان اصيب عمر دخل صهيب يبكي يقول: وا اخاه واصاحباه. فقال عمر: يا صهيب اتبكي علي وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الميت ليعذب ببعض بكاء اهله عليه؟» فقال ابن عباس: فلما مات عمر ذكرت ذلك لعائشة فقالت: يرحم الله عمر لا والله ما حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الميت ليعذب ببكاء اهله عليه ولكن: إن الله يزيد الكافر عذابا ببكاء اهله عليه. وقالت عائشة: حسبكم القرآن: (ولا تزر وازرة وزر اخرى) قال ابن عباس عند ذلك: والله اضح وابكي. قال ابن ابي مليكة: فما قال ابن عمر شيئا وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: تُوُفِّيَتْ بِنْتٌ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِمَكَّةَ فَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ وَابْنُ عَبَّاسٍ فَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بن عمر لعَمْرو بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ مُوَاجِهُهُ: أَلَا تَنْهَى عَنِ الْبُكَاءِ؟ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» . فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ كَانَ عُمَرُ يَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ. ثُمَّ حَدَّثَ فَقَالَ: صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ مِنْ مَكَّةَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ فَإِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ سَمُرَةٍ فَقَالَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلَاءِ الرَّكْبُ؟ فَنَظَرْتُ فَإِذَا هُوَ صُهَيْبٌ. قَالَ: فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: ادْعُهُ فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ فَقُلْتُ: ارْتَحِلْ فَالْحَقْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَمَّا أَنْ أُصِيبَ عُمَرُ دَخَلَ صُهَيْبٌ يبكي يَقُول: وَا أَخَاهُ واصاحباه. فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ أَتَبْكِي عَلَيَّ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ؟» فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ ذَكَرْتُ ذَلِك لعَائِشَة فَقَالَت: يَرْحَمُ اللَّهُ عُمَرَ لَا وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَن الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ وَلَكِنْ: إِنَّ اللَّهَ يَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ. وَقَالَتْ عَائِشَةُ: حَسْبُكُمُ الْقُرْآنُ: (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وزر أُخْرَى) قَالَ ابْن عَبَّاس عِنْد ذَلِك: وَالله أضح وأبكي. قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: فَمَا قَالَ ابْنُ عمر شَيْئا
عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی بیٹی مکہ میں وفات پا گئیں تو ہم اس کے جنازہ میں شریک ہونے کے لیے آئے جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے تھے، میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عثمان سے فرمایا: جبکہ وہ اس کے مقابل تھے، کیا تم رونے سے منع نہیں کرتے؟ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میت کو، اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے، عذاب دیا جاتا ہے۔ “ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ اس کا بعض حصہ بیان کیا کرتے تھے، پھر انہوں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے حدیث بیان کی تو فرمایا: میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے واپس آیا، حتیٰ کہ جب ہم بیداء کے قریب پہنچے تو انہوں نے کیکر کے سائے تلے ایک قافلہ دیکھا تو فرمایا: جاؤ دیکھو کہ یہ کون لوگ ہیں؟ میں نے دیکھا تو وہ صہیب رضی اللہ عنہ تھے، چنانچہ میں نے ان کو بتایا، تو انہوں نے فرمایا: اس (صہیب رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ، میں صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو میں نے کہا: یہاں سے کوچ کرو اور امیرالمؤمنین کے پاس چلو، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کر دیا گیا، تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور کہنے لگے: آہ بھائی پر کتنا افسوس ہے! آہ بھائی پر کتنا افسوس ہے! تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صہیب! کیا تم مجھ پر روتے ہو؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میت کو اس کے گھر والوں کی طرف سے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ “ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب عمر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حدیث بیان نہیں کی کہ ”میت کو اس کے گھر والوں کی طرف سے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ “ بلکہ ”اللہ کافر شخص پر ‘ اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب بڑھا دیتا ہے۔ “ اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں قرآن کافی ہونا چاہیے: ”کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ “ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے۔ ابن ابی ملیکہ نے فرمایا: ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی بات نہ کی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1286. 1288) و مسلم (927/23. 929)»