مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الجنائز
--. میت کو بوسہ دینا جائز ہے
حدیث نمبر: 1623
Save to word اعراب
وعن عائشة قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل عثمان بن مظعون وهو ميت وهو يبكي حتى سال دموع النبي صلى الله عليه وسلم على وجه عثمان. رواه الترمذي وابو داود وابن ماجه وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَيِّتٌ وَهُوَ يَبْكِي حَتَّى سَالَ دُمُوعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى وَجْهِ عُثْمَانَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روتے ہوئے ان کا بوسہ لیا حتیٰ کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنسو عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے پر گر پڑے۔ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«ضعيف، رواه الترمذي (989 و قال: حسن صحيح.) و أبو داود (3163) و ابن ماجه (1456)
٭ عاصم بن عبيد الله ضعيف.»

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
--. سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بوسہ دینا
حدیث نمبر: 1624
Save to word اعراب
وعن عائشة قالت: إن ابا بكر قبل النبي صلى الله عليه وسلم وهو ميت. رواه الترمذي وابن ماجه وَعَن عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَبَّلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَيِّتٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کا بوسہ لیا۔ صحیح، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه الترمذي (لم أجده مسندًا بل ذکره: 989 معلقًا و رواه في الشمائل: 391 و سنده صحيح) و ابن ماجه (1456) [والبخاري في صحيحه: 5709. 5711]»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. تدفین میں جلدی کرنا
حدیث نمبر: 1625
Save to word اعراب
وعن حصين بن وحوح ان طلحة بن البراء مرض فاتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده فقال: «إني لا ارى طلحة إلا قد حدث به الموت فآذنوني به وعجلوا فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم ان تحبس بين ظهراني اهله» . رواه ابو داود وَعَنْ حُصَيْنِ بْنِ وَحْوَحٍ أَنَّ طَلْحَةَ بْنَ الْبَرَاءِ مَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَالَ: «إِنِّي لَا أَرَى طَلْحَةَ إِلَّا قَدْ حَدَثَ بِهِ الْمَوْتُ فَآذِنُونِي بِهِ وَعَجِّلُوا فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِجِيفَةِ مُسْلِمٍ أَنْ تُحْبَسَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
حصین بن وحوح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ طلحہ فوت ہونے والا ہے، پس اس کی مجھے اطلاع کرنا اور (دفن کرنے میں) جلدی کرنا، کیونکہ مسلمان میت کو اس کے اہل خانہ کے پاس روک رکھنا مناسب نہیں۔ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3159)
٭ ابن سعيد الأنصاري و أبوه: لم أجد من و ثقھما و سعيد بن عثمان: وثقه ابن حبان وحده من أئمة الرجال.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. قریب الموت کے لئے کلمات کی تلقین
حدیث نمبر: 1626
Save to word اعراب
وعن عبد الله بن جعفر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لقنوا موتاكم لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين» قالوا: يا رسول الله كيف للاحياء؟ قال: «اجود واجود» . رواه ابن ماجه وَعَن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ؟ قَالَ: «أَجود وأجود» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے قریب المرگ افراد کو ان کلمات کی تلقین کرو: اللہ حلیم و کریم کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اللہ عرش عظیم کا رب پاک ہے، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! (یہ کلمات) زندوں کے متعلق کیسے ہیں؟ آپ نے فرمایا: بہت خوب! بہت خوب۔ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (1446)
٭ إسحاق بن عبد الله بن جعفر: مستور، لم أجد من وثقه.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. نیک آدمی کا سفر آخرت اور برے آدمی کا انجام
حدیث نمبر: 1627
Save to word اعراب
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل صالحا قالوا: اخرجي ايتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب اخرجي حميدة وابشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا تزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها فيقال: من هذا؟ فيقولون: فلان فيقال: مرحبا بالنفس الطيبة كانت في الجسد الطيب ادخلي حميدة وابشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا تزال يقال لها ذلك حتى تنتهي إلى السماء التي فيها الله فإذا كان الرجل السوء قال: اخرجي ايتها النفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث اخرجي ذميمة وابشري بحميم وغساق وآخر من شكله ازواج فما تزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها فيقال: من هذا؟ فيقال: فلان فيقال: لا مرحبا بالنفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث ارجعي ذميمة فإنها لا تفتح له ابواب السماء فترسل من السماء ثم تصير إلى القبر. رواه ابن ماجه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمَيِّتُ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَالِحًا قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ اخْرُجِي حَمِيدَةً وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ فَلَا تَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ فَيُفْتَحَ لَهَا فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ فَيُقَالُ: مَرْحَبًا بِالنَّفسِ الطّيبَة كَانَت فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ ادْخُلِي حَمِيدَةً وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ فَلَا تَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السُّوءُ قَالَ: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ اخْرُجِي ذَمِيمَةً وَأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ فَمَا تَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ فَيُفْتَحُ لَهَا فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ ارْجِعِي ذَمِيمَةً فَإِنَّهَا لَا تفتح لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَاءِ ثُمَّ تَصِيرُ إِلَى الْقَبْر. رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب المرگ کے پاس فرشتے آتے ہیں، اگر تو وہ صالح شخص ہو تو وہ کہتے ہیں: پاکیزہ جسم میں پاکیزہ روح نکل، نکل تو قابل تعریف ہے، راحت و رزق کے ساتھ خوش ہو جا، رب تجھ پر ناراض نہیں، اسے اسی طرح مسلسل کہا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ نکل آتی ہے، پھر اسے آسمانوں کی طرف لے جایا جاتا ہے تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پھر یہ پوچھا جاتا ہے، یہ کون ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں، فلاں ہے، تو اسے کہا جاتا ہے، پاکیزہ جسم میں پاکیزہ جان خوش آمدید، قابل تعریف (روح) داخل ہو جا، راحت و رزق کے ساتھ خوش ہو جا، رب تجھ پر ناراض نہیں، اسے مسلسل ایسے کہا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جہاں اللہ ہے، لیکن اگر برا شخص ہو تو وہ (ملک الموت) کہتا ہے: جسد خبیث میں بسنے والی خبیث روح نکل، مذموم صورت میں نکل، کھولتے پانی اور پیپ کے ساتھ خوش ہو جا، اور اسی طرح کے ملتے جلتے دوسرے عذاب بھی، اسے ایسے ہی کہا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ نکل آتی ہے، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے تو اس کے لیے دروازے کھولنے کا مطالبہ ہوتا ہے، اور پوچھا جاتا ہے: یہ کون ہے؟ تو بتایا جاتا ہے: فلاں ہے، اسے کہا جاتا ہے: جسد خبیث میں بسنے والی خبیث روح کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں، مذموم صورت میں واپس چلی جا، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اسے آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر وہ قبر کی طرف لوٹ آتی ہے۔ صحیح، رواہ ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده صحيح، رواه ابن ماجه (4262) [و أحمد (344/2. 335) و النسائي في الکبري (443/6. 44 ح 11442) و صححه البوصيري]»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
--. کافر کی روح نکلنے پر بدبو کا بیان
حدیث نمبر: 1628
Save to word اعراب
وعن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها» . قال حماد: فذكر من طيب ريحها وذكر المسك قال: ويقول اهل السماء: روح طيبة جاءت من قبل الارض صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه فينطلق به إلى ربه ثم يقول: انطلقوا به إلى آخر الاجل. قال: «وإن الكافر إذا خرجت روحه» قال حماد: وذكر من نتنها وذكر لعنها. ويقول اهل السماء: روح خبيثة جاءت من قبل الارض فيقال: انطلقوا به إلى آخر الاجل قال ابو هريرة: فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم ريطة كانت عليه على انفه هكذا. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا» . قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَكَرَ الْمِسْكَ قَالَ: وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تُعَمِّرِينَهُ فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ. قَالَ: «وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ» قَالَ حَمَّادٌ: وَذَكَرَ من نتنها وَذكر لعنها. وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَل قَالَ أَبُو هُرَيْرَة: فَرد رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ريطة كَانَت عَلَيْهِ على أَنفه هَكَذَا. رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں۔ حماد (راوی) نے بیان کیا ہے، آپ نے اس کی اچھی خوشبو کا ذکر کیا اور کستوری کا ذکر کیا، فرمایا: آسمان والے کہتے ہیں، زمین کی طرف سے ایک پاکیزہ روح آئی ہے، اللہ تجھ پر اور اس جسد پر، رحمتیں نازل فرمائے، جس میں تو آباد تھی، اسے اس کے رب کی طرف لے جایا جاتا ہے، پھر وہ فرماتا ہے: اسے آخری اجل (قیامت) تک (اس کے مقام پر) لے چلو۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کافر شخص کی روح نکلتی ہے۔ حماد (راوی) بیان کرتے ہیں آپ نے اس کی بدبو اور لعنت کا ذکر کیا تو آسمان والے کہتے ہیں زمین کی طرف سے ایک خبیث روح آئی ہے، تو اس کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اسے اس کی آخری اجل تک لے چلو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے جسم والے کپڑے کو اس طرح اپنی ناک پر رکھ لیا۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (2872/75)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. مومن روح کا استقبال اور کافر روح کا انجام
حدیث نمبر: 1629
Save to word اعراب
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا حضر المؤمن اتت ملائكة الرحمة بحريرة بيضاء فيقولون: اخرجي راضية مرضيا عنك إلى روح الله وريحان ورب غير غضبان فتخرج كاطيب ريح المسك حتى إنه ليناوله بعضهم بعضا حتى ياتوا به ابواب السماء فيقولون: ما اطيب هذه الريح التي جاءتكم من الارض فياتون به ارواح المؤمنين فلهم اشد فرحا به من احدكم بغائبه يقدم عليه فيسالونه: ماذا فعل فلان ماذا فعل فلان؟ فيقولون: دعوه فإنه كان في غم الدنيا. فيقول: قد مات اما اتاكم؟ فيقولون: قد ذهب به إلى امه الهاوية. وإن الكافر إذا احتضر اتته ملائكة العذاب بمسح فيقولون: اخرجي ساخطة مسخوطا عليك إلى عذاب الله عز وجل. فتخرج كانتن ريح جيفة حتى ياتون به باب الارض فيقولون: ما انتن هذه الريح حتى ياتون به ارواح الكفار. رواه احمد والنسائي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا حُضِرَ الْمُؤْمِنُ أَتَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ بِحَرِيرَةٍ بَيْضَاءَ فَيَقُولُونَ: اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيًّا عَنْكِ إِلَى رَوْحِ اللَّهِ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ فَتَخْرُجُ كَأَطْيَبِ رِيحِ الْمِسْكِ حَتَّى إِنَّهُ لَيُنَاوِلُهُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا حَتَّى يَأْتُوا بِهِ أَبْوَابَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ: مَا أَطْيَبَ هَذِهِ الرِّيحَ الَّتِي جَاءَتْكُمْ مِنَ الْأَرْضِ فَيَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِغَائِبِهِ يَقْدُمُ عَلَيْهِ فَيَسْأَلُونَهُ: مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ؟ فَيَقُولُونَ: دَعُوهُ فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا. فَيَقُولُ: قَدْ مَاتَ أَمَا أَتَاكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: قَدْ ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ. وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا احْتُضِرَ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ بِمِسْحٍ فَيَقُولُونَ: أَخْرِجِي ساخطة مسخوطا عَلَيْكِ إِلَى عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. فَتَخْرُجُ كأنتن ريح جيفة حَتَّى يأْتونَ بِهِ بَابِ الْأَرْضِ فَيَقُولُونَ: مَا أَنْتَنَ هَذِهِ الرِّيحَ حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْكُفَّارِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب مومن شخص کی موت کا وقت آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشم لے کر آتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: راضی ہونے والی پسندیدہ روح نکل، اللہ کی راحت و رزق کی طرف چل، رب تجھ پر ناراض نہیں، تو وہ بہترین کستوری کی خوشبو کی طرح نکلتی ہے حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے سے اسے لیتے ہیں اور اسی طرح کرتے ہوئے وہ اسے آسمان کے دروازوں کے پاس لے آتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں، زمین سے یہ کیسی پاکیزہ خوشبو تمہارے پاس آئی ہے، وہ اسے مومنوں کی روحوں کے پاس لے آتے ہیں، تو انہیں اس کے آنے پر اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جیسے تم میں سے کسی کو اپنے بچھڑ جانے والے کے ملنے پر خوشی ہوتی ہے، وہ اس سے پوچھتے ہیں: فلاں کا کیا حال ہے؟ فلاں کا کیا حال ہے؟ پھر وہ کہتے ہیں: اسے چھوڑ دو، کیونکہ وہ دنیا کے غم میں مبتلا تھا، تو وہ (مرنے والا) کہتا ہے: وہ تو (جس کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو) فوت ہو چکا ہے، کیا تمہارے پاس نہیں آیا؟ وہ کہتے ہیں: اسے تو اس کے ٹھکانے ہاویہ (جہنم کا نام) میں پہنچا دیا گیا، اور جب کافر شخص کی موت کا وقت آتا ہے تو عذاب کے فرشتے بالوں کا لباس لے کر اس کے پاس آتے ہیں، اور اسے کہتے ہیں: ناراض ہونے والی ناپسندیدہ روح نکل اور اللہ عزوجل کے عذاب کی طرف چل، وہ مردار کی انتہائی بدبو کی صورت میں نکلتی ہے، حتیٰ کہ وہ اسے زمین کے دروازے کے پاس لے کر آتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں: یہ کتنی بدبودار ہے حتیٰ کہ وہ اسے کافروں کی روحوں کے پاس لے آتے ہیں۔ صحیح، رواہ احمد و النسائی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه أحمد (لم أجده) والنسائي (8/4 ح 1834)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. کافر اور مؤمن کی نزع کی کیا کیفیت ہوتی ہے
حدیث نمبر: 1630
Save to word اعراب
وعن البراء بن عازب قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في جنازة رجل من الانصار فانتهينا إلى القبر ولما يلحد فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وجلسنا حوله كان على رؤوسنا الطير وفي يده عود ينكت به في الارض فرفع راسه فقال: «استعيذوا بالله من عذاب القبر» مرتين او ثلاثا ثم قال: إن العبد المؤمن إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه من السماء ملائكة بيض الوجوه كان وجوههم الشمس معهم كفن من اكفان الجنة وحنوط من حنوط الجنة حتى يجلسوا منه مد البصر ثم يجيء ملك الموت حتى يجلس عند راسه فيقول: ايتها النفس الطيبة اخرجي إلى مغفرة من الله ورضوان قال: «فتخرج تسيل كما تسيل القطرة من في السقاء فياخذها فإذا اخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى ياخذوها فيجعلوها في ذلك الكفن وفي ذلك الحنوط ويخرج منها كاطيب نفحة مسك وجدت على وجه الارض» قال: فيصعدون بها فلا يمرون-يعني بها-على ملا من الملائكة إلا قالوا: ما هذه الروح الطيب فيقولون: فلان بن فلان باحسن اسمائه التي كانوا يسمونه بها في الدنيا حتى ينتهوا بها إلى سماء الدنيا فيستفتحون له فيفتح له فيشيعه من كل سماء مقربوها إلى السماء التي تليها حتى ينتهى بها إلى السماء السابعة-فيقول الله عز وجل: اكتبوا كتاب عبدي في عليين واعيدوه إلى الارض فإني منها خلقتهم وفيها اعيدهم ومنها اخرجهم تارة اخرى قال: فتعاد روحه فياتيه ملكان فيجلسانه فيقولون له: من ربك؟ فيقول: ربي الله فيقولون له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هو رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقولان له: وما علمك؟ فيقول: قرات كتاب الله فآمنت به وصدقت فينادي مناد من السماء ان قد صدق فافرشوه من الجنة والبسوه من الجنة وافتحوا له بابا إلى الجنة قال: «فياتيه من روحها وطيبها ويفسح له في قبره مد بصره» قال: وياتيه رجل حسن الوجه حسن الثياب طيب الريح فيقول: ابشر بالذي يسرك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول له: من انت؟ فوجهك الوجه يجيء بالخير فيقول: انا عملك الصالح فيقول: رب اقم الساعة رب اقم الساعة حتى ارجع إلى اهلي ومالي. قال: وإن العبد الكافر إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه من السماء ملائكة سود الوجوه معهم المسوح فيجلسون منه مد البصر ثم يجيء ملك الموت حتى يجلس عند راسه فيقول: ايتها النفس الخبيثة اخرجي إلى سخط من الله قال: فتفرق في جسده فينتزعها كما ينتزع السفود من الصوف المبلول فيا خذها فإذا اخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى يجعلوها في تلك المسوح ويخرج منها كانتن ريح جيفة وجدت على وجه الارض فيصعدون بها فلا يمرون بها على ملا من الملائكة إلا قالوا: ما هذا الروح الخبيث؟ فيقولون: فلان بن فلان-باقبح اسمائه التي كان يسمى بها في الدنيا-حتى ينتهي بها إلى السماء الدنيا فيستفتح له فلا يفتح له ثم قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم (لا تفتح لهم ابواب السماء ولا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط) فيقول الله عز وجل: اكتبوا كتابه في سجين في الارض السفلى فتطرح روحه طرحا ثم قرا: (ومن يشرك بالله فكانما خر من السماء فتخطفه الطير او تهوي به الريح في مكان سحيق) فتعاد روحه في جسده وياتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له: من ربك: فيقول: هاه هاه لا ادري فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: هاه هاه لا ادري فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هاه هاه لا ادري فينادي مناد من السماء ان كذب عبدي فافرشوا له من النار وافتحوا له بابا إلى النار فياتيه حرها وسمومها ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه اضلاعه وياتيه رجل قبيح الوجه قبيح الثياب منتن الريح فيقول ابشر بالذي يسوؤك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول: من انت؟ فوجهك الوجه يجيء بالشر فيقول: انا عملك الخبيث فيقول: رب لا تقم الساعة وفي رواية نحوه وزاد فيه: إذا خرج روحه صلى عليه كل ملك بين السماء والارض وكل ملك في السماء وفتحت له ابواب السماء ليس من اهل باب إلا وهم يدعون الله ان يعرج بروحه من قبلهم. وتنزع نفسه يعني الكافر مع العروق فيلعنه كل ملك بين السماء والارض وكل ملك في السماء وتغلق ابواب السماء ليس من اهل باب إلا وهم يدعون الله ان لا يعرج روحه من قبلهم. رواه احمد وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَة رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ وَلَمَّا يُلْحَدْ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَلَسْنَا حوله كَأَن على رؤوسنا الطَّيْرَ وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: «اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ نَزَلَ إِلَيْهِ من السَّمَاء مَلَائِكَة بِيضُ الْوُجُوهِ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الشَّمْسُ مَعَهُمْ كَفَنٌ مِنْ أَكْفَانِ الْجَنَّةِ وَحَنُوطٌ مِنْ حَنُوطِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَجْلِسُوا مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ اخْرُجِي إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ الله ورضوان قَالَ: «فَتَخْرُجُ تَسِيلُ كَمَا تَسِيلُ الْقَطْرَةُ مِنَ فِي السِّقَاءِ فَيَأْخُذُهَا فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَأْخُذُوهَا فَيَجْعَلُوهَا فِي ذَلِكَ الْكَفَنِ وَفِي ذَلِكَ الْحَنُوطِ وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَطْيَبِ نَفْحَةِ مِسْكٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ» قَالَ: فَيَصْعَدُونَ بِهَا فَلَا يَمُرُّونَ-يَعْنِي بِهَا-عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا قَالُوا: مَا هَذِه الرّوح الطّيب فَيَقُولُونَ: فلَان بن فُلَانٍ بِأَحْسَنِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانُوا يُسَمُّونَهُ بِهَا فِي الدُّنْيَا حَتَّى ينْتَهوا بهَا إِلَى سَمَاء الدُّنْيَا فيستفتحون لَهُ فَيفتح لَهُ فَيُشَيِّعُهُ مِنْ كُلِّ سَمَاءٍ مُقَرَّبُوهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي تَلِيهَا حَتَّى ينتهى بهَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ-فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: اكْتُبُوا كِتَابَ عَبْدِي فِي عِلِّيِّينَ وَأَعِيدُوهُ إِلَى الْأَرْضِ فَإِنِّي مِنْهَا خَلَقْتُهُمْ وَفِيهَا أُعِيدُهُمْ وَمِنْهَا أخرجهم تَارَة أُخْرَى قَالَ: فتعاد روحه فيأتيه ملكان فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولُونَ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ الله فَيَقُولُونَ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُول: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولَانِ لَهُ: وَمَا عِلْمُكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاء أَن قد صدق فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ قَالَ: «فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا وَيُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ» قَالَ: وَيَأْتِيهِ رجل حسن الْوَجْه حسن الثِّيَاب طيب الرّيح فَيَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِي يَسُرُّكَ هَذَا يَوْمُكَ الَّذِي كُنْتَ تُوعَدُ فَيَقُولُ لَهُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْه يَجِيء بِالْخَيْرِ فَيَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الصَّالِحُ فَيَقُولُ: رَبِّ أَقِمِ السَّاعَةَ رَبِّ أَقِمِ السَّاعَةَ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي وَمَالِي. قَالَ: وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ نَزَلَ إِلَيْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ مَعَهُمُ الْمُسُوحُ فَيَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللَّهِ قَالَ: فَتُفَرَّقُ فِي جسده فينتزعها كَمَا ينتزع السفود من الصُّوف المبلول فَيَأ خُذُهَا فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ وَيخرج مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ فَيَصْعَدُونَ بِهَا فَلَا يَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا قَالُوا: مَا هَذَا الرّوح الْخَبيث؟ فَيَقُولُونَ: فلَان بن فُلَانٍ-بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانَ يُسَمَّى بِهَا فِي الدُّنْيَا-حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ فَلَا يُفْتَحُ لَهُ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سم الْخياط) فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّين فِي الأَرْض السُّفْلى فتطرح روحه طرحا ثُمَّ قَرَأَ: (وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرّيح فِي مَكَان سحيق) فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ: فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَن كذب عَبدِي فأفرشوا لَهُ مِنَ النَّارِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ فَيَأْتِيهِ حَرُّهَا وَسَمُومُهَا وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ وَيَأْتِيهِ رَجُلٌ قَبِيحُ الْوَجْهِ قَبِيحُ الثِّيَابِ مُنْتِنُ الرِّيحِ فَيَقُولُ أَبْشِرْ بِالَّذِي يسوؤك هَذَا يَوْمُكَ الَّذِي كُنْتَ تُوعَدُ فَيَقُولُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ يَجِيءُ بِالشَّرِّ فَيَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الْخَبِيثُ فَيَقُولُ: رَبِّ لَا تُقِمِ السَّاعَةَ وَفِي رِوَايَة نَحوه وَزَاد فِيهِ: إِذَا خَرَجَ رُوحُهُ صَلَّى عَلَيْهِ كُلُّ مَلَكٍ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَكُلُّ مَلَكٍ فِي السَّمَاءِ وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَابٍ إِلَّا وَهُمْ يَدْعُونَ اللَّهَ أَنْ يُعْرَجَ بِرُوحِهِ مِنْ قِبَلِهِمْ. وَتُنْزَعُ نَفْسُهُ يَعْنِي الْكَافِرَ مَعَ الْعُرُوقِ فَيَلْعَنُهُ كُلُّ مَلَكٍ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَكُلُّ مَلَكٍ فِي السَّمَاءِ وَتُغْلَقُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَابٍ إِلَّا وَهُمْ يَدْعُونَ اللَّهَ أَنْ لَا يُعْرِجَ رُوحَهُ مِنْ قبلهم. رَوَاهُ أَحْمد
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں ایک انصاری شخص کے جنازے میں شریک ہوئے، ہم قبر تک پہنچ گئے، ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے پاس بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے ہوں، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اوپر اٹھایا تو فرمایا: عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ آپ نے دو یا تین بار ایسے فرمایا، پھر فرمایا: بندہ مومن جب دنیا سے رابطہ توڑ کر آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو سورج کی طرح چمکتے دمکتے سفید چہروں والے فرشتے جنتی خوشبو اور جنتی کفن لے کر اس کے پاس آتے ہیں، حتیٰ کہ وہ حد نظر تک اس کے پاس سے بیٹھ جاتے ہیں، پھر ملک الموت ؑ تشریف لاتے ہیں حتیٰ کہ وہ اس کے سر کے پاس بیٹھ کر کہتے ہیں، پاکیزہ روح! اللہ کی مغفرت اور اس کی رضا مندی کی طرف چل۔ فرمایا: وہ ایسے نکلتی ہے جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے، وہ اسے اخذ کر لیتا ہے، جب وہ اسے اخذ کر لیتا ہے تو وہ (فرشتے) اسے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اس کے پاس نہیں چھوڑتے حتیٰ کہ وہ اسے لے کر اس کفن اور اس خوشبو میں لپیٹ لیتے ہیں، اور پھر روئے زمین پر پائی جانے والی بہترین کستوری کی خوشبو اس سے نکلتی ہے۔ فرمایا: وہ فرشتے اسے لے کر اوپر کی طرف بلند ہوتے ہیں، اور یہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں یہ خوشبو کیسی ہے؟ تو وہ اس کے دنیا کے ناموں میں بہترین نام لے کے بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں کی روح ہے حتیٰ کہ وہ اسے لے کر آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں، اور اس کے لیے دروازہ کھولنے کی اجازت طلب کرتے ہیں، تو وہ ان کے لیے کھول دیا جاتا ہے، پھر ہر آسمان کے مقرب فرشتے اگلے آسمان تک اس کے ساتھ جاتے ہیں حتیٰ کہ اسے ساتویں آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے کا نامۂ اعمال علّیین میں لکھ دو اور اسے واپس دنیا کی طرف لے جاؤ کیونکہ میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا ہے، اسی میں انہیں لوٹاؤں گا اور دوبارہ پھر اسی سے انہیں نکالوں گا۔ فرمایا: اس کی روح اسی کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے تو دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر وہ پوچھتے ہیں: یہ آدمی جو تم میں مبعوث کیا گیا، کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، وہ پوچھتے ہیں: تمہیں کیسے پتہ چلا؟ وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی تو میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی، پس آسمان سے آواز آتی ہے: میرے بندے نے سچ کہا: اس کے لیے جنتی بچھونا بچھا دو، اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ فرمایا: وہاں سے ہوا کے جھونکے اور خوشبو اس کے پاس آتی ہے، اور حد نظر تک اس کی قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے۔ فرمایا: خوبصورت چہرے، خوبصورت لباس اور بہترین خوشبو والا ایک شخص اس کے پاس آتا ہے تو وہ کہتا ہے: اس چیز سے خوش ہو جا جو چیز تجھے خوش کر دے، یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا، تو وہ اس سے پوچھتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ بھلائی لانے والا چہرہ ہے، وہ جواب دیتا ہے: میں تیرا عمل صالح ہوں، وہ کہتا ہے: میرے رب! قیامت قائم فرما، میرے رب قیامت قائم فرما حتیٰ کہ میں اپنے اہل و مال کی طرف چلا جاؤں۔ فرمایا: جب کافر دنیا سے رابطہ منقطع کر کے آخرت کی طرف توجہ کرتا ہے تو سیاہ چہروں والے فرشتے بالوں سے بنا ہوا ایک کمبل لے کر آسمان سے نازل ہوتے ہیں، وہ اس سے حد نظر کے فاصلے تک بیٹھ جاتے ہیں، پھر ملک الموت تشریف لاتے ہیں حتیٰ کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: خبیث روح! اللہ کی ناراضی کی طرف چل، فرمایا: وہ (روح) اس کے جسد میں پھیل جاتی ہے، تو وہ اسے ایسے کھنچتا ہے جیسے لوہے کی سلاخ کو گیلے اون سے کھینچا جاتا ہے، وہ (ملک الموت) اسے اخذ کر لیتا ہے، جب وہ اسے اخذ کرتا ہے تو وہ (فرشتے) پلک جھپکنے کے برابر بھی اسے اس کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے حتیٰ کہ وہ اسے اس بالوں سے بنے ہوئے کمبل میں لپیٹ لیتے ہیں، اور اس سے زمین کے مردار سے نکلنے والی انتہائی بری بدبو نکلتی ہے، وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں، کیسی خبیث روح ہے؟ وہ کہتے ہیں: فلاں بن فلاں کی، اور وہ اس کا دنیا کا انتہائی قبیح نام لے کر بتاتے ہیں، حتیٰ کہ اسے آسمان دنیا تک لے جایا جاتا ہے، اس کے لیے دروازے کھولنے کے لیے درخواست کی جاتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ان کے لیے آسمان کے روازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں بھی داخل نہیں ہوں گے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے گزر جائے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: اس کی کتاب کو سب سے نچلی زمین میں سجین میں لکھ دو، پھر اس کی روح کو شدت کے ساتھ پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا، تو اب پرندے اسے اچک لیں یا ہوا اسے کسی دور جگہ پر پھینک دے۔ اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ حیرت زدہ ہو کر کہتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ حیرت زدہ ہو کر کہتا ہے: ہائے! افسوس! میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں: یہ شخص جو تم میں مبعوث کیا گیا کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: ہائے! افسوس! میں نہیں جانتا، آسمان سے آواز آتی ہے، اس نے جھوٹ بولا، اس کے لیے جہنم سے بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو، وہاں سے گرمی اور گرم ہوا اسے آتی رہے گی اور اس کی قبر کو اس قدر تنگ کر دیا جائے گا کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری کے اندر داخل ہو جائیں گی، اور ایک قبیح چہرے والا شخص، قبیح لباس اور انتہائی بدبودار حالت میں اس کے پاس آئے گا اور اسے کہے گا: تمہیں ایسی چیزوں کی خوشخبری ہو جو تجھے غم زدہ کر دیں، یہ تیرا وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا، وہ پوچھے گا تو کون ہے؟ تیرے چہرے سے کسی خیر کی توقع نہیں، وہ جواب دے گا: میں تیرا خبیث عمل ہوں، تو وہ کہے گا: میرے رب! قیامت قائم نہ کرنا۔ ایک دوسری روایت میں بھی اسی طرح ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے: جب اس (مومن) کی روح نکلتی ہے تو زمین و آسمان کے مابین اور آسمان کے تمام فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا طلب کرتے ہیں، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ہر دروازے والے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی روح ان کی طرف سے بلند کی جائے، اور اس یعنی کافر کی روح رگوں سمیت کھینچی جاتی ہے اور زمین و آسمان کے مابین والے تمام فرشتے اور آسمان والے تمام فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں، آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور تمام دربان فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی روح کو ہماری طرف سے بلند نہ کیا جائے۔ صحیح، رواہ احمد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه أحمد (287/4. 288 ح 18733) و أبو داود (4753) [و صححه البيھقي في شعب الإيمان (395 واثبات عذاب القبر)]»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے آخری وقت کا بیان
حدیث نمبر: 1631
Save to word اعراب
وعن عبد الرحمن بن كعب عن ابيه قال: لما حضرت كعبا الوفاة اتته ام بشر بنت البراء بن معرور فقالت: يا ابا عبد الرحمن إن لقيت فلانا فاقرا عليه مني السلام. فقال: غفر الله لك يا ام بشر نحن اشغل من ذلك فقالت: يا ابا عبد الرحمن اما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن ارواح المؤمنين في طير خضر تعلق بشجر الجنة؟» قال: بلى. قالت: فهو ذاك. رواه ابن ماجه والبيهقي في كتاب البعث والنشور وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ كَعْبًا الْوَفَاةُ أَتَتْهُ أُمُّ بِشْرٍ بِنْتُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ فَقَالَتْ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنْ لَقِيتَ فُلَانًا فَاقْرَأْ عَلَيْهِ مِنِّي السَّلَامَ. فَقَالَ: غَفَرَ اللَّهُ لَكِ يَا أُمَّ بِشْرٍ نَحْنُ أَشْغَلُ مِنْ ذَلِكَ فَقَالَتْ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: «إِنَّ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَعْلُقُ بِشَجَرِ الْجَنَّةِ؟» قَالَ: بَلَى. قَالَتْ: فَهُوَ ذَاكَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي كِتَابِ الْبَعْثِ والنشور
عبدالرحمٰن بن کعب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب کعب رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت ہوا تو ام بشر بنت براء بن معرور رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئیں، تو انہوں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! اگر تم فلاں (ان کے باپ براء کی روح) سے ملاقات کرو تو اسے میرا سلام کہنا، انہوں نے کہا: ام بشیر! اللہ آپ کو معاف فرمائے، ہمیں اس کی فرصت کہاں ملے گی، ام بشیر نے فرمایا: ابوعبدالرحمٰن! کیا آپ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا: مومنوں کی روحیں سبز پرندوں (کے جسم میں) جنت کے درختوں سے کھاتی ہوں گی۔ انہوں نے کہا: ہاں! سنا ہے۔ تو ام بشیر نے فرمایا: پس یہی وہ ہے۔ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه ابن ماجه (1449) والبيھقي في کتاب البعث والنشور (223. 226)
٭ محمد بن إسحاق مدلس و لم أجد تصريح سماعه فالسند ضعيف و لأصل الحديث شواھد عند أحمد (424/6. 425و 455/3) وغيره»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
--. مومن کی روح جنت میں پروندوں کی شکل میں ہوتی ہے
حدیث نمبر: 1632
Save to word اعراب
وعن عبد الرحمن بن كعب عن ابيه قال: انه كان يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إنا نسمة المؤمن طير طير تعلق في شجر الجنة حتى يرجعه الله في جسده يوم يبعثه» . رواه مالك والنسائي والبيهقي في كتاب البعث والنشور وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّا نسمَة الْمُؤمن طير طَيْرٌ تَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهُ اللَّهُ فِي جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ» . رَوَاهُ مَالِكٌ وَالنَّسَائِيّ وَالْبَيْهَقِيّ فِي كتاب الْبَعْث والنشور
عبدالرحمٰن بن کعب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن کی روح پرندے کی شکل میں جنت کے درخت سے کھاتی ہے حتیٰ کہ اللہ جس روز اسے اٹھائے گا تو اسے اس کے جسم میں لوٹا دے گا۔ صحیح، رواہ مالک و النسائی و البیھقی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه مالک (240/1 ح 569 وھو حديث صحيح) والنسائي (108/4 ح 2075) والبيھقي في البعث والنشور (224)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.