وعن البراء ان النبي صلى الله عليه وسلم نوول يوم العيد قوسا فخطب عليه. رواه ابو داود وَعَنِ الْبَرَاءِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُووِلَ يَوْمَ الْعِيدِ قَوْسًا فَخَطَبَ عَلَيْهِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عید کے روز نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک کمان پیش کی گئی تو آپ نے اس پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (1145) ٭ أبو جناب ضعيف و حديث أبي داود (1096) يغني عنه.»
وعن عطاء مرسلا ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا خطب يعتمد على عنزته اعتمادا. رواه الشافعي وَعَنْ عَطَاءٍ مُرْسَلًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَطَبَ يَعْتَمِدُ عَلَى عنزته اعْتِمَادًا. رَوَاهُ الشَّافِعِي
عطاء ؒ مرسل روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ اپنے چھوٹے نیزے پر ٹیک لگاتے تھے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الشافعي في مسنده (ص 77 ح 341) والأم (238/1) ٭ فيه إبراهيم الأسلمي متروک متھم و ليث بن أبي سليم ضعيف مدلس مختلط.»
وعن جابر قال: شهدت الصلاة مع النبي صلى الله عليه وسلم في يوم عيد فبدا بالصلاة قبل الخطبة بغير اذان ولا إقامة فلما قضى الصلاة قام متكئا على بلال فحمد الله واثنى عليه ووعظ الناس وذكرهم وحثهم على طاعته ثم قال: ومضى إلى النساء ومعه بلال فامرهن بتقوى الله ووعظهن وذكرهن. رواه النسائي وَعَن جَابر قَالَ: شَهِدْتُ الصَّلَاةِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَامَ مُتَّكِئًا عَلَى بِلَالٍ فَحَمَدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ وَحَثَّهُمْ على طَاعَته ثمَّ قَالَ: وَمَضَى إِلَى النِّسَاءِ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِتَقْوَى الله ووعظهن وذكرهن. رَوَاهُ النَّسَائِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عید کے روز نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے خطبہ سے پہلے اذان و اقامت کے بغیر نماز پڑھی، جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلال رضی اللہ عنہ پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، انہیں یاد دہانی کرائی، اور اپنی اطاعت کی ترغیب دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ خواتین کی طرف گئے تو انہیں اللہ کا تقوی اختیار کرنے کا حکم فرمایا اور وعظ و نصیحت کی اور یاد دہانی کرائی۔ صحیح، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه النسائي (186/3. 187 ح 1576) [و مسلم (885/4) والبخاري (978)]»
وعن ابي هريرة قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خرج يوم العيد في طريق رجع في غيره. رواه الترمذي والدارمي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ فِي طَرِيقٍ رَجَعَ فِي غَيْرِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ والدارمي
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عید کے لیے تشریف لے جاتے تو آپ ایک راستے سے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس آتے۔ صحیح، رواہ الترمذی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (541 وقال: حسن غريب) والدارمي (378/1 ح 1621) [وابن ماجه (1301) و علقه البخاري (986) و صححه ابن حبان (الإحسان: 2804) وابن خزيمة (1468) والحاکم علٰي شرط الشيخين (296/1) ووافقه الذهبي وللحديث شواھد کثيرة.]»
وعن ابي هريرة انه اصابهم مطر في يوم عيد فصلى بهم النبي صلى الله عليه وسلم صلاة العيد في المسجد. رواه ابو داود وابن ماجه وَعَن أبي هُرَيْرَة أَنَّهُ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَصَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِيدِ فِي الْمَسْجِدِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عید کے روز بارش ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز عید مسجد میں پڑھائی۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1160) و ابن ماجه (1313) ٭ عيسي بن عبد الأعلي: مجھول و عبيد الله بن عبد الله بن موھب: مستور (أي مجھول الحال)»
وعن ابي الحويرث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى عمرو بن حزم وهو بنجران عجل الاضحى واخر الفطر وذكر الناس. رواه الشافعي وَعَن أبي الْحُوَيْرِث أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَهُوَ بِنَجْرَانَ عَجِّلِ الْأَضْحَى وَأَخِّرِ الْفِطْرَ وَذَكِّرِ النَّاسَ. رَوَاهُ الشَّافِعِي
ابوالحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے نام نجران خط لکھا کہ عید الاضحی کی نماز جلدی پڑھو اور عید الفطر کی نماز دیر سے پڑھو اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الشافعي (في مسنده ص 74 ح 322 والأم 232/1 و مختصر المزني ص 361) ٭ فيه إبراهيم الأسلمي متروک متھم.»
وعن ابي عمير بن انس عن عمومة له من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: ان ركبا جاءوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشهدون انهم راوا الهلال بالامس ن فامرهم ان يفطروا وإذا اصبحوا ان يغدو إلى مصلاهم. رواه ابو داود والنسائي وَعَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَكْبًا جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْهَدُونَ أَنَّهُمْ رَأَوُا الْهِلَالَ بالْأَمْس ن فَأَمرهمْ أَن يفطروا وَإِذا أَصْبحُوا أَن يَغْدُو إِلَى مصلاهم. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
ابوعمیر بن انس اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے، کہ کچھ سوار نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے کل چاند دیکھا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں روزہ افطار کرنے کا حکم فرمایا، اور انہیں فرمایا کہ کل عید گاہ پہنچیں۔ صحیح، رواہ ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (1157) والنسائي (180/3 ح 1558) [وابن ماجه: 1653]»
عن ابن جريج قال: اخبرني عطاء عن ابن عباس وجابر ابن عبد الله قالا: لم يكن يؤذن يوم الفطر ولا يوم الاضحى ثم سالته يعني عطاء بعد حين عن ذلك فاخبرني قال: اخبرني جابر بن عبد الله ان لا اذان للصلاة يوم الفطر حين يخرج الإمام ولا بعد ما يخرج ولا إقامة ولا نداء ولا شيء لا نداء يومئذ ولا إقامة. رواه مسلم عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ عَنِ ابْن عَبَّاس وَجَابِر ابْن عَبْدِ اللَّهِ قَالَا: لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَلَا يَوْمَ الْأَضْحَى ثُمَّ سَأَلْتُهُ يَعْنِي عَطَاءً بَعْدَ حِينٍ عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرَنِي قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنْ لَا أَذَانَ لِلصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ حِينَ يَخْرُجُ الْإِمَامُ وَلَا بعد مَا يَخْرُجُ وَلَا إِقَامَةَ وَلَا نِدَاءَ وَلَا شَيْءَ لَا نِدَاءَ يَوْمَئِذٍ وَلَا إِقَامَةَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابن جریج ؒ بیان کرتے ہیں، عطاء ؒ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے مجھے بتایا، انہوں نے فرمایا: عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے اذان نہیں کہی جاتی تھی۔ پھر میں نے کچھ مدت بعد عطاء سے اس بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے مجھے بتاتے ہوئے کہا: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ نماز عید الفطر کے لیے، امام کے آنے سے پہلے یا اس کے آنے کے بعد کوئی اذان نہیں ہوتی تھی، اذان و اقامت والی کوئی چیز ہی نہیں تھی، اس روز اذان تھی نہ اقامت۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (886/5)»
وعن ابي سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخرج يوم الاضحى ويم الفطر فيبدا بالصلاة فإذا صلى صلاته قام فاقبل عل الناس وهم جلوس في مصلاهم فإن كانت له حاجة ببعث ذكره للناس او كانت له حاجة بغير ذلك امرهم بها وكان يقول: «تصدقوا تصدقوا تصدقوا» . وكان اكثر من يتصدق النساء ثم ينصرف فلم يزل كذلك حتى كان مروان ابن الحكم فخرجت مخاصرا مروان حتى اتينا المصلى فإذا كثير بن الصلت قد بنى منبرا من طين ولبن فإذا مروان ينازعني يده كانه يجرني نحو المنبر وانا اجره نحو الصلاة فلما رايت ذلك منه قلت: اين الابتداء بالصلاة؟ فقال: لا يا ابا سعيد قد ترك ما تعلم قلت: كلا والذي نفسي بيده لا تاتون بخير مما اعلم ثلاث مرات ثم انصرف. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْأَضْحَى ويم الْفِطْرِ فَيَبْدَأُ بِالصَّلَاةِ فَإِذَا صَلَّى صَلَاتَهُ قَامَ فَأقبل عل النَّاسِ وَهُمْ جُلُوسٌ فِي مُصَلَّاهُمْ فَإِنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَة ببعث ذِكْرَهُ لِلنَّاسِ أَوْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ بِغَيْرِ ذَلِكَ أَمَرَهُمْ بِهَا وَكَانَ يَقُولُ: «تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا» . وَكَانَ أَكْثَرَ مَنْ يَتَصَدَّقُ النِّسَاءُ ثُمَّ ينْصَرف فَلم يزل كَذَلِك حَتَّى كَانَ مَرْوَان ابْن الْحَكَمِ فَخَرَجْتُ مُخَاصِرًا مَرْوَانَ حَتَّى أَتَيْنَا الْمُصَلَّى فَإِذَا كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ قَدْ بَنَى مِنْبَرًا مِنْ طِينٍ وَلَبِنٍ فَإِذَا مَرْوَانُ يُنَازِعُنِي يَدَهُ كَأَنَّهُ يَجُرُّنِي نَحْوَ الْمِنْبَرِ وَأَنَا أَجُرُّهُ نَحْوَ الصَّلَاة فَلَمَّا رَأَيْت ذَلِكَ مِنْهُ قُلْتُ: أَيْنَ الِابْتِدَاءُ بِالصَّلَاةِ؟ فَقَالَ: لَا يَا أَبَا سَعِيدٍ قَدْ تُرِكَ مَا تَعْلَمُ قُلْتُ: كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تأتون بِخَير مِمَّا أعلم ثَلَاث مَرَّات ثمَّ انْصَرف. رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الاضحی اور عید الفطر کے لیے تشریف لاتے تو آپ سب سے پہلے نماز پڑھتے، جب آپ نماز پڑھ لیتے تو آپ کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے، جبکہ لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے تھے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی لشکر بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے اس کا تذکرہ فرماتے، یا اس کے علاوہ کوئی اور ضرورت ہوتی تو آپ اس کے متعلق انہیں حکم فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”صدقہ کرو، صدقہ کرو، صدقہ کرو۔ “ اور خواتین سب سے زیادہ صدقہ کیا کرتی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے جاتے، یہ معمول ایسے ہی رہا حتیٰ کہ مروان بن حکم کا دور حکومت آیا تو میں مروان کی کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز عید کے لیے روانہ ہوا حتیٰ کہ ہم عید گاہ پہنچ گئے، وہاں دیکھا کہ کثیر بن صلت ؒ نے گارے اور اینٹوں سے ایک منبر تیار کر رکھا تھا، مروان مجھ سے اپنا ہاتھ کھینچ رہا تھا گویا وہ مجھے منبر کی طرف لے جانا چاہتا تھا جبکہ میں اسے نماز کی طرف لانا چاہتا تھا، جب میں نے اس کا یہ عزم دیکھا تو میں نے کہا: نماز سے ابتدا کرنا کہاں چلا گیا؟ اس نے کہا: نہیں، ابوسعید! جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہ وہ طریقہ متروک ہو چکا، میں نے کہا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرے علم کے مطابق تم خیرو بھلائی پر نہیں ہو، انہوں نے تین مرتبہ ایسے ہی فرمایا پھر وہ منبر سے دور چلے گئے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (889/9)»
عن انس قال: ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين املحين اقرنين ذبحهما بيده وسمى وكبر قال: رايته وضاعا قدمه على صفاحهما ويقول: «بسم الله والله اكبر» عَن أنس قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وَسَمَّى وَكبر قَالَ: رَأَيْته وضاعا قَدَمَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا وَيَقُولُ: «بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أكبر»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ”بسم اللہ و اللہ اکبر“ پڑھ کر اپنے دست مبارک سے چتکبرے، سینگوں والے دو مینڈھے ذبح کیے۔ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ان کے پہلو پر اپنا قدم رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھ رہے تھے: ((بسم اللہ و اللہ اکبر))۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5564) و مسلم (1966/18)»