وعن معاذ بن جبل قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك: إذا زاغت الشمس قبل ان يرتحل جمع بين الظهر والعصر وإن ارتحل قبل ان تزيغ الشمس اخر الظهر حتى ينزل للعصر وفي المغرب مثل ذلك إذا غاب الشمس قبل ان يرتحل جمع بين المغرب والعشاء وإن ارتحل قبل ان تغيب الشمس اخر المغرب حتى ينزل للعشاء ثم يجمع بينهما. رواه ابو داود والترمذي وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ: إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَإِنِ ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعَصْرِ وَفِي الْمَغْرِبِ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا غَابَ ِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَإِنِ ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعِشَاءِ ثُمَّ يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک (کے سفر) میں جب آپ کے کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر و عصر کو جمع کر لیتے اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کرتے حتیٰ کہ عصر کے لیے پڑاؤ ڈالتے۔ اسی طرح مغرب میں کرتے کہ جب کوچ کرنے سے پہلے سورج غروب ہو جاتا تو آپ مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھ لیتے اور اگر غروب آفتاب سے پہلے کوچ کر لیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مغرب کو مؤخر فرماتے حتیٰ کہ نماز عشاء کے لیے پڑاؤ ڈالتے۔ پھر انہیں جمع فرما لیتے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (1220) والترمذي (553 وقال: حسن غريب تفرد به قتيبة) ٭ قتيبة ثقة حافظ ولا يضر تفرده.»
وعن انس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سافر واراد ان يتطوع استقبل القبلة بناقته فكبر ثم صلى حيث وجهه ركابه. رواه ابو داود وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ وَأَرَادَ أَنْ يَتَطَوَّعَ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ بِنَاقَتِهِ فَكَبَّرَ ثُمَّ صَلَّى حَيْثُ وَجهه ركابه. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوران سفر نفل پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو آپ اپنی سواری پر قبلہ رخ ہو کر تکبیر کہہ کر نماز پڑھتے اور سواری جس رخ چاہتی چلتی جاتی۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1225)»
وعن جابر قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة فجئت وهو يصلي على راحلته نحو المشرق ويجعل السجود اخفض من الركوع. رواه ابو داود وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ فَجِئْتُ وَهُوَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَيَجْعَلُ السُّجُودَ أَخفض من الرُّكُوع. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کسی کام کے لیے مجھے بھیجا۔ جب میں آیا تو آپ اپنی سواری پر مشرق کی سمت نماز پڑھ رہے تھے۔ اور آپ رکوع کی نسبت سجود کے لیے زیادہ جھک کر اشارہ کرتے تھے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (1227) [والبيھقي (5/2) و مسلم (540)]»
عن ابن عمر قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين وابو بكر بعده وعمر بعد ابي بكر وعثمان صدرا من خلافته ثم إن عثمان صلى بعد اربعا فكان ابن عمر إذا صلى مع الإمام صلى اربعا وإذا صلاها وحده صلى ركعتين عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمنى رَكْعَتَيْنِ وَأَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ وَعُمَرُ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ وَعُثْمَانُ صَدَرًا مِنْ خِلَافَتِهِ ثُمَّ إِنَّ عُثْمَانَ صَلَّى بَعْدُ أَرْبَعًا فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ صَلَّى أَرْبَعًا وَإِذَا صلاهَا وَحده صلى رَكْعَتَيْنِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منیٰ میں دو رکعتیں (یعنی نماز قصر) پڑھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے ابتدائی سالوں میں دو رکعتیں ہی پڑھیں۔ پھر اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکعتیں پڑھیں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہ امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو آپ چار رکعتیں (مکمل نماز) پڑھتے اور جب اکیلے پڑھتے تو پھر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1082) و مسلم (694/16)»
وعن عائشة قالت: فرضت الصلاة ركعتين ثم هاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم ففرضت اربعا وتركت صلاة السفر على الفريضة الاولى. قال الزهري: قلت لعروة: ما بال عائشة تتم؟ قال: تاولت كما تاول عثمان وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: فُرِضَتِ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ هَاجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُرِضَتْ أَرْبَعًا وَتُرِكَتْ صَلَاةُ السَّفَرِ عَلَى الْفَرِيضَةِ الْأُولَى. قَالَ الزُّهْرِيُّ: قُلْتُ لِعُرْوَةَ: مَا بَال عَائِشَة تتمّ؟ قَالَ: تأولت كَمَا تَأَول عُثْمَان
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، شروع میں نماز دو رکعتیں فرض کی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی تو دو سے چار رکعتیں فرض کر دی گئی۔ اور نماز سفر کو پہلی حالت فرضیت پر برقرار رکھا گیا۔ زہری ؒ بیان کرتے ہیں، میں نے عروہ ؒ سے کہا، عائشہ رضی اللہ عنہ کو کیا ہوا کہ وہ پوری پڑھتی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھی عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح تاویل کی ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (350) و مسلم (685/1)»
وعن ابن عباس قال: فرض الله الصلاة على لسان نبيكم صلى الله عليه وسلم في الحضر اربعا وفي السفر ركعتين وفي الخوف ركعة. رواه مسلم وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَرَضَ اللَّهُ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَفِي الْخَوْف رَكْعَة. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر حضر میں چار رکعتیں، سفر میں دو رکعتیں اور حالت خوف میں ایک رکعت فرض کی۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (687/6)»
وعن ابن عباس وعن ابن عمر قالا: سن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة السفر ركعتين وهما تمام غير قصر والوتر في السفر سنة. رواه ابن ماجه وَعَن ابْن عَبَّاس وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَا: سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ وَالْوِتْرُ فِي السَّفَرِ سنة. رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز سفر دو رکعت مشروع فرمائی اور وہ دو رکعت (ثواب کے لحاظ سے) پوری ہیں، کم نہیں جبکہ دوران سفر وتر پڑھنا سنت ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (1194) ٭ فيه جابر الجعفي وھو ضعيف جدًا.»
وعن مالك بلغه ان ابن عباس كان يقصر في الصلاة في مثل ما يكون بين مكة والطائف وفي مثل ما يكون بين مكة وعسفان وفى مثل ما بين مكة وجدة قال مالك: وذلك اربعة برد. رواه في الموطا وَعَن مَالك بَلَغَهُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يَقْصُرُ فِي الصَّلَاة فِي مثل مَا يكون بَين مَكَّة والطائف وَفِي مثل مَا يكون بَيْنَ مَكَّةَ وَعُسْفَانَ وَفَى مِثْلِ مَا بَيْنَ مَكَّةَ وَجُدَّةَ قَالَ مَالِكٌ: وَذَلِكَ أَرْبَعَةُ بُرُدٍ. رَوَاهُ فِي الْمُوَطَّأ
امام مالک ؒ بیان کرتے ہیں مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ مکہ اور طائف، مکہ اور عسفان اور مکہ اور جدہ کے درمیان مسافت جتنے فاصلے پر قصر پڑھا کرتے تھے۔ اور امام مالک نے فرمایا: اور یہ چار بُرد مسافت ہے۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه مالک (148/1ح 341) ٭ السند منقطع و له شواھد عند ابن أبي شيبة (443/2. 446 ح 8119، 8133، 8135، 8128، 8140، 8142، 8147) و عبد الرزاق (4296) وغيرهما.»
وعن البراء قال: صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثمانية عشر سفرا فما رايته ترك ركعتين إذا زاغت الشمس قبل الظهر. رواه ابو داود والترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَن الْبَراء قَالَ: صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَفَرًا فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَكَ رَكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ مرتبہ شریک سفر رہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج ڈھلنے کے بعد نماز ظہر سے پہلے دو رکعتیں چھوڑتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ ابوداؤد، ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1222) والترمذي (550) [و صححه الحاکم علٰي شرط الشيخين (315/1) ووافقه الذهبي.]»
وعن نافع قال: إن عبد الله بن عمر كان يرى ابنه عبيد الله يتنفل في السفر فلا ينكر عليه. رواه مالك وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَرَى ابْنَهُ عُبَيْدَ اللَّهِ يَتَنَفَّلُ فِي السَّفَرِ فَلَا يُنْكِرُ عَلَيْهِ. رَوَاهُ مَالِكٌ
نافع ؒ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے عبیداللہ کو دوران سفر نفل پڑھتے ہوئے دیکھتے تو آپ اس پر روک ٹوک نہیں کرتے تھے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه مالک (/150 ح 351) ٭ ھذا منقطع، من البلاغات.»