وعن ابي قتادة قالت: رايت النبي صلى الله عليه وسلم يؤم الناس وامامة بنت ابي العاص على عاتقه فإذا ركع وضعها وإذا رفع من السجود اعادها وَعَن أبي قَتَادَة قَالَتْ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّ النَّاسَ وَأُمَامَةُ بِنْتُ أَبِي الْعَاصِ عَلَى عَاتِقِهِ فَإِذَا رَكَعَ وَضَعَهَا وَإِذَا رَفَعَ مِنَ السُّجُودِ أَعَادَهَا
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کی امامت کراتے ہوئے دیکھا جبکہ (آپ کی نواسی) امامہ بنت ابی العاص آپ کے کندھے پر تھیں، جب آپ رکوع کرتے تو انہیں (کندھے سے) اتار دیتے اور جب سجدوں سے سر اٹھاتے تو پھر انہیں اٹھا لیتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (516) و مسلم (42/ 543)»
وعن ابي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا تثاءب احدكم فليكظم ما استطاع فإن الشيطان يدخل» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو دوران نماز جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے کیونکہ (منہ کھلا ہو تو) شیطان داخل ہو جاتا ہے۔ “ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (59/ 2996)»
وفي رواية البخاري عن ابي هريرة قال: إذا تثاءب احدكم في الصلاة فليكظم ما استطاع ولا يقل: ها فإنما ذلكم من الشيطان يضحك منه وَفِي رِوَايَةِ الْبُخَارِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: إِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ وَلَا يَقُلْ: هَا فَإِنَّمَا ذَلِكُمْ مِنَ الشَّيْطَان يضْحك مِنْهُ
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح بخاری کی روایت میں ہے: ”جب تم میں سے کسی شخص کو دوران نماز جمائی آئے، تو جس قدر ہو سکے اسے روکے، ہا ہا نہ کرے، یہ تو محض شیطان کی طرف سے ہے، وہ اس پر ہنستا ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (6226)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن عفريتا من الجن تفلت البارحة ليقطع علي صلاتي فامكنني الله منه فاخذته فاردت ان اربطه على سارية من سواري المسجد حتى تنظروا إليه كلكم فذكرت دعوة اخي سليمان: (رب هب لي ملكا لا ينبغي لاحد من بعدي) فرددته خاسئا وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ الْبَارِحَةَ لِيَقْطَعَ عَلَيَّ صَلَاتِي فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ فَأَخَذْتُهُ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ عَلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حَتَّى تَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ فَذَكَرْتُ دَعْوَةَ أَخِي سُلَيْمَانَ: (رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي) فَرَدَدْتُهُ خَاسِئًا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”گزشتہ رات اچانک ایک سرکش جن آیا تاکہ میری نماز خراب کر دے، لیکن اللہ نے مجھے اس پر اختیار عطا فرمایا تو میں نے اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنے کا ارادہ کیا حتیٰ کہ تم سب اسے دیکھ لیتے، تو پھر مجھے میرے بھائی سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی: میرے رب! مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے بعد کسی اور کے لائق نہ ہو، پس میں نے اسے ذلیل کر کے بھگا دیا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (461) و مسلم (39/ 541)»
وعن سهل بن سعد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «من نابه شيء في صلاته فليسبح فإنما التصفيق للنساء» وفي رواية: قال: «التسبيح للرجال والتصفيق للنساء» وَعَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ» وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: «التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ والتصفيق للنِّسَاء»
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو نماز میں کوئی عارضہ پیش آ جائے تو وہ ”سبحان اللہ“ کہے، ہاتھ پر ہاتھ مارنا تو خواتین کے لیے ہے۔ “ متفق علیہ۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے جبکہ ہاتھ پر ہاتھ مارنا خواتین کے لیے ہے۔ “
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (684) [الرواية الأولٰي] 1203 [الرواية الثانية] و مسلم (102/ 421)»
عن عبد الله بن مسعود قال: كنا نسلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة قبل ان ناتي ارض الحبشة فيرد علينا فلما رجعنا من ارض الحبشة اتيته فوجدته يصلي فسلمت عليه فلم يرد علي حتى إذا قضى صلاته قال: «إن الله يحدث من امره ما يشاء ن وإن مما احدث ان لا تتكلموا في الصلاة» . فرد علي السلام عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ أَنْ نَأْتِيَ أَرْضَ الْحَبَشَةِ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ أَتَيْتُهُ فَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ حَتَّى إِذَا قَضَى صَلَاتَهُ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ ن وَإِن مِمَّا أحدث أَن لَا تتكلموا فِي الصَّلَاة» . فَرد عَليّ السَّلَام
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہجرت حبشہ سے پہلے ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالت نماز میں سلام کیا کرتے تھے، اور آپ ہمیں سلام کا جواب دیا کرتے تھے، جب ہم سر زمین حبشہ سے واپس (مکہ) آئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے مجھے سلام کا جواب نہ دیا، حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز مکمل کر چکے تو فرمایا: ”اللہ جس طرح چاہتا ہے اپنا حکم ظاہر کرتا ہے، اور اب جو نیا حکم آیا ہے وہ یہ ہے کہ تم نماز میں بات نہ کرو۔ “ پھر آپ نے مجھے سلام کا جواب دیا۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (924)»
وقال: «إنما الصلاة لقراءة القرآن وذكر الله فإذا كنت فيها ليكن ذلك شانك» . رواه ابو داود وَقَالَ: «إِنَّمَا الصَّلَاةُ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللَّهِ فَإِذا كنت فِيهَا ليكن ذَلِك شَأْنك» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
اور فرمایا: ”نماز تو قراءت قرآن اور اللہ کے ذکر کے لیے ہے، پس جب تم اس (نماز) میں ہو تو تمہارے پیش نظر بھی یہی کچھ ہونا چاہیے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (931) [بغير ھذا اللفظ، والبيھقي (356/2) و اللفظ نحوه]»
وعن ابن عمر قال: قلت لبلال: كيف كان النبي صلى الله عليه وسلم يرد عليهم حين حانوا يسلمون عليه وهو في الصلاة؟ قال: كان يشير بيده. رواه الترمذي وفي رواية النسائي نحوه وعوض بلال صهيب وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِم حِين حانوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ؟ قَالَ: كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَفِي رِوَايَةِ النَّسَائِيِّ نَحوه وَعوض بِلَال صُهَيْب
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالت نماز میں سلام کیا کرتے تھے تو آپ انہیں کیسے جواب دیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کرتے تھے۔ ترمذی، نسائی کی روایت میں بھی اسی طرح ہے اور بلال کی جگہ صہیب کا ذکر کیا۔ صحیح، رواہ الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (368 وقال: ’’حسن صحيح‘‘ وسنده حسن) والنسائي (5/3 ح 1188 عن صھيب وھو حديث صحيح) [و صححه ابن خزيمة (888) و ابن حبان (الإحسان: 2258) والحاکم (3/ 12) ووافقه الذهبي.]»
وعن رفاعة بن رافع قال: صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فعطست فقلت الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف فقال: «من المتكلم في الصلاة؟» فلم يتكلم احد ثم قالها الثانية فلم يتكلم احد ثم قالها الثالثة فقال رفاعة: انا يا رسول الله. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده لقد ابتدرها بضعة وثلاثون ملكا ايهم يصعد بها» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي وَعَن رِفَاعَة بن رَافع قَالَ: صليت خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَطَسْتُ فَقلت الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ فَقَالَ: «مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ؟» فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَهَا الثَّالِثَةَ فَقَالَ رِفَاعَةُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدِ ابْتَدَرَهَا بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ مَلَكًا أَيُّهُمْ يَصْعَدُ بِهَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو مجھے چھینک آ گئی تو میں نے کہا: ہر قسم کی حمد اللہ کے لیے ہے، حمد بہت زیادہ، خالص اور با برکت، جیسے ہمارے رب کو پسند اور محبوب ہے، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھ کر ہماری طرف رخ کیا تو فرمایا: ”نماز میں بولنے والا کون تھا؟“ کسی نے جواب نہ دیا، پھر آپ نے دوسری مرتبہ پوچھا: تو پھر کسی نے جواب نہ دیا پھر آپ نے تیسری مرتبہ پوچھا تو رفاعہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے بات کی تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تیس سے کچھ زیادہ فرشتے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان میں سے کون انہیں اوپر لے کر چڑھتا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (404 وقال: حديث حسن) و أبو داود (773) والنسائي (145/2 ح 932)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «التثاؤب في الصلاة من الشيطان فإذا تثاءب احدكم فليكظم ما استطاع» . رواه الترمذي وفي اخرى له ولابن ماجه: «فليضع يده على فيه» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «التَّثَاؤُبُ فِي الصَّلَاةِ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَفِي أُخْرَى لَهُ وَلِابْنِ مَاجَهْ: «فَلْيَضَعْ يَدَهُ على فِيهِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دوران نماز جمائی آنا شیطان کی طرف سے ہے، پس جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ مقدور بھر اسے روکنے کی کوشش کرے۔ “ ترمذی اور اسی کی دوسری روایت اور ابن ماجہ میں ہے: ”وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے۔ “ صحیح۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (370 وقال: حسن صحيح، 1746) و ابن ماجه (968) [و للحديث شواھد عند البخاري (6223) وغيره.]»