وعن علي رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على اعواد المنبر يقول: «من قرا آية الكرسي في دبر كل صلاة لم يمنعه من دخول الجنة إلا الموت ومن قراها حين ياخذ مضجعه آمنه الله على داره ودار جاره واهل دويرات حوله» . رواه البيهقي في شعب الإيمان وقال إسناده ضعيف وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَعْوَاد الْمِنْبَرِ يَقُولُ: «مَنْ قَرَأَ آيَةَ الْكُرْسِيِّ فِي دبر كل صَلَاة لم يمنعهُ من دُخُولَ الْجَنَّةِ إِلَّا الْمَوْتُ وَمَنْ قَرَأَهَا حِينَ يَأْخُذُ مَضْجَعَهُ آمَنَهُ اللَّهُ عَلَى دَارِهِ وَدَارِ جَارِهِ وَأَهْلِ دُوَيْرَاتٍ حَوْلَهُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعب الْإِيمَان وَقَالَ إِسْنَاده ضَعِيف
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر کی سیڑھیوں پر فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھتا ہے تو اس کو دخول جنت سے صرف موت روکے ہوئے ہے اور جو شخص سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹتے وقت اسے پڑھتا ہے تو اللہ اس کے گھر کو، اس کے پڑوسی کے گھر اور اس کے آس پاس کے گھر والوں کو امن عطا کر دیتا ہے۔ “ بیہقی فی شعب الایمان، اور انہوں نے کہا: اس کی سند ضعیف ہے۔ اسنادہ موضوع۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده موضوع، رواه البيھقي في شعب الإيمان (2395) ٭ فيه نھشل بن سعيد: کذاب، و فيه علل أخري و لآية الکرسي حديث حسن عند النسائي في الکبري (9928) و عمل اليوم والليلة (100)»
وعن عبد الرحمن بن غنم عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: «من قال قبل ان ينصرف ويثني رجليه من صلاة المغرب والصبح لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد بيده الخير يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير عشر مرات كتب له بكل واحدة عشر حسنات ومحيت عنه عشر سيئات ورفع له عشر درجات وكانت حرزا من كل مكروه وحرزا من الشيطان الرجيم ولم يحل لذنب يدركه إلا الشرك وكان من افضل الناس عملا إلا رجلا يفضله يقول افضل مما قال» . رواه احمد وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ قَالَ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ وَيَثْنِيَ رِجْلَيْهِ مِنْ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ وَالصُّبْحِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ وَاحِدَةٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَمُحِيَتْ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ وَكَانَت حِرْزًا مِنْ كُلِّ مَكْرُوهٍ وَحِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم وَلم يحل لذنب يُدْرِكَهُ إِلَّا الشِّرْكُ وَكَانَ مِنْ أَفْضَلِ النَّاسِ عَمَلًا إِلَّا رَجُلًا يَفْضُلُهُ يَقُولُ أَفْضَلَ مِمَّا قَالَ» . رَوَاهُ أَحْمد
عبدالرحمٰن بن غنم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نماز مغرب اور نماز فجر پڑھنے کے بعد اپنی اسی جگہ اور اسی کیفیت (تشہد) میں بیٹھے ہوئے یہ دعا: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت اور اسی کے لیے ہر قسم کی حمد ہے اور ہر قسم کی خیرو بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ “ دس مرتبہ پڑھتا ہے تو اس کے ہر مرتبہ پڑھنے پر اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اس کے دس گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اس کے دس درجات بلند کر دیے جاتے ہیں، اور ہر ناگوار چیز سے اس کا بچاؤ ہو جاتا ہے، اور مردود شیطان سے اس کا بچاؤ ہو جاتا ہے، شرک کے علاوہ کوئی گناہ اسے ہلاک نہیں کر سکتا اور وہ سب سے بہترین عمل کرنے والا ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی شخص اس سے بہتر کلام سے دعا کرے۔ “ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (4/ 227 ح 18153، وسنده حسن) وانظر الحديث الآتي.»
وروى الترمذي نحوه عن ابي ذر إلى قوله: «إلا الشرك» ولم يذكر: «صلاة المغرب ولا بيده الخير» وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ نَحْوَهُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ إِلَى قَوْلِهِ: «إِلَّا الشِّرْكَ» وَلَمْ يَذْكُرْ: «صَلَاةَ الْمَغْرِبِ وَلَا بِيَدِهِ الْخَيْرُ» وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيح غَرِيب
امام ترمذی ؒ نے ((الا الشرک)) تک ابوذر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کیا ہے اور انہوں نے نماز مغرب اور ((بیدہ الخیر)) کا ذکر نہیں کیا، اور انہوں نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ حسن۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3474) ٭ شھر بن حوشب حسن الحديث و ثقه الجمھور کما حققته في تخريج النھاية في الفتن و الملاحم (260)»
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث بعثا قبل نجد فغنموا غنائم كثيرة واسرعوا الرجعة فقال رجل منا لم يخرج ما راينا بعثا اسرع رجعة ولا افضل غنيمة من هذا البعث فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «الا ادلكم على قوم افضل غنيمة وافضل رجعة؟ قوما شهدوا صلاة الصبح ثم جلسوا يذكرون الله حتى طلعت عليهم الشمس اولئك اسرع رجعة وافضل غنيمة» . رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه وحماد بن ابي حميد هو الضعيف في الحديث وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بَعْثًا قِبَلَ نَجْدٍ فَغَنِمُوا غَنَائِمَ كَثِيرَةً وَأَسْرَعُوا الرَّجْعَةَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَّا لَمْ يَخْرُجْ مَا رَأَيْنَا بَعْثًا أَسْرَعَ رَجْعَةً وَلَا أَفْضَلَ غَنِيمَةً مِنْ هَذَا الْبَعْثِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى قَوْمٍ أَفْضَلَ غَنِيمَةً وَأَفْضَلَ رَجْعَةً؟ قَوْمًا شَهِدُوا صَلَاةَ الصُّبْحِ ثمَّ جَلَسُوا يذكرُونَ الله حَتَّى طلعت عَلَيْهِم الشَّمْس أُولَئِكَ أسْرع رَجْعَة وَأَفْضَلَ غَنِيمَةً» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَحَمَّاد بن أبي حميد هُوَ الضَّعِيف فِي الحَدِيث
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا، انہوں نے بہت سا مال غنیمت حاصل کیا اور بہت جلد (مدینہ) واپس آ گئے تو ہم میں سے ایک آدمی نے کہا: ہم نے اس لشکر سے زیادہ مال غنیمت لے کر اور اتنی جلدی واپس آتے ہوئے کوئی لشکر نہیں دیکھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں زیادہ مال غنیمت کے ساتھ زیادہ جلدی واپس آنے والے لشکر کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ ایسے لوگ ہیں جو با جماعت فجر پڑھنے کے بعد بیٹھ کر طلوع آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، پس یہ وہ لوگ ہیں جو بہترین مال غنیمت لے کر بہت جلد واپس آنے والے ہیں۔ “ ترمذی، اور انہوں نے کہا: یہ حدیث غریب ہے، حماد بن ابی حمید راوی حدیث کے بارے میں ضعیف ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3561) [و للحديث شواھد ضعيفة.]»
عن معاوية ابن الحكم قال: بينا انا اصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ عطس رجل من القوم فقلت: يرحمك الله. فرماني القوم بابصارهم. فقلت: وا ثكل امياه ما شانكم تنظرون إلي فجعلوا يضربون بايديهم على افخاذهم فلما رايتهم يصمتونني لكني سكت فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فبابي هو وامي ما رايت معلما قبله ولا بعده احسن تعليما منه فوالله ما كهرني ولا ضربني ولا شتمني قال: «إن هذه الصلاة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن» او كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم. قلت: يا رسول الله إني حديث عهد بجاهلية وقد جاء الله بالإسلام وإن منا رجالا ياتون الكهان. قال: «فلا تاتهم» . قلت: ومنا رجال يتطيرون. قال: «ذاك شيء يجدونه في صدورهم فل ا يصدنهم» . قال قلت ومنا رجال يخطون. قال: «كان نبي من الانبياء يخط فمن وافق خطه فذاك» . رواه مسلم قوله: لكني سكت هكذا وجدت في صحيح مسلم وكتاب الحميدي وصحح في «جامع الاصول» بلفظة كذا فوق: لكني عَن مُعَاوِيَة ابْن الْحَكَمِ قَالَ: بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ. فَرَمَانِي الْقَوْم بِأَبْصَارِهِمْ. فَقلت: وَا ثكل أُمِّيَاهُ مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ: «إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ من كَلَام النَّاس إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ» أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قلت: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ وَقد جَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ. قَالَ: «فَلَا تَأْتِهِمْ» . قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ. قَالَ: «ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَل ا يَصُدَّنَّهُمْ» . قَالَ قُلْتُ وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ. قَالَ: «كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ قَوْلُهُ: لَكِنِّي سَكَتُّ هَكَذَا وُجِدَتْ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ وَكِتَابِ الْحُمَيْدِيِّ وَصُحِّحَ فِي «جَامِعِ الْأُصُولِ» بِلَفْظَةِ كَذَا فَوْقَ: لكني
معاویہ بن حکم بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس دوران لوگوں میں سے کسی آدمی نے چھینک مار دی، تو میں نے (دوران نماز) کہہ دیا: اللہ تم پر رحم کرے، لوگ مجھے آنکھوں کے اشارے سے روکنے لگے، میں نے کہا: میری ماں مجھے گم پائے، تمہیں کیا ہوا کہ تم مجھے اس طرح دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنا شروع کر دیے، چنانچہ جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھ لی، میرے والدین آپ پر قربان ہوں، میں نے آپ جیسا بہترین معلم آپ سے پہلے کوئی دیکھا ہے نہ آپ کے بعد، اللہ کی قسم! آپ نے مجھے ڈانٹا نہ مارا اور نہ ہی گالی دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جو نماز ہے اس میں لوگوں کا باتیں کرنا درست نہیں، یہ تو صرف تسبیح و تکبیر اور قراءت قرآن ہے۔ “ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نیا نیا مسلمان ہوا ہوں، اللہ نے ہمیں اسلام کی دولت سے نوازا ہے بے شک ہم میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو کاہنوں کے پاس جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کے پاس نہ جانا۔ “ میں نے عرض کیا، ہم میں سے کچھ لوگ فال لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ چیز ہے جو وہ اپنے سینوں میں پاتے ہیں، (اس کی کوئی دلیل نہیں) پس یہ چیز انہیں روکنے نہ پائے۔ “ میں نے عرض کیا، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک نبی بھی خط کھینچا کرتے تھے، پس جس کا خط ان کے موافق ہو گا تو وہ درست ہے۔ “ رواہ مسلم۔ (مؤلف فرماتے ہیں) کہ راوی کا یہ کہنا: ”لکنی سکت“ میں نے جملہ صحیح مسلم اور کتاب حمیدی میں اسی طرح دیکھا ہے، اور جامع الاصول میں اس کے ساتھ کزا کا لفظ تصحیح کے طور پر لایا گیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (33/ 537)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: كنا نسلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة فيرد علينا فلما رجعنا من عند النجاشي سلمنا عليه فلم يرد علينا فقلنا: يا رسول الله كنا نسلم عليك في الصلاة فترد علينا فقال: إن في الصلاة لشغلا وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فِي الصَّلَاةِ فَتَرُدُّ عَلَيْنَا فَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم دوران نماز نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا کرتے تھے اور آپ ہمیں جواب دے دیا کرتے تھے پس جب ہم نجاشی کے پاس سے واپس آئے تو ہم نے آپ کو سلام عرض کیا، لیکن آپ نے ہمیں جواب نہ دیا، تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم آپ کو دوران نماز سلام عرض کیا کرتے تھے اور آپ ہمیں جواب دیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک نماز ایک طرح کی مشغولیت (لا تعلقی) ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1199) و مسلم (34/ 538)»
وعن معيقيب عن النبي صلى الله عليه وسلم في الرجل يسوي التراب حيث يسجد؟ قال: «إن كنت فاعلا فواحدة» وَعَنْ مُعَيْقِيبٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّجُلِ يُسَوِّي التُّرَابَ حَيْثُ يَسْجُدُ؟ قَالَ: «إِنْ كُنْتَ فَاعِلًا فَوَاحِدَةً»
معیقیب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں روایت کرتے ہیں، جو سجدہ کی جگہ پر مٹی درست کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم نے ضرور ہی کرنا ہے تو پھر ایک مرتبہ کر لے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1207) و مسلم (47/ 546)»
وعن ابي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخصر في الصلاة وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَن الخصر فِي الصَّلَاة
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران نماز پہلو پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1220) و مسلم (46/ 545)»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الالتفات في الصلاة فقال: «هو اختلاس يختلسه الشيطان من صلاة العبد» وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ: «هُوَ اختلاس يختلسه الشَّيْطَان من صَلَاة العَبْد»
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو اچک لینا ہے، شیطان بندے کی نماز سے اچک لیتا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (751) و مسلم (لم أجده)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لينتهين اقوام عن رفعهم ابصارهم عند الدعاء في الصلاة إلى السماء او لتخطفن ابصارهم» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ رَفْعِهِمْ أَبْصَارَهُمْ عِنْدَ الدُّعَاءِ فِي الصَّلَاةِ إِلَى السَّمَاءِ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارهم» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو دوران نماز، دعا کے وقت اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھانے سے باز آ جانا چاہیے، یا ان کی آنکھیں اچک لی جائیں گی۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (118/ 429)»