وعن ابن عمر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يجلس الرجل في الصلاة وهو معتمد على يده. رواه احمد وابو داود وفي رواية له: نهى ان يعتمد الرجل على يديه إذا نهض في الصلاة وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَجْلِسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِهِ. رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: نَهَى أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدَيْهِ إِذا نَهَضَ فِي الصَّلَاة
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں ہاتھ کا سہارا لے کر بیٹھنے سے منع کیا کرتے تھے۔ احمد، ابوداؤد، اور انہی کی ایک روایت میں ہے: جب آدمی نماز میں کھڑا ہو تو اسے ہاتھوں کا سہارا لے کر کھڑا ہونے سے منع فرمایا۔ صحیح باللفظ الاول، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح باللفظ الأول، رواه أحمد (2/ 147 ح 6347 وسنده صحيح وھو اللفظ الأول) و أبو داود (992) ٭ قوله: ’’نھي أن يعتمد الرجل علٰي يديه إذا نھض في الصلٰوة‘‘ رواه أبو داود وسنده ضعيف، لا يصح، فيه محمد بن عبدالملک الغزال، لم يذکروا سماعه من عبد الرزاق قبل اختلاطه فالسند ضعيف و عبد الرزاق مدلس و عنعن في ھذا اللفظ.»
وعن عبد الله بن مسعود قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم في الركعتين الاوليين كانه على الرضف حتى يقوم. رواه الترمذي وابو داود والنسائي وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ حَتَّى يَقُومَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلی دو رکعتوں میں اس طرح بیٹھتے تھے جیسے گرم سنگ ریزوں پر بیٹھے ہوں حتیٰ کہ آپ کھڑے ہو جاتے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (366 وقال: حسن، إلا أن أبا عبيدة لم يسمع من أبيه.) و أبو داود (995) و النسائي (243/2 ح 1177) ٭ السند منقطع.»
عن جابر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا التشهد كما يعلمنا السورة من القرآن: «بسم الله وبالله التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله اسال الله الجنة واعوذ بالله من النار» . رواه النسائي عَن جَابِرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ من الْقُرْآن: «بِسم الله وَبِاللَّهِ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَسْأَلُ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس اہتمام سے) ہمیں تشہد سکھایا کرتے تھے جیسے ہمیں قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے: اللہ کے نام اور اللہ کی توفیق کے ساتھ، (میری ساری) قولی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں، اے نبی! آپ پر اللہ کی رحمت، سلامتی اور برکتیں ہوں، اور ہم پر اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں اللہ سے جنت طلب کرتا ہوں اور آگ (جہنم) سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه النسائي (2/ 243 ح 1176) ٭ أبو الزبير مدلس و لم أجد تصريح سماعه.»
وعن نافع قال: كان عبد الله بن عمر إذا جلس في الصلاة وضع يديه على ركبتيه واشار باصبعه واتبعها بصره ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لهي اشد على الشيطان من الحديد» . يعني السبابة. رواه احمد وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ وَأَتْبَعَهَا بَصَرَهُ ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَهِيَ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيدِ» . يَعْنِي السبابَة. رَوَاهُ أَحْمد
نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (تشہد کے لیے) نماز میں بیٹھتے تو وہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے، انگلی سے اشارہ کرتے اور اپنی نظر اس (اشارے یا انگلی) پر رکھتے، پھر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ یعنی انگشت شہادت شیطان پر لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (2/ 119 ح 6000)»
وعن ابن مسعود كان يقول: من السنة إخفاء التشهد. رواه ابو داود والترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ كَانَ يَقُولُ: مِنَ السُّنَّةِ إِخْفَاءُ التَّشَهُّدِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، تشہد آہستہ آواز سے پڑھنا مسنون ہے۔ ابوداؤد، ترمذی، اور انہوں نے کہا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ صحیح۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (986) والترمذي (291) ٭ وللحديث شواھد عند الحاکم (230/1) وغيره وھو بھا صحيح.»
وعن عبد الرحمن بن ابي ليلى قال: لقيني كعب بن عجرة فقال الا اهدي لك هدية سمعتها من النبي صلى الله عليه وسلم فقلت بلى فاهدها لي فقال سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلنا يا رسول الله كيف الصلاة عليكم اهل البيت فإن الله قد علمنا كيف نسلم عليكم قال: «قولوا اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد» . إلا ان مسلما لم يذكر على إبراهيم في الموضعين وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فَقَالَ أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ بَلَى فَأَهْدِهَا لِي فَقَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُم قَالَ: «قُولُوا اللَّهُمَّ صل عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حُمَيْدٌ مجيد اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حميد مجيد» . إِلَّا أَنَّ مُسْلِمًا لَمْ يَذْكُرْ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فِي الْمَوْضِعَيْنِ
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں، کعب بن عجرہ مجھے ملے تو انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ہدیہ پیش نہ کروں جسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا، میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پیش فرمائیں، انہوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتے ہوئے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم آپ کے اہل بیت پر کیسے درود بھیجیں؟ کیونکہ اللہ نے ہمیں یہ تو سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر کیسے سلام بھیجیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یوں کہو، الٰہی، رحمت فرما محمد پر اور آل محمد پر جس طرح تو نے رحمت فرمائی ابراہیم اور آل ابراہیم پر، بے شک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے، اے اللہ! برکت فرما محمد پر اور آل محمد پر جس طرح تو نے برکت فرمائی ابراہیم اور آل ابراہیم پر، بے شک تو تعریف والا بزرگی والا ہے۔ “ بخاری، مسلم۔ البتہ امام مسلم ؒ نے دو جگہوں پر ((علی ابراہیم)) ذکر نہیں کیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3370) و مسلم (66/ 406)»
وعن ابي حميد الساعدي قال: قالوا: يا رسول الله كيف نصلي عليك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قولوا: اللهم صلى الله عليه وسلم على محمد وازواجه وذريته كما صليت على آل إبراهيم وبارك على محمد وازواجه وذريته كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد وَعَن أبي حميد السَّاعِدِيِّ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ نصلي عَلَيْك؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُولُوا: اللَّهُمَّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حُمَيْدٌ مجيد
ابوحمید ساعدی بیان کرتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول! ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کہو، اے اللہ! محمد پر، ان کی ازواج پر اور ان کی اولاد پر رحمت فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر رحمت فرمائی، اور محمد پر، آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر برکت فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر برکت فرمائی، بے شک تو تعریف والا بزرگی والا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6360) و مسلم (69/ 407)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى علي واحدة صلى الله عليه عشرا» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عشرا» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (70/ 408)»
عن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى علي صلاة واحدة صلى الله عليه عشر صلوات وحطت عنه عشر خطيئات ورفعت له عشر درجات» . رواه النسائي عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اور اس کے دس درجات بلند کر دیے جاتے ہیں۔ “ صحیح، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه النسائي (3/ 50 ح 1298) [و صححه ابن حبان (2390) والحاکم (550/1) ووافقه الذهبي]»
وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اولى الناس بي يوم القيامة اكثرهم علي صلاة» . رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا شخص روز قیامت میرے سب سے زیادہ قریب ہو گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (484 وقال: حسن غريب.) [و صححه ابن حبان (2389) وحسنه البغوي في شرح السنة (3/ 196، 197 ح 686)] وللحديث شاھد. ٭ عبد الله بن کيسان: وثقه البغوي و ابن حبان فھو حسن الحديث.»