وعن عبد الرحمن بن ابي ليلى قال: لقيني كعب بن عجرة فقال الا اهدي لك هدية سمعتها من النبي صلى الله عليه وسلم فقلت بلى فاهدها لي فقال سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلنا يا رسول الله كيف الصلاة عليكم اهل البيت فإن الله قد علمنا كيف نسلم عليكم قال: «قولوا اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد» . إلا ان مسلما لم يذكر على إبراهيم في الموضعين وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فَقَالَ أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ بَلَى فَأَهْدِهَا لِي فَقَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُم قَالَ: «قُولُوا اللَّهُمَّ صل عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حُمَيْدٌ مجيد اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حميد مجيد» . إِلَّا أَنَّ مُسْلِمًا لَمْ يَذْكُرْ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فِي الْمَوْضِعَيْنِ
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں، کعب بن عجرہ مجھے ملے تو انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ہدیہ پیش نہ کروں جسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا، میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پیش فرمائیں، انہوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتے ہوئے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم آپ کے اہل بیت پر کیسے درود بھیجیں؟ کیونکہ اللہ نے ہمیں یہ تو سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر کیسے سلام بھیجیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یوں کہو، الٰہی، رحمت فرما محمد پر اور آل محمد پر جس طرح تو نے رحمت فرمائی ابراہیم اور آل ابراہیم پر، بے شک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے، اے اللہ! برکت فرما محمد پر اور آل محمد پر جس طرح تو نے برکت فرمائی ابراہیم اور آل ابراہیم پر، بے شک تو تعریف والا بزرگی والا ہے۔ “ بخاری، مسلم۔ البتہ امام مسلم ؒ نے دو جگہوں پر ((علی ابراہیم)) ذکر نہیں کیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3370) و مسلم (66/ 406)»