--. دوسری حدیث ابورافع رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دستی کا گوشت پیش کرنا
حدیث نمبر: 328
اعراب
ورواه الدارمي عن ابي عبيد إلا انه لم يذكر: ثم دعا بماء إلى آخره وَرَوَاهُ الدَّارِمِيُّ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ: ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ إِلَى آخِرِهِ
دارمی نے ابوعبید سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے: ”پھر پانی منگایا۔ “ سے آخر تک ذکر نہیں کیا۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الدارمي (22/1 ح 45) [و أحمد (3/ 484، 485 ح 16063) و الترمذي في الشمائل (168)] ٭ فيه قتادة مدلس و عنعن وانظر الحديث السابق (327)»
وعن انس بن مالك قال: كنت انا وابي وابو طلحة جلوسا فاكلنا لحما وخبزا ثم دعوت بوضوء فقالا لم تتوضا فقلت لهذا الطعام الذي اكلنا فقالا اتتوضا من الطيبات لم يتوضا منه من هو خير منك. رواه احمد وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَأَبِي وَأَبُو طَلْحَةَ جُلُوسًا فَأَكَلْنَا لَحْمًا وَخُبْزًا ثُمَّ دَعَوْتُ بِوَضُوءٍ فَقَالَا لِمَ تَتَوَضَّأُ فَقُلْتُ لِهَذَا الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْنَا فَقَالَا أَتَتَوَضَّأُ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَمْ يَتَوَضَّأْ مِنْهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْك. رَوَاهُ أَحْمد
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں، ابی بن کعب اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، پس ہم نے گوشت روٹی کھائی، پھر میں نے وضو کے لیے پانی منگایا، تو ان دونوں نے کہا: تم وضو کیوں کرتے ہو؟ میں نے کہا: اس کھانے کی وجہ سے جو ہم نے کھایا ہے، تو انہوں نے کہا: کیا تم پاکیزہ چیزوں سے وضو کرتے ہو؟ یہ چیزیں کھا کر تو اس شخصیت (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو نہیں کیا جو تم سے بہتر ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (4/ 30 ح 16479)»
--. آدمی کا اپنی اہلیہ کا بوسہ لینا اور اسے اپنے ہاتھ سے چھونا ملامسہ پر وضو کا بیان
حدیث نمبر: 330
اعراب
وعن ابن عمر كان يقول: قبلة الرجل امراته وجسها بيده من الملامسة. ومن قبل امراته او جسها بيده فعليه الوضوء. رواه مالك والشافعي وَعَن ابْن عمر كَانَ يَقُولُ: قُبْلَةُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَجَسُّهَا بِيَدِهِ مِنَ الْمُلَامَسَةِ. وَمَنْ قَبَّلَ امْرَأَتَهُ أَوْ جَسَّهَا بِيَدِهِ فَعَلَيهِ الْوضُوء. رَوَاهُ مَالك وَالشَّافِعِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: آدمی کا اپنی اہلیہ کا بوسہ لینا اور اسے اپنے ہاتھ سے چھونا ملامسہ کے زمرے میں ہے، اور جو شخص اپنی اہلیہ کا بوسہ لے یا اسے اپنے ہاتھ سے چھوئے تو اس پر وضو کرنا لازم ہے۔ صحیح، رواہ مالک و الشافعی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه مالک في الموطأ (1/ 43 ح 93) و الشافعي في الأم (1/ 15)»
وعن ابن مسعود كان يقول: من قبلة الرجل امراته الوضوء. رواه مالك وَعَن ابْن مَسْعُود كَانَ يَقُولُ: مِنْ قُبْلَةِ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ الْوُضُوءُ. رَوَاهُ مَالك
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اپنی اہلیہ کا بوسہ لینے سے وضو کرنا ضروری ہے۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه مالک في الموطأ (1/ 44 ح 94) ٭ و أخرجه البيھقي (1/ 124) بسند حسن عن ابن مسعود به و للأثر طرق.»
وعن ابن عمر ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: إن القبلة من اللمس فتوضؤوا منها وَعَن ابْن عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: إِن الْقبْلَة من اللَّمْس فتوضؤوا مِنْهَا
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک بوسہ لینا، لمس کے زمرے میں آتا ہے، پس اس (وجہ) سے وضو کرو۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه الدارقطني (1/ 144) ٭ الزھري مدلس و عنعن و فيه علة أخري و الصواب أنه من قول ابن عمر کما رواه مالک عن نافع عنه به، انظر الحديث السابق (330)»
وعن عمر بن عبد العزيز عن تميم الداري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الوضوء من كل دم سائل» . رواهما الدارقطني وقال: عمر بن عبد العزيز لم يسمع من تميم الداري ولا رآه ويزيد بن خالد ويزيد بن محمد مجهولان وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ تَمِيمِ الدَّارِيّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْوُضُوءُ مِنْ كُلِّ دَمٍ سَائِلٍ» . رَوَاهُمَا الدَّارَقُطْنِيُّ وَقَالَ: عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ وَلَا رَآهُ وَيَزِيدُ بن خَالِد وَيزِيد بن مُحَمَّد مَجْهُولَانِ
عمر بن عبدالعزیز ؒ تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہر قسم کے بہتے خون کی وجہ سے وضو کرنا ضروری ہے۔ “ دونوں حدیثوں کو دارقطنی نے روایت کیا، اور انہوں نے کہا: عمر بن عبدالعزیز ؒ نے تمیم داری رضی اللہ عنہ سے سنا نہ انہیں دیکھا، جبکہ یزید بن خالد اور یزید بن محمد دونوں مجہول ہیں۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الدارقطني (1/ 157 ح 571) ٭ بقية مدلس و عنعن و يزيد بن خالد و يزيد بن محمد مجھولان و فيه علل أخري.»
عن ابي ايوب الانصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا اتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها ولكن شرقوا او غربوا» قال الشيخ الإمام محيي السنة C: هذا الحديث في الصحراء واما في البنيان فلا باس لما روي: عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَتَيْتُمُ الْغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا» قَالَ الشَّيْخ الإِمَام محيي السّنة C: هَذَا الْحَدِيثُ فِي الصَّحْرَاءِ وَأَمَّا فِي الْبُنْيَانِ فَلَا بَأْس لما رُوِيَ:
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ کرو نہ پشت، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو۔ “ متفق علیہ۔ الشیخ الامام محی السنہ ؒ نے فرمایا: یہ حدیث صحراء کے بارے میں ہے، رہا عمارت وغیرہ میں قضائے حاجت کرنا تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (394) و مسلم (59/ 264) ٭ قول محيي السنة في مصابيح السنة (226)»
عن عبد الله بن عمر قال: ارتقيت فوق بيت حفصة لبعض حاجتي فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقضي حاجته مستدبر القبلة مستقبل الشام عَن عبد الله بن عمر قَالَ: ارْتَقَيْتُ فَوْقَ بَيْتِ حَفْصَةَ لِبَعْضِ حَاجَتِي فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقْضِي حَاجته مستدبر الْقبْلَة مُسْتَقْبل الشَّام
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اپنی کسی ضرورت کے تحت ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہ کے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کر کے قضائے حاجت کرتے ہوئے دیکھا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (148) و مسلم (62/ 266)»
وعن سلمان قال: نهانا يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نستقبل القبلة لغائط او بول او ان نستنتجي باليمين او ان نستنجي باقل من ثلاثة احجار او ان نستنجي برجيع او بعظم. رواه مسلم وَعَن سلمَان قَالَ: نَهَانَا يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ أَوْ بَوْل أَو أَن نستنتجي بِالْيَمِينِ أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ. رَوَاهُ مُسلم
سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بول و براز کے لیے قبلہ کی طرف منہ کرنے یا دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے یا تین سے کم ڈھیلوں سے استنجا کرنے یا لید یا ہڈی کے ساتھ استنجا کرنے سے ہمیں منع فرمایا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (57 / 262)»
وعن انس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء يقول: «اللهم إني اعوذ بك من الخبث والخبائث» وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخبث والخبائث»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت الخلا میں داخل ہوتے تو فرماتے: ”اے اللہ! میں ناپاک جنوں اور ناپاک مادہ جنات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (142) و مسلم (122 / 375)»