وعن عمار قال: جاء رجل إلى عمر بن الخطاب فقال: إني اجنبت فلم اصب الماء فقال عمار بن ياسر لعمر بن الخطاب اما تذكر انا كنا في سفر انا وانت فاما انت فلم تصل واما انا فتمعكت فصليت فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم إنما كان يكفيك هكذا فضرب النبي صلى الله عليه وسلم بكفيه الارض ونفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه. رواه البخاري ولمسلم نحوه وفيه قال: إنما يكفيك ان تضرب بيديك الارض ثم تنفخ ثم تمسح بهما وجهك وكفيك وَعَن عمار قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أُصِبِ الْمَاءَ فَقَالَ عمار بن يَاسر لعمر بن الْخطاب أَمَا تَذْكُرُ أَنَّا كُنَّا فِي سَفَرٍ أَنَا وَأَنْتَ فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أَنَا فتمعكت فَصليت فَذكرت للنَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم بكفيه الأَرْض وَنفخ فيهمَا ثمَّ مسح بهما وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُهُ وَفِيهِ قَالَ: إِنَّمَا يَكْفِيكَ أَنْ تَضْرِبَ بِيَدَيْكَ الْأَرْضَ ثمَّ تنفخ ثمَّ تمسح بهما وَجهك وكفيك
عمار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: میں جنبی ہو گیا ہوں، لیکن مجھے پانی نہیں ملا، (یہ سن کر) عمار نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو یاد نہیں، کہ ہم ایک مرتبہ سفر میں تھے، آپ نے نماز نہ پڑھی، جبکہ میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا، اور نماز پڑھ لی، پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے اس طرح کرنا کافی تھا۔ “ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور ان میں پھونک ماری، پھر ان سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا۔ بخاری۔ متفق علیہ۔ اور مسلم میں بھی اسی طرح ہے، اور اس میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے کافی تھا کہ تم اپنے ہاتھ زمین پر مارتے، پھر اس میں پھونک مارتے اور پھر ان کے ساتھ اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتے۔ “
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (338) و مسلم (112 / 368)»
وعن ابي الجهيم بن الحارث بن الصمة قال: مررت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يبول فسلمت عليه فلم يرد علي حتى قام إلى جدار فحته بعصى كانت معه ثم وضع يديه على الجدار فمسح وجهه وذراعيه ثم رد علي. ولم اجد هذه الرواية في الصحيحين ولا في كتاب الحميدي ولكن ذكره في شرح السنة وقال: هذا حديث حسن وَعَنْ أَبِي الْجُهَيْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ قَالَ: مَرَرْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ حَتَّى قَامَ إِلَى جِدَارٍ فَحَتَّهُ بِعَصًى كَانَتْ مَعَهُ ثُمَّ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى الْجِدَارِ فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ. وَلَمْ أَجِدْ هَذِهِ الرِّوَايَةَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَلَا فِي كِتَابِ الْحُمَيْدِيِّ وَلَكِنْ ذَكَرَهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ وَقَالَ: هَذَا حَدِيث حسن
ابوجہیم بن حارث بن صِمّہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرا، جبکہ آپ پیشاب کر رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے مجھے جواب نہ دیا، حتیٰ کہ آپ ایک دیوار کی طرف گئے اور اپنی لاٹھی سے اسے کریدا، پھر اپنے ہاتھ دیوار پر رکھے، اور اپنے چہرے اور بازؤں کا مسح کیا، پھر مجھے سلام کا جواب دیا۔ یہ روایت مجھے صحیحین میں ملی نہ کتاب الحمیدی میں، لیکن انہوں نے شرح السنہ میں اسے ذکر کیا ہے اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الحسين بن مسعود البغوي في شرح السنة (114/2، 115 ح 310 وقال: ھذا حديث حسن.!) [و رواه الشافعي في مسنده (45/1) والبيھقي (1/ 205)] ٭ فيه إبراهيم بن محمد بن أبي يحيي الأسلمي متروک متھم والسند منقطع والصواب: مسح وجھه و يده کما سيأتي (535)»
عن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الصعيد الطيب وضوء المسلم وإن لم يجد لاماء عشر سنين فغذا وجد الماء فليمسه بشره فإن ذلك خير» . رواه احمد والترمذي وابو داود وروى النسائي نحوه إلى قوله: عشر سنين عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ وَضُوءُ الْمُسلم وَإِن لم يجد لاماء عشر سِنِين فغذا وجد المَاء فليمسه بشره فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَرَوَى النَّسَائِيُّ نَحْوَهُ إِلَى قَوْلِهِ: عَشْرَ سِنِين
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پاک مٹی، مسلمان کے لیے وضو کے پانی کی طرح ہے خواہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے، لیکن جب پانی دستیاب ہو جائے تب اس سے اپنی جلد تر کرے کیونکہ یہ بہتر ہے۔ “ احمد، ترمذی، ابوداؤد اور امام نسائی نے «عشر سنين» تک اسی طرح روایت کیا ہے۔ حسن، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (5/ 155 ح 21698) والترمذي (124 وقال: حسن.) و أبو داود (332) والنسائي (171/1ح 323) [و صححه ابن خزيمة (2292) و ابن حبان (1308، 1309) والحاکم (1/ 176، 177) ووافقه الذهبي.]»
وعن جابر قال: خرجنا في سفر فاصاب رجلا منا حجر فشجه في راسه ثم احتلم فسال اصحابه فقال هل تجدون لي رخصة في التيمم فقالوا ما نجد لك رخصة وانت تقدر على الماء فاغتسل فمات فلما قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم اخبر بذلك فقال قتلوه قتلهم الله الا سالوا إذ لم يعلموا فإنما شفاء العي السؤال إنما كان يكفيه ان يتيمم ويعصر او يعصب شك موسى على جرحه خرقة ثم يمسح عليها ويغسل سائر جسده. رواه ابو داود وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: خَرَجْنَا فِي سَفَرٍ فَأَصَابَ رجلا منا حجر فَشَجَّهُ فِي رَأسه ثمَّ احْتَلَمَ فَسَأَلَ أَصْحَابه فَقَالَ هَل تَجِدُونَ لي رخصَة فِي التَّيَمُّم فَقَالُوا مَا نجد لَك رخصَة وَأَنت تقدر على الْمَاءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أخبر بذلك فَقَالَ قَتَلُوهُ قَتلهمْ الله أَلا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَن يتَيَمَّم ويعصر أَو يعصب شكّ مُوسَى عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِر جسده. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک سفر پر روانہ ہوئے تو ہم میں سے ایک آدمی کو پتھر لگا جس نے اس کا سر زخمی کر دیا، اور اسی دوران اسے احتلام ہو گیا، اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کرتے ہوئے کہا، کیا تم میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتے کیونکہ تمہیں پانی میسر ہے۔ پس اس نے غسل کیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی، جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ کو اس بارے میں بتایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے، جب انہیں مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے پوچھا کیوں نہ، لا علمی کا علاج پوچھ لینا ہے، اس کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ تیمم کرتا، زخم پر پٹی باندھ لیتا، پھر اس پر مسح کر لیتا اور باقی سارے جسم کو دھو لیتا۔ “ ابوداؤد۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (336) ٭ الزبير بن خريق: و ثقه ابن حبان وحده و ضعفه الدارقطني وغيره و ضعفه راجح.»
وعن ابي سعيد الخدري قال: خرج رجلان في سفر فحضرت الصلاة وليس معهما ماء فتيمما صعيدا طيبا فصليا ثم وجدا الماء في الوقت فاعاد احدهما الصلاة والوضوء ولم يعد الآخر ثم اتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرا ذلك له فقال للذي لم يعد: «اصبت السنة واجزاتك صلاتك» وقال للذي توضا واعاد: «لك الاجر مرتين» . رواه ابو داود والدارمي وروى النسائي نحوه وَعَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ قَالَ: خَرَجَ رَجُلَانِ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَيْسَ مَعَهُمَا مَاءٌ فَتَيَمَّمَا صَعِيدًا طَيِّبًا فَصَلَّيَا ثُمَّ وَجَدَا الْمَاءَ فِي الْوَقْتِ فَأَعَادَ أَحَدُهُمَا الصَّلَاة وَالْوُضُوء وَلَمْ يَعُدِ الْآخَرُ ثُمَّ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فذكرا ذَلِك لَهُ فَقَالَ لِلَّذِي لَمْ يُعِدْ: «أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ» وَقَالَ لِلَّذِي تَوَضَّأَ وَأَعَادَ: «لَكَ الْأَجْرُ مَرَّتَيْنِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ وَرَوَى النَّسَائِيُّ نَحوه
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، دو آدمی سفر پر روانہ ہوئے، نماز کا وقت ہو گیا، جبکہ ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر انہوں نے نماز کے وقت ہی میں پانی پا لیا، تو ان میں سے ایک نے وضو کر کے نماز لوٹائی، جبکہ دوسرے نے نہ لوٹائی، پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کا تذکرہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص سے، جس نے نماز نہ لوٹائی، فرمایا: ”تم نے سنت پر عمل کیا اور تمہاری نماز تمہارے لیے کافی ہے۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، جس شخص نے وضو کر کے نماز لوٹائی تھی، اسے فرمایا: ”تمہارے لیے دہرا اجر ہے۔ “ ابوداؤد، دارمی، اور نسائی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ اسنادہ حسن،
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (338) والدارمي (1/ 190 ح 750) والنسائي (1/ 213 ح 433)»
عن ابي الجهيم الانصاري قال: اقبل النبي صلى الله عليه وسلم من نحو بئر جمل فلقيه رجل فسلم عليه فلم يرد عليه النبي صلى الله عليه وسلم حتى اقبل على الجدار فمسح بوجهه ويديه ثم رد عليه السلام عَن أبي الْجُهَيْم الْأنْصَارِيّ قَالَ: أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوِ بِئْرِ جَمَلٍ فَلَقِيَهُ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْجِدَارِ فَمَسَحَ بِوَجْهِهِ وَيَدَيْهِ ثُمَّ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَام
ابوالجہیم بن حارث بن صِمّہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بئرجمل (کنویں کا نام) کی طرف سے آئے تو ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا، اس نے آپ کو سلام کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے جواب نہ دیا حتیٰ کہ آپ دیوار کے پاس تشریف لائے، اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا، پھر اسے سلام کا جواب دیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (237) و مسلم (114 / 369)»
وعن عمار بن ياسر: انه كان يحدث انهم تمسحوا وهم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصعيد لصلاة الفجر فضربوا باكفهم الصعيد ثم مسحوا وجوههم مسحة واحدة ثم عادوا فضربوا باكفهم الصعيد مرة اخرى فمسحوا بايديهم كلها إلى المناكب والآباط من بطون ايديهم. رواه ابو داود وَعَن عمار بن يَاسر: أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّهُمْ تَمَسَّحُوا وَهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّعِيدِ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ الصَّعِيدَ ثُمَّ مَسَحُوا وُجُوههم مَسْحَةً وَاحِدَةً ثُمَّ عَادُوا فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ الصَّعِيدَ مَرَّةً أُخْرَى فَمَسَحُوا بِأَيْدِيهِمْ كُلِّهَا إِلَى الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ مِنْ بُطُونِ أَيْدِيهِمْ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں نماز فجر کے لیے مٹی سے تیمم کیا تو انہوں نے اپنے ہاتھ مٹی پر مارے، پھر ایک مرتبہ اپنے چہروں پر مسح کیا، پھر انہوں نے دوبارہ دوسری مرتبہ اپنے ہاتھ مٹی پر مارے تو اپنے سارے ہاتھوں پر کندھوں اور بغلوں سمیت مکمل طور پر مسح کیا۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (318)»
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا جاء احدكم الجمعة فليغتسل» عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ»
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی (نماز) جمعہ کے لیے آئے تو وہ غسل کرے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (877) و مسلم (2/ 844)»