وعن حذيفة قال: يا معشر القراء استقيموا فقد سبقتم سبقا بعيدا وإن اخذتم يمينا وشمالا لقد ضللتم ضلالا بعيدا. رواه البخاري وَعَن حُذَيْفَة قَالَ: يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ اسْتَقِيمُوا فَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِيدًا وَإِنْ أُخِذْتُمْ يَمِينًا وَشِمَالًا لَقَدْ ضللتم ضلالا بَعيدا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے قراء کی جماعت! سیدھی راہ پر ثابت قدم رہو، اس لیے کہ تم سب سے آگے ہو، اور اگر تم دائیں بائیں چلے گئے تو تم بہت دور گمراہی میں چلے جاؤ گے۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (7282)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تعوذوا بالله من جب الحزن» قالوا: يا رسول الله وما جب الحزن؟ قال: «واد في جهنم تتعوذ منه جهنم كل يوم اربعمائة مرة» . قلنا: يا رسول الله ومن يدخلها قال: «القراء المراءون باعمالهم» . رواه الترمذي وكذا ابن ماجه وزاد فيه: «وإن من ابغض القراء إلى الله تعالى الذين يزورون الامراء» . قال المحاربي: يعني الجورة وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جُبِّ الْحَزَنِ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا جُبُّ الْحَزَنِ؟ قَالَ: «وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّم كل يَوْم أَرْبَعمِائَة مرّة» . قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَدْخُلُهَا قَالَ: «الْقُرَّاءُ الْمُرَاءُونَ بِأَعْمَالِهِمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَكَذَا ابْنُ مَاجَهْ وَزَادَ فِيهِ: «وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْقُرَّاءِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الَّذِينَ يَزُورُونَ الْأُمَرَاءَ» . قَالَ الْمُحَارِبِيُّ: يَعْنِي الجورة
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(غمناک گڑھے) سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ “ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! غمناک گڑھے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جہنم میں ایک وادی ہے، جس سے جہنم (کی دیگر وادیاں) ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہیں۔ “ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس میں کون داخل ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اعمال کے ذریعے ریاکاری کرنے والے قراء۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسی طرح ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اور انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ قراء وہ ہیں جو امرا کے پاس جاتے ہیں۔ “ محاربی نے کہا: اس سے ظالم امرا مراد ہیں۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2383 و قال: غريب. و في نسخة: حسن غريب.) و ابن ماجه (256) ٭ فيه عمار: ضعيف الحديث و کان عابدًا، و شيخه: مجھول.»
وعن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يوشك ان ياتي على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه ولا يبقى من القرآن إلا رسمه مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى علماؤهم شر من تحت اديم السماء من عندهم تخرج الفتنة وفيهم تعود» . رواه البيهقي في شعب الإيمان وَعَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے جب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہ جائے گا، ان کی مساجد آباد ہوں گی لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی، ان کے علما آسمان تلے بدترین لوگ ہوں گے، ان کے پاس سے فتنہ ظاہر ہو گا اور انہی میں لوٹ جائے گا۔ “اس حدیث کو بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (1908) ٭ في سنده رجل: لم أعرفه، وله طريق آخر موقوف، سنده ضعيف، عبد الله بن دکين ضعيف: ضعفه الجمھور.»
وعن زياد بن لبيد قال ذكر النبي صلى الله عليه وسلم شيئا فقال: «ذاك عند اوان ذهاب العلم» . قلت: يا رسول الله وكيف يذهب العلم ونحن نقرا القرآن ونقرئه ابناءنا ويقرؤه ابناؤنا ابناءهم إلى يوم القيامة قال: «ثكلتك امك زياد إن كنت لاراك من افقه رجل بالمدينة اوليس هذه اليهود والنصارى يقرءون التوراة والإنجيل لا يعملون بشيء مما فيهما» . رواه احمد وابن ماجه وروى الترمذي عنه نحوه وَعَن زِيَاد بن لبيد قَالَ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَقَالَ: «ذَاكَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ» . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنحن نَقْرَأ الْقُرْآن ونقرئه أبناءنا ويقرؤه ابناؤنا أَبْنَاءَهُم إِلَى يَوْم الْقِيَامَة قَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأُرَاكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ عَنهُ نَحوه
سیدنا زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی (خوفناک) چیز کا ذکر کیا تو فرمایا: ”یہ علم کے رخصت ہو جانے کے وقت ہو گی۔ “ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علم کیسے رخصت ہو جائے گا، جبکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں، اور ہم اسے اپنی اولاد کو پڑھا رہے ہیں، اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”زیاد! تیری ماں تمہیں گم پائے، میں تو تمہیں مدینہ کا بڑا فقیہ شخص سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاری تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن وہ ان کے مطابق عمل نہیں کرتے۔ “ اس حدیث کو احمد، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے بھی اسی طرح سے بیان کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه أحمد (4/ 160 ح 17612، واللفظ له) و ابن ماجه (4048 و حديثه حسن بالشواھد) والترمذي (2653 من حديث أبي الدرداء وقال: ’’حسن غريب.‘‘ و سنده صحيح، وھو دون قوله: ’’إلٰي يوم القيامة.‘‘ فالحديث صحيح دون ھذا.) ٭ الأعمش مدلس و عنعن و سالم بن أبي الجعد لم يسمع من زياد بن لبيد رضي الله عنه.»
وعن ابن مسعود قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تعلموا العلم وعلموه الناس تعلموا الفرائض وعلموها الناس تعلموا القرآن وعلموه الناس فإني امرؤ مقبوض والعلم سيقبض وتظهر الفتن حتى يختلف اثنان في -[92]- فريضة لا يجدان احدا يفصل بينهما» . رواه الدارمي والدارقطني وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا النَّاسَ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ فَإِنِّي امْرُؤٌ مَقْبُوضٌ وَالْعِلْمُ سَيُقْبَضُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ حَتَّى يَخْتَلِفَ اثْنَانِ فِي -[92]- فَرِيضَةٍ لَا يَجِدَانِ أَحَدًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا» . رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالدَّارَقُطْنِيّ
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”علم سیکھو اور اسے دوسروں کو سکھاؤ، فرائض (علم میراث) سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ، قرآن سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاو، کیونکہ میری روح قبض کر لی جائے گی، اور (میرے بعد) علم بھی اٹھا لیا جائے گا، فتنے ظاہر ہو جائیں گے، حتیٰ کہ دو آدمی کسی فریضہ میں اختلاف کریں گے لیکن وہ اپنے درمیان فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں پائیں گے۔ “اس حدیث کو دارمی اور دار قطنی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه الدارمي (1/ 72، 73 ح 227) والدارقطني (4/ 82) [والترمذي (2091) مختصرًا، انظر الحديث المتقدم (244)] ٭ سليمان بن جابر الھجري: مجھول و عوف الأعرابي لم يسمعه منه، بينھما رجل مجھول.»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مثل علم لا ينتفع به كمثل كنز لا ينفق منه في سبيل الله» . رواه الدارمي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ عِلْمٍ لَا يُنْتَفَعُ بِهِ كَمَثَلِ كَنْزٍ لَا يُنْفَقُ مِنْهُ فِي سَبِيل الله» . رَوَاهُ الدَّارمِيّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس علم سے فائدہ نہ اٹھایا جائے وہ اس خزانے کی طرح ہے جس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے۔ “ اس کو احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه أحمد (2/ 499 ح 10481) و الدارمي (1/ 138 ح 562) ٭ إبراھيم بن مسلم الھجري ضعيف.»