حدثنا ابو غسان الزهري، حدثنا عبد السلام بن يزيد بن عبد الرحمن الدالاتي، عن إبراهيم الصايغ، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " في اربع وعشرين من الإبل خمس شياه إلى ان تبلغ خمسا وعشرين، فإذا بلغت خمسا وعشرين، ففيها ابنة مخاض، فإن لم يكن ابنة مخاض، فابن لبون ذكر إلى خمس وثلاثين، ثم وصف مثل ما يصف غيره من الاسنان إلى ان تبلغ عشرين ومائة، فإذا زادت ففي كل خمس واربعين ابن لبون، وفي كل ستين حقة".حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلامِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّالاتِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الصَّايِغِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " فِي أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الإِبِلِ خَمْسُ شِيَاهٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ خَمْسًا وَعِشْرِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ، فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ يَكُنِ ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ إِلَى خَمْسٍ وَثَلاثِينَ، ثُمَّ وَصَفَ مثل مَا يَصِفُ غَيْرُهُ مِنَ الأَسْنَانِ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ عِشْرِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا زَادَتْ فَفِي كُلِّ خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ ابْنُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ سِتِّينَ حِقَّةٌ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چوبیس اونٹوں میں پانچ بکریاں زکاۃ ہے حتی کہ پچیس ہو جائیں۔ جب (ان کی تعداد) پچیس ہو جائے تو ان میں ایک بنت مخاض ہے۔ اگر بنت مخاض نہ ہو تو پینتیس تک ابن لبون ہے۔ پھر زکاۃ کے اونٹوں کی عمر کے حساب سے وہی صورت بیان کی جو دیگر افراد بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس ہو جائے۔ جب تعداد ایک سو بیس سے بڑھ جائے تو ہر پینتالیس پر ایک ابن لبون اور ہر ساٹھ پر ایک حقہ زکاۃ ہے۔“
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي الزكاة باب ما جاء فى زكاة الابل والغنم رقم الحديث: 621، سنن ابي داؤد الزكاة باب فى زكاة السائمة رقم الحديث: 1568، سنن ابن ماجة الزكاة باب صدقة الابل رقم الحديث: 1798، عن سالم عن ابيه» امام ترمذی نے اسے ’’حسن‘‘ اور محدث البانی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
حدثنا ابو غسان، حدثنا عبد السلام، عن ليث، عن نافع، عن ابن عمر، قال: " كانت في كل اربعين شاة شاة إلى عشرين ومائة، فإذا زادت فشاتان إلى مائتين، فإذا زادت فثلاث إلى ثلاث مائة، فإذا زادت ففي كل مائة شاة، لا يفرق بين مجتمع، ولا يجمع بين مفترق، وكل خليطين يترادان بالسوية، وليس للمصدق هرمة، ولا تيس، ولا ذات عوار، إلا ان يشاء المصدق".حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلامِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَتْ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ فَثَلاثٌ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، لا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ، وَكُلُّ خَلِيطَيْنِ يَتَرَادَّانِ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَيْسَ لِلْمُصَدِّقِ هَرِمَةٌ، وَلا تَيْسٌ، وَلا ذَاتُ عَوَارٍ، إِلا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ہر چالیس بکریوں پر ایک سو بیس تک ایک بکری زکاۃ ہے۔ جب تعداد بڑھ جائے تو ہر دو سو تک دو بکریاں ہیں۔ جب تعدا د (اس سے بھی) بڑھ جائے توتین سو تک تین بکریاں ہیں۔ جب تعداد اس سے بھی بڑھ جائے تو ہر سو پر ایک بکری زکاۃ ہے۔ (زکاۃ کے ڈر سے) اکٹھے ریوڑ کو علیحدہ علیحدہ نہ کیاجائے اور الگ الگ ریوڑ کو اکٹھا نہ کیاجائے اور ہر دو حصے دار برابری کے ساتھ ایک دوسرے سے حساب کر لیں اور زکاۃ وصول کرنے والے عامل کو بوڑھا، سانڈ، عیب والا نہ دیاجائے الا یہ کہ زکاۃ دینے والا چاہے۔
تخریج الحدیث: تخریج گزشتہ حدیث نمبر: 51 کی دیکھیں۔
نافع رحمہ اللہ نے بیان کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یوم عاشوراء کے روزے سے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: زمانہ جاہلیت کے لوگ اس دن کی تعظیم کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري التفسير باب يايها الذين اٰمنوا كتب عليكم… الخ رقم الحديث: 4501 صحيح مسلم الصيام باب صوم يوم عاشورا رقم الحديث: 1126 بلفظ ”يصومه اهل الجاهلية“»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو جس سے متعلق وہ وصیت کرنا چاہتا ہو کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزار دے کہ اس کی وصیت اس کے پاس (لکھی ہوئی نہ) ہو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري الوصايا باب الوصايا رقم الحديث: 2738 صحيح مسلم الوصية باب وصية الرجل مكتوبة عنده رقم الحديث: 1627»
حدثنا ابن سابق، حدثنا عاصم، عن زيد بن محمد، عن نافع، قال: كان ابن عمرإذا كان في السفر في الليلة الباردة او الليلة المطيرة، فينادي بالصلاة صلاة العشاء، ثم ينادي: الا صلوا في رحالكم، فإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع ذلك في الليلة الباردة، والليلة المطيرة".حَدَّثَنَا ابْنُ سَابِقٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَإِذَا كَانَ فِي السَّفَرِ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوِ اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ، فَيُنَادِي بِالصَّلاةِ صَلاةِ الْعِشَاءِ، ثُمَّ يُنَادِي: أَلا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ، وَاللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ".
نافع رحمہ اللہ نے بیان کیا، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب سردی یا بارش کی رات سفر میں ہوتے اور نماز عشاء کے لیے اذان دیتے تو کہتے اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔“ یقینا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سردی اور بارش کی رات میں اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري الأذان باب الاذان للمسافرين اذا كانوا جماعة والاقامة… الخ رقم الحديث: 632 صحيح مسلم صلاة المسافرين باب الصلاة فى الرحال فى المطر رقم الحديث: 697»
حدثنا احمد بن يونس، حدثنا عاصم بن محمد، عن زيد بن محمد، عن نافع، عن ابن عمر، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " من خلع يدا من طاعة، لقي الله لا حجة له، ومن مات ليس في رقبته بيعة، مات موتة جاهلية".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللَّهَ لا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ لَيْسَ فِي رَقَبَتِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مَوْتَةً جَاهِلِيَّةً".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا: ”جس نے (حکمران کی) اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں فوت ہوا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہوئی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم الامارة باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن… الخ رقم الحديث: 1851»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور عورت کو رجم کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي الحدود باب ما جاء فى رجم أهل الكتاب رقم الحديث: 1436، صحيح بخاري رقم الحديث: 1329، صحيح مسلم رقم الحديث: 1699» امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔
حدثنا ابو نعيم، حدثنا شيبان، عن يحيى، عن نافع، ان ابن عمر كان يجمع بين صلاة المغرب والعشاء الآخرة في السفر وهو على ظهر، ويقول ابن عمر: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عجلت به حاجة، جمع بينهما".حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ صَلاةِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ الآخِرَةِ فِي السَّفَرِ وَهُو عَلَى ظَهْرٍ، وَيَقُولُ ابْنُ عُمَرَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَجَّلَتْ بِهِ حَاجَةٌ، جَمَعَ بَيْنَهُمَا".
نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نماز مغرب اور نماز عشاء کو سفر میں جمع کرتے تھے جبکہ وہ سوار ہوتے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کوئی کام جلدی کرناہوتا تو ان دونوں کو اکٹھا پڑھ لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب جواز الجمع بين الصلاتين فى السفر، رقم الحديث: 703»