سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا، اور فرمایا: ”نہ تو اس سے شکار کیا جا سکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ کبھی آنکھ پھوڑ دیتی ہے تو کبھی دانت توڑ دیتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4841، 5479، 6220، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1954، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5949، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7854، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4819، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6990، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5270، والدارمي فى «مسنده» برقم: 453، 454، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 17، 3226، 3227، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19010، 19011، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17068، والحميدي فى «مسنده» برقم: 911، والطبراني فى «الكبير» برقم: 566، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3357، 3629، 5837، 6077، والطبراني فى «الصغير» برقم: 320، 447، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20497»
حدثنا داود بن محمد بن صالح ابو الفوارس المروزي ، بمصر، حدثنا زكريا بن يحيى الجزار ، حدثنا إسماعيل بن عباد ابو محمد الرماني ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"كلكم راع، وكلكم مسئول عن رعيته، فالامير راع على الناس ومسئول عن رعيته، والرجل راع على اهله ومسئول عن زوجته وما ملكت يمينه، والمراة راعية لحق زوجها ومسئولة عن بيتها وولدها، والمملوك راع على مولاه ومسئول عن ماله، فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته، فاعدوا للمسائل جوابا، قالوا: يا رسول الله، وما جوابها؟، قال: اعمال البر"، لم يروه عن قتادة بهذا التمام، إلا سعيد بن ابي عروبة، ولا عن سعيد، إلا إسماعيل بن عباد، تفرد به زكريا بن يحيى حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحٍ أَبُو الْفَوَارِسِ الْمَرْوَزِيُّ ، بِمِصْرَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى الْجَزَّارُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبَّادٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الرُّمَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ رَاعٍ عَلَى النَّاسِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ زَوْجَتِهِ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُهُ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ لِحَقِّ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ بَيْتِهَا وَوَلَدِهَا، وَالْمَمْلُوكُ رَاعٍ عَلَى مَوْلاهُ وَمَسْئُولٌ عَنْ مَالِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَأَعِدُّوا لِلْمَسَائِلِ جَوَابًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا جَوَابُهَا؟، قَالَ: أَعْمَالُ الْبِرِّ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا التَّمَامِ، إِلا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، وَلا عَنْ سَعِيدٍ، إِلا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبَّادٍ، تَفَرَّدَ بِهِ زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک نگران ہے، اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اس سے اس کی بیوی اور غلام کے متعلق پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اس سے گھر اور اولاد کے متعلق پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اپنے مالک کے مال کے متعلق پوچھا جائے گا، تو تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اس لئے سوالات کے جوابات تیار رکھنا۔“ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جواب کیا ہو سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا جواب نیک اعمال ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4492، 4493، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9129، 9130، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1703، 3576، والطبراني فى «الصغير» برقم: 450، 669 قال ابن عدي: سند صحيح، تحفة الأحوذي شرح سنن الترمذي: (3 / 33)»
حدثنا حدثنا ذاكر بن شيبة العسقلاني ، بقرية عجس، حدثنا ابو عصام رواد بن الجراح ، عن ابي الزعيزعة ، وسعيد بن عبد العزيز ، عن مكحول ، عن عروة ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كثيرا ما يقول لي: يا عائشة، ما فعلت ابياتك؟، فاقول: واي ابياتي تريد يا رسول الله، فإنها كثيرة؟، فيقول: في الشكر، فاقول: نعم بابي وامي، قال الشاعر: ادفع ضعيفك لا يحر بك ضعفه يوما فتدركه العواقب قد نما يجزيك او يثني عليك وإن من اثنى عليك بما فعلت كمن جزى إن الكريم إذا اردت وصاله لم تلف رثا حبله واهي القوى قالت: فيقول:" يا عائشة، إذا حشر الله الخلائق يوم القيامة قال: لعبد من عباده اصطنع إليه عبد من عباده معروفا هل شكرته؟ فيقول: اي رب، علمت ان ذلك منك فشكرتك عليه، فيقول: لم تشكرني إذا لم تشكر من اجريت ذلك على يديه"، لم يروه عن سعيد بن عبد العزيز، إلا رواد بن الجراح حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ذَاكِرُ بْنُ شَيْبَةَ الْعَسْقَلانِيُّ ، بِقَرْيَةِ عَجَّسَ، حَدَّثَنَا أَبُو عِصَامٍ رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ أَبِي الزُّعَيْزَعَةِ ، وَسَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرًا مَا يَقُولُ لِي: يَا عَائِشَةُ، مَا فَعَلَتْ أَبْيَاتُكِ؟، فَأَقُولُ: وَأَيُّ أَبْيَاتِي تُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهَا كَثِيرَةٌ؟، فَيَقُولُ: فِي الشُّكْرِ، فَأَقُولُ: نَعَمْ بِأَبِي وَأُمِّي، قَالَ الشَّاعِرُ: ادْفَعْ ضَعِيفَكَ لا يَحُرْ بِكَ ضَعْفُهُ يَوْمًا فَتُدْرِكَهُ الْعَوَاقِبُ قَدْ نَمَا يُجْزِيكَ أَوْ يُثْنِي عَلَيْكَ وَإِنَّ مَنْ أَثْنَى عَلَيْكَ بِمَا فَعَلْتَ كَمَنْ جَزَى إِنَّ الْكَرِيمَ إِذَا أَرَدْتَ وِصَالَهُ لَمْ تَلْفَ رَثًّا حَبْلَهُ وَاهِي الْقُوَى قَالَتْ: فَيَقُولُ:" يَا عَائِشَةُ، إِذَا حَشَرَ اللَّهُ الْخَلائِقَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ: لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِهِ اصْطَنَعَ إِلَيْهِ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِهِ مَعْرُوفًا هَلْ شَكَرْتَهُ؟ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، عَلِمْتُ أَنَّ ذَلِكَ مِنْكَ فَشَكَرْتُكَ عَلَيْهِ، فَيَقُولُ: لَمْ تَشْكُرْنِي إِذَا لَمْ تَشْكُرْ مَنْ أَجْرَيْتُ ذَلِكَ عَلَى يَدَيْهِ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، إِلا رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر مجھے فرماتے: ”عائشہ! تیرے وہ شعر کون سے ہیں؟“ میں کہتی: آپ کون سے اشعار پوچھنا چاہتے ہیں؟ شعر تو بہت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”جو شکر کے متعلق ہیں۔“ تو میں کہتی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، وہ یہ ہیں، شاعر کہتا ہے: (1) اپنے کمزور کو اس طرح واپس کریں کہ اس کی کمزوری تجھے کسی دن بھی پریشان نہ کرے، تو اچھے انجام اس کے بڑھ جائیں گے۔ (2) وہ کمزور تمہیں اس کی جزا اور بدلہ دے گا، تیری تعریف کرے گا، تیرے کام پر اُس کا تیری تعریف کرنا بھی بدلہ دینے کی طرح ہے۔ (3) اچھے آدمی سے جب تو حسن سلوک کرے گا تو اس کی بھی ڈول کی رسی کمزور نہیں ہوگی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”عائشہ! جب قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مخلوقات کو جمع کرے گا تو اپنے بندوں میں سے ایک ایسے بندے سے فرمائے گا جس کے ساتھ کسی نے نیکی کی ہوگی کہ ”کیا تو نے اپنے محسن کا شکریہ ادا کیا ہے؟“ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے یہ سمجھ کر کہ یہ تیری طرف سے ہے، میں نے تیرا شکریہ ادا کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”تو نے میرا شکریہ ادا نہیں کیا جب کہ تو نے اس شخص کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا جس کے ہاتھوں پر میں نے تجھ پر اپنا احسان جاری کیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 3580، والطبراني فى «الصغير» برقم: 454 قال الهيثمي: وفيه ذاكر بن شيبة العسقلاني ضعفه الأزدي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (8 / 180)»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امانت اس شخص کو ادا کرو جو تمہیں امانت دار سمجھے اور جو شخص تم سے خیانت کرے تم اس سے خیانت نہ کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2310، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21360، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2937، والطبراني فى «الكبير» برقم: 760، والطبراني فى «الصغير» برقم: 475 قال الهيثمي: رجال الكبير ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (4 / 144)»
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوقحافہ کو لایا گیا اور ان کا سر اور داڑھی ثغامہ گھاس کی طرح تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑھاپے کے رنگ کو بدل ڈالو اور سیاہ رنگ سے بچنا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2102، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5471، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5101، 5102، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5079، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9294، 9295، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4204، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3624، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14939، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14626، والطبراني فى «الكبير» برقم: 8324، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 5160، 5658، والطبراني فى «الصغير» برقم: 483، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20179، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25502»
حدثنا السري بن سهل الجنديسابوري ، حدثنا عبد الله بن رشيد ، حدثنا مجاعة بن الزبير ، عن قتادة ، عن عقبة بن عبد الغافر ، عن ابي عبيدة بن عبد الله بن مسعود ، عن ابيه رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"استحيوا من الله حق الحياء، قالوا: يا رسول الله، إنا لنستحيي والحمد لله، فقال: من استحيا من الله حق الحياء فليحفظ الراس وما وعى، والبطن وما حوى، وليذكر الموت والبلاء، ومن اراد الآخرة ترك زينة الدنيا، فمن فعل ذلك فقد استحيا من الله حق الحياء"، لم يروه عن قتادة، إلا مجاعة، تفرد به عبد الله بن رشيد حَدَّثَنَا السَّرِيُّ بْنُ سَهْلٍ الْجُنْدِيسَابُورِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُجَّاعَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَبْدِ الْغَافِرِ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، فَقَالَ: مَنِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ فَلْيَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَالْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْيَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبَلاءَ، وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ قَتَادَةَ، إِلا مُجَّاعَةُ، تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رُشَيْدٍ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے اس طرح شرم کرو جس طرح اس سے شرم کرنے کا حق ہے۔“ لوگ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم الحمد للہ اللہ تعالیٰ سے شرم کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ سے اس طرح شرم کرے جس طرح اس سے شرم کرنے کا حق ہے تو وہ اپنے سر کی اور جو اس نے محفوظ رکھا ہے اسکی اور پیٹ کی حفاظت کرے، اور موت اور بوسیدہ ہو جانے کو یاد رکھے، اور جو آخرت کا ارادہ کرے وہ دنیا کی زینت ترک کر دیتا ہے۔ جس نے اس طرح کیا تو اس نے اللہ سے اس طرح شرم کیا جس طرح اس سے شرم کرنے کا حق ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، أخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 2458، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8010، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3745، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5047، والبزار فى «مسنده» برقم: 2025، والطبراني فى «الكبير» برقم: 10290، والطبراني فى «الصغير» برقم: 494، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 35461 قال الشيخ الألباني: إسناده حسن»
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کچھ وصیت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور بُرے کام کے بعد نیکی کرو کہ وہ اس بُرائی کو مٹا دے گی، اور لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، أخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 1987، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 178، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2833، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21750، والطبراني فى «الكبير» برقم: 296، 297، 298، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3779، والطبراني فى «الصغير» برقم: 530، والبزار فى «مسنده» برقم: 4022، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25833 قال الشيخ الألباني: حسن»
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھے اخلاق سے زیادہ بھاری چیز میزان میں اور کوئی نہیں رکھی جاتی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 481، 5693، 5695، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4799، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2002، 2003، 2013، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20855، وأحمد فى «مسنده» برقم: 28142، والحميدي فى «مسنده» برقم: 397، 398، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4198، والطبراني فى «الصغير» برقم: 550، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25814 قال الشيخ الألباني: صحيح»