سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا روزہ دار بیوی کو بوسہ دے سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں کوئی حرج نہیں وہ ایک پھول کو سونگھ رہا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه الضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة"، 2163، وأورده ابن حجر فى "المطالب العالية"، 1067، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 4452، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 614 قال بدر الدین العینی: ورجاله ثقات، عمدة القاري شرح صحيح البخاري: (11 / 8)»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دنوں کے روزے رکھنے سے منع فرمایا، ایک چاند دیکھنے سے ایک دن پہلے جلدی کرنا، اور عید الفطر کے دن اور عید الاضحیٰ کے دن۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 10051، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4469، والطبراني فى «الصغير» برقم: 621»
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمعہ کے دن گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھانا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھا رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہو جاؤ اور کھانا کھاؤ۔“ ہم نے کہا: ہمارا روزہ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کل بھی روزہ رکھا ہے؟“ ہم نے کہا: نہیں! فرمایا: ”کیا تم کل کا روزہ بھی رکھنا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں! فرمایا: ”پھر قریب ہو کر یہ کھانا کھاؤ کیونکہ صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنا درست نہیں۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1984، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1143، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2758، 2759، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1789، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1724، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8579، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14371، 14576، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1260، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2206، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7808، 7809، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4473، 7640، والطبراني فى «الصغير» برقم: 641»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں لگاتار روزے رکھتا ہوں، تو کیا میں سفر میں بھی روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر چاہو تو رکھو، نہ چاہو تو نہ رکھو۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1942، 1943، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1121،، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3560، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2384، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2402، والترمذي فى «جامعه» برقم: 711، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1748، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1662، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8253، 8254، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24833، والحميدي فى «مسنده» برقم: 201، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4778، والطبراني فى «الصغير» برقم: 679»
حدثنا عبد الملك بن محمد ابو نعيم الجرجاني ، ببغداد سنة ثمان وثمانين ومائتين، حدثنا عمار بن رجاء الجرجاني ، حدثنا احمد بن ابي طيبة ، عن ابيه ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ام هانئ بنت ابي طالب ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:" إن امتي لم تخز ما اقاموا شهر رمضان، قيل: يا رسول الله، وما خزيهم في إضاعة شهر رمضان؟، قال: انتهاك المحارم فيه، من زنا فيه او شرب فيه خمرا، لعنه الله ومن في السماوات إلى مثله من الحول، فمن مات قبل ان يدرك رمضان فليست له عند الله حسنة يتقي بها النار، فاتقوا شهر رمضان، فإن الحسنات تضاعف فيه ما لا تضاعف فيما سواه وكذلك السيئات"، لم يروه عن الاعمش، إلا ابن ابي طيبة، ولا عنه إلا ابنه، ولا يروى عن ام هانئ، إلا بهذا الإسناد، تفرد به عمار بن رجاءحَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو نُعَيْمٍ الْجُرْجَانِيُّ ، بِبَغْدَادَ سَنَةَ ثَمَانٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رَجَاءٍ الْجُرْجَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي طَيْبَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أُمَّتِي لَمْ تُخْزَ مَا أَقَامُوا شَهْرَ رَمَضَانَ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا خَزْيُهُمْ فِي إِضَاعَةِ شَهْرِ رَمَضَانَ؟، قَالَ: انْتِهَاكُ الْمَحَارِمِ فِيهِ، مَنْ زَنَا فِيهِ أَوْ شَرِبَ فِيهِ خَمْرًا، لَعَنَهُ اللَّهُ وَمَنْ فِي السَّمَاوَاتِ إِلَى مِثْلِهِ مِنَ الْحَوْلِ، فَمَنْ مَاتَ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ رَمَضَانَ فَلَيْسَتْ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنَةٌ يَتَّقِي بِهَا النَّارَ، فَاتَّقُوا شَهْرَ رَمَضَانَ، فَإِنَّ الْحَسَنَاتَ تُضَاعَفُ فِيهِ مَا لا تُضَاعَفُ فِيمَا سِوَاهُ وَكَذَلِكَ السَّيِّئَاتُ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنِ الأَعْمَشِ، إِلا ابْنُ أَبِي طَيْبَةَ، وَلا عَنْهُ إِلا ابْنُهُ، وَلا يُرْوَى عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ عَمَّارُ بْنُ رَجَاءٍ
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امّت کے لوگ جب تک رمضان کو قائم رکھیں گے، ذلیل نہیں کیے جائیں گے۔“ کہا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! رمضان کے مہینے کو ضائع کرنے میں کون سی رسوائی ہوگی؟ فرمایا: ”ان کے محارم کو پھاڑا جائے گا، اور جو اس مہینے میں زنا کرے گا اور شراب پیئے گا، اللہ کی اس پر لعنت ہے اور اس کی جو کوئی آسمانوں میں ہے آئندہ سال تک اسے لعنت کرتے رہیں گے۔ اگر وہ آئندہ رمضان آنے سے پہلے مر گیا تو آگ سے بچنے کے لیے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی نیکی نہیں ہو گی۔ پس رمضان کے مہینے سے ڈرو، کیونکہ نیکیاں اس میں دوسرے اوقات کی نسبت بہت زیادہ بڑھائی جاتی ہیں۔ اور اسی طرح برائیاں بھی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 4827، والطبراني فى «الصغير» برقم: 697 قال الھیثمی: فيه عيسى بن سليمان أبو طيبة ضعفه ابن معين ولم يكن ممن يتعمد الكذب ولكنه نسب إلى الوهم، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (3 / 143)»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سردیوں میں روزہ ایک ٹھنڈی غنیمت ہے۔“
تخریج الحدیث: «انفرد به المصنف من هذا الطريق، وله شواهد من حديث عامر بن مسعود دحروجة الجعل، وحديث أبى هريرة الدوسي، فأما حديث عامر بن مسعود دحروجة الجعل أخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 797، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19262، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2145، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9834، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8545، والضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة"، 244، 245، 246، 247، وأما حديث أبى هريرة الدوسي أخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8546 قال الھیثمی: فيه سعيد بن بشير وهو ثقة ولكنه اختلط، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (3 / 200)»
سیدنا ابوقتادہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یومِ عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، ایک سال گزشتہ کا اور ایک سال آئندہ کا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1162، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2087، 2117، 2126، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3631، 3632، 3639، 3642، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4201، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2380، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2425، والترمذي فى «جامعه» برقم: 749، 752، 767، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1730، 1738، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8467، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22953، والحميدي فى «مسنده» برقم: 433، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 4875، 5646، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 718»
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک عورت نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں مر گئی اور اس پر کچھ روزے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1149، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8109، 8110، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6280، 6281، 6282، 6283، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1656، 2877، والترمذي فى «جامعه» برقم: 667، 929، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1759، 2394، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 248، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7729، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23422، والطبراني فى «الصغير» برقم: 777»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص روزے کی حالت میں صبح کرتا ہے تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور اس کے اعضاء تسبیحیں کہنے لگتے ہیں، اور اس کے لئے آسمانِ دنیا والے بخشش مانگنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگتا ہے، پھر اگر اس نے ایک یا دو رکعت نفل نماز ادا کی تو اس کے لیے آسمان روشن ہو جاتے ہیں، اور حور عین میں سے اس کی بیویاں کہتی ہیں: اے اللہ! اس کو قبض کر کے ہمارے پاس لے آ، کیونکہ ہم اسے دیکھنے کی شوق مند ہیں۔ اگر وہ «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، سَبْحَانَ اللّٰهِ» اور «اللّٰهُ أَكْبَر» کہتا ہے تو فرشتے ان کلمات کو اُٹھا لیتے ہیں اور شام تک لکھتے رہتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف جدا، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 7749، والطبراني فى «الصغير» برقم: 840 قال الھیثمی: فيه جرير بن أيوب وهو ضعيف جدا، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (3 / 180)»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ افطار کرتے تو یوں کہتے: «”بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَ عَلٰي رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ“»
تخریج الحدیث: «[إسناده ضعيف، أخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 7549، والطبراني فى «الصغير» برقم: 912 قال ابن حجر: إسناده ضعيف، التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير: (2 / 388)»