سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے رات میں سورہ آل عمران کی آخری آیات پڑھیں اس کے لئے پوری رات قیام کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، [مكتبه الشامله نمبر: 3439]» ابن لہیعہ کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ [ذكره التبريزي فى مشكاة المصابيح 2171، واحاله إلى الدارمي]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة
عبداللہ نے کہا: مجھ سے جابر نے بیان کیا اس سے پہلے کہ وہ غلط بیانی میں پڑا کہ شعبی رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ان غریبوں کا خزانہ سورہ آل عمران کتنا اچھا ہے جس کو وہ رات کے آخری حصے میں پڑھتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 3441]» اس اثر کی سند صحیح ہے، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 238] و [شعب الإيمان للبيهقي 2616] و [عبدالرزاق 6015]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف على عبد الله
(حديث مقطوع) حدثنا محمد بن سعيد، حدثنا عبد السلام، عن الجريري، عن ابي السليل، قال: اصاب رجل دما، قال: فاوى إلى وادي مجنة: واد لا يمسي فيه احد إلا اصابته حية: وعلى شفير الوادي راهبان، قال احدهما لصاحبه: هلك والله الرجل، قال: فافتتح سورة آل عمران، قالا: فقرا سورة طيبة لعله سينجو، قال: فاصبح سليما". قال ابو محمد: ابو السليل: ضريب بن نقير، ويقال: ابن نفير.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ، قَالَ: أَصَابَ رَجُلٌ دَمًا، قَالَ: فَأَوَى إِلَى وَادِي مَجَنَّةٍ: وَادٍ لَا يُمْسِي فِيهِ أَحَدٌ إِلَّا أَصَابَتْهُ حَيَّةٌ: وَعَلَى شَفِيرِ الْوَادِي رَاهِبَانِ، قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: هَلَكَ وَاللَّهِ الرَّجُلُ، قَالَ: فَافْتَتَحَ سُورَةَ آلِ عِمْرَانَ، قَالَا: فَقَرَأَ سُورَةً طَيِّبَةً لَعَلَّهُ سَيَنْجُو، قَالَ: فَأَصْبَحَ سَلِيمًا". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَبُو السَّلِيلِ: ضُرَيْبُ بْنُ نُقَيْرٍ، ويقال: ابن نفير.
ابوالسلیل نے کہا: ایک آدمی پر (قصاص کا) دم واجب ہو گیا، اس نے کہا: میں جنات کی وادی میں جا کر پناہ لیتا ہوں، اور وہ ایسی وادی تھی کہ جس میں کوئی بھی شخص جاتا اسے جن لگ جاتے، اور اس وادی کے کنارے پر دو راہب تھے، جب اس شخص کو شام ہونے لگی تو ان میں سے ایک راہب نے اپنے ساتھی سے کہا: الله کی قسم یہ آدمی ہلاک ہو گیا، راوی نے کہا: اس آدمی نے سورہ آل عمران کی تلاوت شروع کر دی تو دونوں راہبوں نے کہا: اچھی سورہ پڑھی ہے، شاید بچ جائے، راوی نے کہا: چنانچہ صبح ہوئی اور وہ صحیح سالم تھا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابوالسلیل کا نام ضریب بن فقیر ہے اور ان کو ابن نفیر کہا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد السلام متأخر السماع من أبي إسحاق وهو موقوف على أبي السليل، [مكتبه الشامله نمبر: 3442]» یہ اثر بھی موقوف ہے اور سند اس کی ضعیف ہے۔ کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3425 سے 3431) قرآن پاک سارا کا سارا خیر و برکت اور مصائب و بلیات سے بچانے والا ہے، کوئی بھی کلام اور جادو، فتنہ، شیطان وغیرہ اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتے، خصوصاً شیاطین و جادو سے بچنے کے لئے سورۂ البقرہ اور آل عمران کی بڑی اہمیت ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے، آخرت میں بھی یہ سورتیں اپنے پڑھنے والے کے لئے شفاعت کریں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو کر جاگتے تو « ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ إلى آخر» اور سورة آل عمران پڑھتے تھے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد السلام متأخر السماع من أبي إسحاق وهو موقوف على أبي السليل
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن کی پہلی سات لمبی سورتیں توراہ کی طرح ہے، اور دو سو آیات والی سورتیں انجیل جیسی ہیں، اور باقی سورتیں زبور کی طرح، اور اس کے بعد سارا قرآن ان آسمانی کتب پر زائد ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 3443]» اس اثر کی سند میں انقطاع ہے۔ مسیّب بن رافع کا لقاء سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 3431) علمائے قرأت و تفسیر نے قرآن پاک کی 114 سورتوں کو چار منازل میں تقسیم کیا ہے: (1) پہلا درجہ السبع الطّوال یعنی سات بڑی سورتیں ہیں جو سورۂ بقرہ سے لے کر سورۂ توبہ تک، اور بعض کے نزدیک سورۂ یونس تک، (2) دوسرا درجہ میئین یعنی 100 آیات کے قریب والی سورتیں سورۂ ہود یا سورۂ یونس سے شروع ہوتی ہیں، (3) تیسری قسم مثانی کی ہے جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور یہ سورة الفتح تک ہیں، (4) چوتھی قسم مفصل کی ہے جو سورۂ قاف یا سورۂ حجرات سے شروع ہوتی ہے، اور مفصل اس لئے ان کا نام رکھا گیا کہ ان کے درمیان بار بار بسم اللہ ذکر کی گئی ہے اور یہ ایک سورت سے دوسری سورت کے درمیان حدِ فاصل ہے، اور اس کی تین قسمیں ہیں: 1۔ طوال مفصل سورۂ عم سے سورۂ انشقاق تک یا سورۂ بروج تک، اس سے سورۃ الضحیٰ تک اوساط مفصل، اور سورۃ الضحیٰ کے بعد سورۃ الناس تک قصار مفصل ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
عبداللہ بن خلیفہ سے مروی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سورہ الانعام نواجب قرآن سے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد إلى عمر رضي الله عنه وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3444]» اس اثر کی سند امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک جید ہے اور انہیں پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لأبي عبيد، ص: 240]، [جمال القراء للسخاوي 125/1] و [الدر المنثور 3/3]
وضاحت: (تشریح حدیث 3432) یعنی سورۃ الانعام قرآن کی افضل سورتوں میں سے ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد إلى عمر رضي الله عنه وهو موقوف عليه
عبداللہ بن رباح سے مروی ہے، سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے کہا: توراۃ کی پہلی سورت سورهٔ انعام ہے اور آخری سورت ہود ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى كعب وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3445]» اس اثر کی سند سیدنا کعب رضی اللہ عنہ تک صحیح اور انہیں پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 555/10، 10323] و [الدر المنثور 357/3]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى كعب وهو موقوف عليه
عبداللہ بن رباح نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کے دن سورہ ہود پڑھو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لارساله، [مكتبه الشامله نمبر: 3446]» اس اثر کی سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے۔ آگے تخریج آ رہی ہے۔ شاید اس سند میں سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کا نام چھوٹ گیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لارساله
عبداللہ بن رباح سے مروی ہے، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کے دن «هود» پڑھو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لأنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 3447]» اس اثر کی بھی سند مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مراسيل أبى داؤد 59]، [شعب الإيمان 2438]، [الدر المنثور 319/1]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لأنه مرسل
خالد بن معدان نے کہا: جس نے سورہ کہف کی آخری دس آیات پڑھیں اس کو دجال کا خوف نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3448]» یہ اثر خالد بن معدان پر موقوف ہے، اور ان کی بیٹی عبدۃ کا ترجمہ کہیں نہیں ملتا ہے، ان الفاظ میں کسی اور نے بھی روایت نہیں کیا، لیکن اس سے ملتے جلتے متن کی روایت [صحيح مسلم 809] میں ہے: جس نے سورہ کہف کی آخری دس آیات یاد رکھیں وہ دجال سے محفوظ رہے گا۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 785]، [فضائل القرآن لأبي عبيد، ص: 245] و [فضائل القرآن لابن الضريس 206]، [شعب الإيمان للبيهقي 2443] و [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 676]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق