الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
سیر کے مسائل
63. باب في الْوَفَاءِ لِلْمُشْرِكِينَ بِالْعَهْدِ:
63. مشرکین سے کیا ہوا عہد پورا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2542
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا بشر بن ثابت، حدثنا شعبة، عن المغيرة، عن الشعبي، عن محرر بن ابي هريرة، عن ابيه، قال:"كنت مع علي بن ابي طالب لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم فنادى باربع حتى صهل صوته: الا لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة، ولا يحجن بعد العام مشرك، ولا يطوف بالبيت عريان. ومن كان بينه وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد، فإن اجله إلى اربعة اشهر، فإذا مضت الاربعة، فإن الله بريء من المشركين ورسوله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قالَ:"كُنْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَى بِأَرْبَعٍ حَتَّى صَهَلَ صَوْتُهُ: أَلا لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَلَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانُ. وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ، فَإِنَّ أَجَلَهُ إِلَى أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا مَضَتِ الْأَرْبَعَةُ، فَإِنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مکہ) بھیجا تھا، انہوں نے چار باتوں کا اعلان کیا یہاں تک کہ ان کی آواز بھرا گئی: سنو لوگو! جنت میں صرف نفسِ مسلم داخل ہوگا، اور اس سال کے بعد کوئی مشرک ہرگز حج نہ کرے گا، نہ کوئی برہنہ بیت الله کا طواف کرے گا، اور کسی شخص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی عہد ہے اس کی مدت چار مہینے تک ہے، چار ماہ گذرنے کے بعد اللہ اور رسول کا وہ عہد ختم ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2548]»
اس روایت کی سند جید ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 369]، [مسلم 1347]، [ابن حبان 3820]، [أبويعلی 76]، [الحميدي 47]۔ اس کی تشریح و تفصیل حدیث رقم (1957) میں گزر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
64. باب في صُلْحِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ:
64. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح حدیبیہ کا بیان
حدیث نمبر: 2543
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن إسرائيل، حدثنا ابو إسحاق، عن البراء بن عازب، قال: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة فابى اهل مكة ان يدعوه ان يدخل مكة حتى قاضاهم على ان يقيم ثلاثة ايام، فلما كتبوا: هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: لانقر بهذا، لو نعلم انك رسول الله، ما منعناك شيئا، ولكن انت محمد بن عبد الله، فقال: "انا رسول الله، وانا محمد بن عبد الله"، فقال لعلي:"امح: محمد رسول الله"، فقال: لا والله لا امحوه ابدا. فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الكتاب وليس يحسن يكتب، فكتب مكان رسول الله هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله: ان لا يدخل مكة بسلاح إلا السيف في القراب، وان لا يخرج من اهلها احدا اراد ان يتبعه، ولا يمنع احدا من اصحابه اراد ان يقيم بها. فلما دخلها ومضى الاجل، اتوا عليا، فقالوا: قل لصاحبك فليخرج عنا فقد مضى الاجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ أَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَتَبُوا: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: لأَنُقِرُّ بِهَذَا، لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، مَا مَنَعْنَاكَ شَيْئًا، وَلَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: "أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ"، فَقَالَ لِعَلِيٍّ:"امْحُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ"، فَقَالَ: لا وَاللَّهِ لا أَمْحُوهُ أَبَدًا. فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ وَلَيْسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولِ اللَّهِ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: أَنْ لَا يَدْخُلَ مَكَّةَ بِسِلَاحٍ إِلا السَّيْفَ فِي الْقِرَابِ، وَأَنْ لَا يُخْرِجَ مِنْ أَهْلِهَا أَحَدًا أَرَادَ أَنْ يَتْبَعَهُ، وَلا يَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا. فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الأَجَلُ، أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا: قُلْ لِصَاحِبِكَ فَلْيَخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھا لیکن مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا، آخر صلح اس پر ہوئی کہ آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تین روز قیام کریں گے، جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، لیکن مشرکین نے کہا: ہم تو اس کو نہیں مانتے، اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بالکل نہ روکیں گے، آپ صرف عبداللہ کے بیٹے محمد ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ محمد رسول الله کا لفظ مٹا دو، انہوں نے کہا: نہیں الله کی قسم میں اس کو نہیں مٹاؤں گا، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وہ دستاویز لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح لکھنا بھی نہ جانتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اللہ کی جگہ لکھا: یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی ہے کہ مکہ میں وہ تلوار کو میان میں اٹھائے بنا داخل نہ ہوں گے، اور مکے کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو وہ اسے ساتھ نہ لے جائیں گے، لیکن اگر ان کے اصحاب میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو وہ اسے نہ روکیں گے۔ جب اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور تین دن کی مدت پوری ہوگئی تو مشرکینِ مکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اپنے صاحب سے کہیے مدت پوری ہوگئی اور اب مکہ سے نکل جائیں ........... چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے ......۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2549]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2699]، [مسلم 1783]، [أبويعلی 1703]، [ابن حبان 4869]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2541 سے 2543)
اس طویل حدیث سے متعدد مسائل معلوم ہوئے۔
ذوالقعدہ حج کے مہینوں میں سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مہینے میں عمرے کے لئے تشریف لے گئے۔
معلوم ہوا کہ حج کے مہینوں میں صرف عمرہ کرنا جائز ہے، نیز یہ کہ مصلحت کے پیشِ نظر کافروں سے صلح کرنا ثابت ہوا، اور اسلام نے صلح سے متعلق خاص ہدایات اس لئے دی ہیں کہ اسلام سراسر امن اور صلح کا علمبردار ہے، اسلام نے جنگ و جدال کو کبھی پسند نہیں کیا۔
قرآن پاک میں ہے: «‏‏‏‏ ﴿وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾ [الأنفال: 61] » اگر دشمن صلح کرنا چاہے تو آپ ضرور صلح کے لئے جھک جایئے۔
پھر یہ صلح حدیبیہ ظاہری طور پر مسلمانوں کے خلاف تھی اور مشرکین نے جو شرطیں رکھیں وہ بالکل نا مناسب تھیں، مگر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے مصالح کے پیشِ نظر ان کو تسلیم فرما لیا، پس مصلحتاً دب کر بھی بعض مواقع پر فیصلہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
سیدنا علی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما اسی لئے کبیدہ خاطر تھے، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مٹا دینے کے لئے کہا تو فرطِ جذبات اور جوشِ ایمان میں ایسا کہا کہ میں نہیں مٹاؤں گا، یہ حکم عدولی نہ تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود سے لکھنا بھی بطورِ معجزہ تھا ورنہ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبیٔ اُمی تھے اور لکھنے پڑھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی تعلق نہ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم اولین و آخرین سے نوازا تھا، اور یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے جو پندرہ سو سال سے اعلان کر رہا ہے کہ اس جیسی ایک ہی آیت لے آؤ، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمی ہونا معجزہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی نہیں بلکہ عین حقیقت ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمی ہونے کا انکار کرے وہ غلطی پر ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے: « ﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ .....﴾ [الأعراف: 157] » ترجمہ: یہ لوگ ایسے اُمی (بے پڑھے لکھے) رسول کی اتباع کرتے ہیں جن کی صفت وہ لوگ توریت و انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہیں ..... اس آیت کے بعد دوسری آیت میں فرمایا: « ﴿فَآمِنُوا بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ .....﴾ [الأعراف: 158] » پس تم ایمان لاؤ الله تعالیٰ پر اور اس کے اُمی رسول پر .....۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه
65. باب في عَبِيدِ الْمُشْرِكِينَ يَفِرُّونَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ:
65. مشرکین کے غلام بھاگ کر مسلمانوں کے پاس آ جائیں اس کا بیان
حدیث نمبر: 2544
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو خالد، عن الحجاج، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس، قال: "خرج إلى النبي صلى الله عليه وسلم عبدان من الطائف، فاعتقهما. احدهما ابو بكرة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "خَرَجَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَانِ مِنَ الطَّائِفِ، فَأَعْتَقَهُمَا. أَحَدُهُمَا أَبُو بَكْرَةَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طائف سے دو غلام بھاگ کر آگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا، ان میں سے ایک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة، [مكتبه الشامله نمبر: 2550]»
حجاج بن ارطاة کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 2564]، [ابن أبى شيبه 15444]، [سعيد بن منصور 2807]، [البيهقي 3019]، [مجمع الزوائد 7359]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2543)
اگر اس حدیث کی سند صحیح مان لی جائے تو اس سے نبیٔ رحمت فخرِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت اور نوع انسان سے الفت و محبت ثابت ہوتی ہے کہ غلام بھاگ کر آئے تو انہیں پھر ذلت و رسوائی کی جہنم میں نہیں دھکیل دیا بلکہ آزاد فرمایا، اور اہلِ طائف سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں تھا کہ ان میں سے کوئی آدمی مسلمانوں کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس لوٹا دیں گے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة
66. باب نُزُولِ أَهْلِ قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ:
66. اہل قریظہ کا سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر ہتھیار ڈالنے کا بیان
حدیث نمبر: 2545
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا احمد بن عبد الله، حدثنا ليث بن سعد، عن ابي الزبير، عن جابر بن عبد الله، انه قال: رمي يوم الاحزاب سعد بن معاذ، فقطعوا ابجله فحسمه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنار، فانتفخت، يده فنزفه فحسمه اخرى، فانتفخت يده فلما راى ذلك قال: اللهم لا تخرج نفسي حتى تقر عيني من بني قريظة، فاستمسك عرقه فما قطر قطرة حتى نزلوا على حكم سعد. فارسل إليه، فحكم ان تقتل رجالهم، وتستحيا نساؤهم وذراريهم ليستعين بهم المسلمون، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اصبت حكم الله فيهم". وكانوا اربع مائة، فلما فرغ من قتلهم، انفتق عرقه فمات.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: رُمِيَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَطَعُوا أَبْجَلَهُ فَحَسَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّارِ، فَانْتَفَخَتْ، يَدُهُ فَنَزَفَهُ فَحَسَمَهُ أُخْرَى، فَانْتَفَخَتْ يَدُهُ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا تُخْرِجْ نَفْسِي حَتَّى تُقِرَّ عَيْنِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ، فَاسْتَمْسَكَ عِرْقُهُ فَمَا قَطَرَ قَطْرَةً حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَكْمِ سَعْدٍ. فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَحَكَمَ أَنْ تُقْتَلَ رِجَالُهُمْ، وَتُسْتَحْيَا نِسَاؤُهُمْ وَذَرَارِيُّهُمْ لِيَسْتَعِينُ بِهِمُ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَصَبْتَ حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ". وَكَانُوا أَرْبَعَ مِائَةٍ، فَلَمَّا فُرِغَ مِنْ قَتْلِهِمُ، انْفَتَقَ عِرْقُهُ فَمَاتَ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جنگِ احزاب میں سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے تیر لگ گیا اور ان کی رگ (ابجل نامی) کٹ گئی جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ سے داغ دیا، ان کا ہاتھ سوج گیا اور پھر سے خون بہنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوباره داغا، پھر ہاتھ سورج گیا۔ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے یہ حال دیکھا (اور موت کا یقین ہو گیا) تو کہا: اے اللہ اس وقت تک میری جان نہ نکالنا جب تک کہ بنی قریظہ سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں (یعنی ان کی ہلاکت دیکھ لوں اللہ کی مشیت سے)، ان کی رگ رک گئی اور اس سے ایک قطرہ بھی خون نہ ٹپکا یہاں تک کہ بنوقریظہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر اتر آئے (یعنی انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے)، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا (یعنی انہیں بلایا، وہ آئے) اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا: ان کے مرد قتل کر دیئے جائیں اور عورتیں زندہ رکھی جائیں تاکہ مسلمانوں کو ان سے مدد ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا، اس وقت بنوقریظہ کے چار سو افراد تھے، جب ان کے قتل سے فارغ ہوئے تو پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی رگ کھل گئی اور وہ انتقال کر گئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وعند مسلم مختصرا، [مكتبه الشامله نمبر: 2551]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ مسلم نے مختصراً اس کو روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [مسلم: كتاب السلام، باب لكل داء دواء] اور ترمذی نے اسی سیاق سے روایت کیا ہے، [ترمذي 1582]۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 4784]، [مشكل الآثار للطحاوي 3579]، [دلائل النبوة للبيهقي 28/4]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2544)
بنوقریظہ قباء میں بسنے والے یہود تھے، مسلمانوں اور ان کے درمیان عہد تھا، لیکن جنگِ احزاب میں انہوں نے بدعہدی کی اور مشرکین کا ساتھ دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن معاذ ودیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے وفد کے ذریعہ انہیں اپنا عہد یاد دلایا، لیکن انہوں نے بدتمیزی کی، کون محمد؟ کیسے مسلمان؟ ہمارا کوئی ان سے عہد نہیں، گالیاں دیں، جس سے بڑی پریشان کن صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی، اسی لئے جنگِ احزاب کے بعد حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر کہا کہ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی۔
ہم بنوقریظہ کی طرف جا رہے ہیں، آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ آیئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا، وہ قلعہ بند ہو گئے، جب محاصرے نے طول پکڑا تو پھر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم بنایا گیا اور ان کے حکم سے بنوقریظ قلعوں سے باہر آئے، جس کا ذکر مذکورہ بالا حدیث میں ہے۔
اس حدیث سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی فضیلت، ان کی بصیرت اور مستجاب الدعوات ہونے کی دلیل ملتی ہے، ایسا زخم جو داغنے سے بھی اچھا نہیں ہوتا، خون گرتا رہتا ہے، دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے بلا دوا خون روک دیا اور پھر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔
بدعہدی کرنے والے مسلمانوں کو گالیاں دینے، اور ان کے بیوی بچوں کے مال و دولت سے کھلواڑ کرنے والے کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا، اور پھر ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرتی ہے۔
سبحان الله العظیم! اللہ کی شان کتنی نرالی، اس کے وعدے کتنے سچے ہیں۔
«وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وعند مسلم مختصرا
67. باب إِخْرَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ:
67. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے اخراج کا بیان
حدیث نمبر: 2546
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن: ان عبد الله بن عدي بن الحمراء الزهري، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على راحلته واقفا بالحزورة , يقول: "والله إنك لخير ارض الله، واحب ارض الله إلى الله، ولولا اني اخرجت منك ما خرجت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْحَمْرَاءِ الزُّهْرِيَّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَاقِفًا بِالْحَزْوَرَةِ , يَقُولُ: "وَاللَّهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللَّهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللَّهِ إِلَى اللَّهِ، وَلَوْلا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ".
سیدنا عبداللہ بن عدی بن حمراء زہری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزوره (مکہ میں ایک مقام کا نام) میں اپنی سواری پر دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: الله کی قسم (اے مکہ) تو اللہ کی ساری زمین سے بہتر ہے اور اللہ کی ساری زمین سے زیادہ تو الله کو محبوب ہے، اگر میں تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نکلتا نہیں (بلکہ مکہ ہی میں رہتا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2552]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3925]، [ابن ماجه 3108]، [أبويعلی 5954]، [ابن حبان 3708]، [موارد الظمآن 1025]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2545)
ہر انسان کو اپنے وطن، اپنی جائے پیدائش سے محبت اور لگن ہوتی ہے، یہ ایک فطری امر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکہ سے بڑی انسیت و محبت تھی، لیکن مشرکینِ مکہ کے ظلم و ستم اور جبر و اکراہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کرنی پڑی اور مکہ چھوڑنا پڑا، اسی کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث میں کیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مکہ اور بیت اللہ الحرام زمین کا افضل ترین حصہ ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ پسند بھی ہے، اسی لئے مسجدِ حرام کی ایک نماز دیگر مساجد سے لاکھ گنا زیادہ ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
68. باب في النَّهْيِ عَنْ سَبِّ الأَمْوَاتِ:
68. مُردوں کو برا کہنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2547
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن الربيع، اخبرنا شعبة، عن سليمان، عن مجاهد، قال: قالت عائشة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تسبوا الاموات، فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مُردوں کو برا مت کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پا لیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2553]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1393]، [نسائي 1935]، [ابن حبان 3021]، [موارد الظمآن 1985]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2546)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں ان کی برائی نہیں کرنی چاہیے، مرنے کے بعد انہیں برا کہنا، ان کے عیب بیان کرنا، ان کے عزیزوں کو ایذا دینا ہے، جبکہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ حکم ہے: «الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ» یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے اس کے مسلمان بھائی محفوظ رہیں۔
یہ حدیث آگے (2751) نمبر پر آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
69. باب: «لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ» :
69. فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے
حدیث نمبر: 2548
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن منصور، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: لما كان يوم فتح مكة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا هجرة بعد الفتح، ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم، فانفروا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا استُنْفِرْتُمْ، فَانْفِرُوا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس فتح کے بعد (مکہ سے) ہجرت نہیں ہے لیکن (اچھی) نیت اور جہاد اب بھی باقی ہے (اس لئے) جب تم کو جہاد کے لئے بلایا جائے تو نکل پڑو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2554]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1834]، [مسلم 1353]، [أبوداؤد 2018]، [ترمذي 1590]، [نسائي 2874]، [أبويعلی 4952]، [ابن حبان 4592]، [شرح السنة للبغوى 2636]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2547)
عہدِ رسالت میں ہجرت کا سلسلہ فتح مکہ پر ختم ہو گیا تھا، کیونکہ مکۃ المکرّمہ اب دار الاسلام بن گیا اور مسلمانوں کو آزادی کے ساتھ وہاں رہنا نصیب ہوگیا، لیکن یہ حکم قیامت تک کے لئے باقی ہے کہ کسی زمانہ میں کسی بھی دار الحرب سے بوقتِ ضرورت مسلمان دارالاسلام کی طرف ہجرت کر سکتے ہیں، اس لئے فرمایا: اپنے دین و ایمان کو بہرحال محفوظ رکھنے کے لئے حسنِ نیت رکھنا ہر زمانہ میں ہر جگہ ہر وقت باقی ہے، ساتھ ہی سلسلۂ جہاد بھی قیامت تک کے لئے باقی ہے، جب بھی کسی جگہ کفر اور اسلام کی معرکہ آرائی ہو اور سربراہ جہاد کے لئے اعلان کرے تو ہر مسلمان کے لئے اس کے اعلان پر لبیک کہنا فرض ہو جاتا ہے، جب مکۃ المکرّمہ فتح ہوا تھوڑی دیر کے لئے مدافعانہ جنگ کی الله تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملی تھی جو وہاں استحکامِ امن کے لئے ضروری تھی، بعد میں وہ اجازت جلد ہی ختم ہوگئی، اور اب مکہ شریف میں جنگ کرنا ہمیشہ کے لئے حرام ہے۔
مکہ ہمیشہ کے لئے دار الامن ہے۔
قیامت تک اسی حیثیت میں رہے گا۔
(راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
70. باب أَنَّ الْهِجْرَةَ لاَ تَنْقَطِعُ:
70. ہجرت کبھی منقطع نہ ہو گی
حدیث نمبر: 2549
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن نافع، عن حريز بن عثمان، عن ابن ابي عوف، وهو: عبد الرحمن، عن ابي هند البجلي وكان من السلف. قال: تذاكروا الهجرة عند معاوية وهو على سريره، فقال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: "لا تنقطع الهجرة حتى تنقطع التوبة ثلاثا ولا تنقطع التوبة حتى تطلع الشمس من مغربها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَوْفٍ، وَهُو: عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ الْبَجَلِيِّ وَكَانَ مِنَ السَّلَفِ. قَالَ: تَذَاكَرُوا الْهِجْرَةَ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عَلَى سَرِيرِهِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ حَتَّى تَنْقَطِعَ التَّوْبَةُ ثَلَاثًا وَلا تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا".
ابوہند بجلی نے کہا جو سلف صالحین میں سے تھے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس لوگوں نے ہجرت کا تذکرہ کیا، وہ اپنے تختِ شاہی پر تھے، انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرمارہے تھے: ہجرت اس وقت تک منقطع نہ ہوگی جب تک کہ توبہ منقطع ہو جائے، تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: اور توبہ اس وقت تک منقطع نہ ہوگی جب تک کہ سورج مغرب سے نکل آئے گا۔ (یعنی قیامت آ جائے گی)۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2555]»
یہ حدیث حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2479]، [أبويعلی 7371]، [النسائي فى الكبريٰ 8711]، [مشكل الآثار للطحاوي 2434]، [طبراني 387/19، 907]، [ابن حبان 4866]، [موارد الظمآن 1579]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2548)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح توبہ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے، ہجرت کا بھی دروازہ کھلا ہے کہ آدمی دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف قیامت تک کسی بھی اضطراری حالت میں ہجرت کر سکتا ہے، تاکہ آزادانہ طور پر اسلامی قوانین اور عبادات کی تعمیل کر سکے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
71. باب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْلاَ الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ» :
71. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا
حدیث نمبر: 2550
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لولا الهجرة، لكنت امرءا من الانصار".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْلا الْهِجْرَةُ، لَكُنْتُ امْرَءًا مِنَ الْأَنْصَارِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2556]»
اس روایت کی سند حسن اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3779]، [أبويعلی 6318]، [ابن حبان 7369]، [الموارد 2292]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2549)
اس حدیث سے انصار کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اسی حدیث میں ہے کہ اگر سارے لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار ہی کی وادی میں چلوں گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث صحيح
72. باب في التَّشْدِيدِ في الإِمَارَةِ:
72. حکومت میں سختی کا بیان
حدیث نمبر: 2551
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن يحيى بن سعيد، عن سعيد بن يسار، عن ابي هريرة: ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: "ما من امير عشرة إلا يؤتى به يوم القيامة، مغلولة يداه إلى عنقه، اطلقه الحق او اوبقه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا مِنْ أَمِيرِ عَشَرَةٍ إِلَّا يُؤْتَى بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَغْلُولَةً يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ، أَطْلَقَهُ الْحَقُّ أَوْ أَوْبَقَهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی بھی دس آدمی پر امیر و حاکم ہے اس کو قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن پر بندھے ہوں گے، حق اس کو چھوڑ دے یا ہلاکت میں ڈال دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2557]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 6570]، [مجمع الزوائد 7079]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2550)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حکومت اور افسر شاہی بڑی خطرناک چیز ہے۔
کوئی بھی عہدہ ملنے کے بعد اگر وہ عہدے دار حق و انصاف کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرے تو خیر ورنہ وہی حال ہوگا جو اوپر حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.