ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو جب محمد بن ابی بکر کی ولادت پر شجرہ کے پاس نفاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ”(ان سے کہیں) غسل کر کے احرام باندھ لیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1845]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1209]، [أبوداؤد 1743]، [ابن ماجه 2911]، [أحمد 369/6]
وضاحت: (تشریح حدیث 1841) شجرہ ذوالحلیفہ میں ایک درخت تھا جہاں محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی، آج جو مسجد میقات پر تعمیر ہے وہ اسی مقام پر ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا جرير، عن يحيى بن سعيد، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر، في حديث اسماء بنت عميس، حين نفست بذي الحليفة، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر ان يامرها ان "تغتسل وتهل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، فِي حَدِيثِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، حِينَ نُفِسَتْ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يَأْمُرَهَا أَنْ "تَغْتَسِلَ وَتُهِلَّ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان کو ذوالحلیفہ میں نفاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ”ان سے کہیں غسل کر کے احرام باندھ لیں۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1842) ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوا کہ جو عورت حج کے ارادے سے نکلے اور اس کو حیض یا نفاس آجائے تو غسل کرنے کے بعد احرام باندھے اور تلبیہ کہے اور ہر وہ کام کرے جو حاجی کرتے ہیں، بس بیت اللہ الحرام کا طواف نہ کرے، جیسا کہ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، بیت اللہ کا طواف ایام سے فارغ ہو کر غسل کرنے کے بعد کرے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد احرام باندھا اور لبیک پکارا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1848]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1541]، [مسلم 1185، 1186، 1187]، [أبوداؤد 1747]، [نسائي 2682]، [ابن ماجه 3047]
وضاحت: (تشریح احادیث 1843 سے 1845) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد احرام باندھا اور تلبیہ کہا۔ اس سے بعد نمازِ ظہر احرام باندھنا ثابت ہوا، نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کے لئے کوئی نماز نہیں پڑھی تھی بلکہ فرض نماز کے بعد احرام باندھا، لہٰذا احرام باندھنے کے وقت احرام کی نیّت سے نماز پڑھنا درست نہیں، ہاں اگر مسجد میں جانا ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھی جا سکتی ہے۔ نیز ان احادیث سے ثابت ہوا کہ احرام میقات سے ہی باندھنا چاہیے۔ تلبیہ کہنے کے بارے میں روایات کا اختلاف ہے، اور مسلم شریف میں احرام کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں سے احرام باندھا تھا؟ بعض راوی مسجد ذوالحلیفہ سے بتاتے ہیں، بعض نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکل کر اونٹنی پر سوار ہوئے، بعض نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیداء کی بلندی پر پہنچے تو احرام باندھا اور تلبیہ کہا، یہ اختلاف درحقیقت اختلاف نہیں ہے کیونکہ ان تینوں مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری ہوگی اور بعض صحابہ کرام نے اول اور دوسرے مقام پر نہ سنی ہوگی، بعضوں نے اول کی نہ سنی ہوگی دوسرے کی سنی ہوگی، تو ان کو یہی گمان ہوا کہ یہیں سے احرام باندھا (وحیدی)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى يعني ابن سعيد، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا لبى، قال: "لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك". قال قال يحيى: وذكر نافع ان ابن عمر كان يزيد هؤلاء الكلمات: "لبيك والرغباء إليك والعمل، لبيك لبيك"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَبَّى، قَالَ: "لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ". قَالَ قَالَ يَحْيَى: وَذَكَرَ نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَزِيدُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ: "لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ، لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ"..
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تلبیہ کہتے تھے: «لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ .......... إلى آخرها» یعنی میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں تیری خدمت میں سب تعریف اور نعت تیرے ہی لئے ہے اور سلطنت بھی تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں، یحییٰ نے کہا: نافع نے ذکر کیا سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما اس میں اتنا اور بڑھاتے تھے: «لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ، لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ.»
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1849]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1549]، [مسلم 1484]، [أبوداؤد 1814]، [ترمذي 829]، [نسائي 2752]، [ابن ماجه 2918، 2922]، [أبويعلی 5692]، [ابن حبان 3799]، [الحميدي 675]
وضاحت: (تشریح حدیث 1845) احرام باندھنے کے بعد بیت اللہ الحرام تک پہنچنے کے دوران تلبیہ یعنی «اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ» کہنا ضروری ہے اور کثرت سے کہنا چاہیے، یہ تلبیہ جواب ہے اس ندا کا جس کا اعلان ابراہیم علیہ السلام نے کیا « ﴿وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا﴾[الحج:27] »”اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے، وہ تیرے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے۔ “ اسی کے جواب میں حاجی و معتمر کہتے ہیں: اے رب! ہم تیری خدمت میں تیرے گھر کا طواف و سعی اور تیرا ذکر بلند کرنے کیلئے حاضر ہیں۔ مشروع و مرفوع تلبیہ اسی طرح ہے: «لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ.» سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس میں «لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ، لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ.» کا اضافہ کیا جو ان کی اپنی صواب دید سے تھا، جس کو کچھ علماء نے جائز کہا اور کچھ علماء نے ناجائز، اور جتنے الفاظ رسولِ ہدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں اسی پر اکتفا کیا جائے تو بہتر ہے، واللہ اعلم وعلمہ اتم۔
خلاد بن سائب نے اپنے والد سیدنا سائب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا: انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا کہ اپنے اصحاب کو حکم دیجئے کہ وہ بآواز بلند لبیک کہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1850]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1814]، [ترمذي 829]، [نسائي 2752]، [ابن ماجه 2922]، [صحيح ابن حبان 3802]، [موارد الظمآن 290/3]، [الحميدي 876، وغيرهم]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1851]» تخریج و ترجمہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1846 سے 1848) ایک روایت میں یہ اضافہ ہے: «فَإِنَّهَا مِنْ شِعَارِ الْحَجَّ.» یعنی تلبیہ حج کا شعار ہے، اسی لئے بعض حنفیہ نے کہا کہ تلبیہ واجب ہے اگر چھوڑ دیا تو دم لازم آئے گا، امام مالک رحمہ اللہ نے بھی تقریباً ایسے ہی کہا: واجب نہیں لیکن ترک پر دم لازم آئے گا، امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: لبیک کہنا سنّت ہے واجب نہیں، اور تلبیہ کہتے وقت آواز بلند کرنا صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں، نیز ہر شخص کو اپنے طور پر کہنا چاہیے، اجتماعی طور پر لبیک کہنا درست نہیں۔ واللہ علم۔ مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ حاجی یا معتمر ممکن ہو تو میقات پر غسل کرے، پھر بدن پر خوشبو لگائے، چادریں اوڑھے اور پھر تلبیہ کہے جو حج و عمرہ میں دخول کی لفظی نیّت ہے، صرف حج کی نیت ہو تو لبیک حجۃ کہے، صرف عمرے کی نیت ہو تو لبیک عمرۃ، اور حج و عمرہ دونوں کی نیت ہو تو لبیک حجۃ و عمرة یا جس حج کی نیت ہو کہنا چاہے، واضح رہے کہ الفاظ میں نیت صرف حج و عمرہ کے لئے آئی ہے، نماز کی نیت الفاظ میں ضروری ہوتی تو حج کی نیت کی طرح اس کا بھی ذکر ہوتا جبکہ نماز توحید کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن ہے، اس لئے نمازی کا زبان سے کہنا کہ میں نماز پڑھتا ہوں ........... بدعت و نئی چیز ہے جس کا احادیثِ صحیحہ میں کوئی ثبوت نہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ثابت بن يزيد، حدثنا هلال بن خباب، قال: فحدثت عكرمة فحدثني، عن ابن عباس: ان ضباعة بنت الزبير بن عبد المطلب، اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني اريد ان احج، فكيف اقول؟ قال:"قولي: لبيك اللهم لبيك، ومحلي حيث تحبسني، فإن لك على ربك ما استثنيت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ خَبَّابٍ، قَالَ: فَحَدَّثْتُ عِكْرِمَةَ فَحَدَّثَنِي، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَحُجَّ، فَكَيْفَ أَقُولُ؟ قَالَ:"قُولِي: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، وَمَحِلِّي حَيْثُ تَحْبِسُنِي، فَإِنَّ لَكِ عَلَى رَبِّكِ مَا اسْتَثْنَيْتِ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدہ ضباعہ بنت الزبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا حج کرنے کا ارادہ ہے تو میں کیسے (نیت) کہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ایسے کہو: «لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ وَمَحِلِّىْ حَيْثُ تَحْبِسُنِيْ.» یعنی میں حاضر ہوں اے الله میں حاضر ہوں اور میری جگہ احرام کھولنے کی وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے، اس طرح تو نے جو شرط لگائی وہ تیرے پروردگار پر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1852]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1207]، [أبوداؤد 1776]، [ترمذي 941]، [نسائي 2765]، [أبويعلی 2480]، [ابن حبان 3775]
وضاحت: (تشریح حدیث 1848) احرام کے وقت اس طرح شرط لگانا کہ اگر مکہ تک پہنچنا نہ ہوگا تو جہاں تک پہنچ سکوں وہیں احرام کھول دوں گا، اس شرط کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو احرام کھولنا درست ہوگا، جہاں وہ بیماری کی وجہ سے مجبور ہو جاوے اور آگے نہ جا سکے، اور ہدی کے منیٰ میں ذبح ہونے کا انتظار نہ کرنا پڑے، جیسے اور احصار میں ہوتا ہے۔ (وحیدی) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بعض علماء کا اسی پر عمل ہے کہ حج میں اس طرح شرط لگانا جائز ہے، پھر اگر کوئی حاجی بیمار ہو جائے یا معذور ہو تو احرام کھول دے، اور بعض علماء کے نزدیک چاہے شرط لگائے یا نہ لگائے احرام فسخ کرنا جائز نہیں، لیکن قولِ اوّل صحیح ہے جو امام شافعی، امام احمد و امام اسحاق رحمہم اللہ کا مسلک ہے۔ والله اعلم
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1853]» اس روایت کی سند جید اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1211/122]، [أبوداؤد 1777]، [ترمذي 820]، [نسائي 2714]، [ابن ماجه 2964]، [أبويعلی 4361]، [ابن حبان 3934]
وضاحت: (تشریح حدیث 1849) حج کی تین اقسام ہیں: افراد، قران اور تمتع۔ مذکور بالا حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجِ مفرد کیا، اور حجِ مفرد یہ ہے کہ حاہی میقات سے صرف حج کی نیّت کر تے ہوئے کہے: لبیک حجۃ اور طواف و سعی کے بعد احرام کی ہی حالت میں رہے یہاں تک کہ رمی اور حلق سے فارغ ہو جائے، مفرد حاجی پر قربانی واجب نہیں، اور یہ حج کی ایک قسم ہے جو صحیح ہے، اور یہاں افراد سے مراد حجِ قرآن ہے کیونکہ معروف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد صرف ایک بار حج کیا، جیسا کہ حدیث (1824) میں گذر چکا ہے، اور وہ حجِ قران تھا، جیسا کہ آگے (1888) میں آ رہا ہے۔
(حديث موقوف) اخبرنا سليمان بن حرب، اخبرنا ابو هلال، حدثنا قتادة، عن مطرف، قال: قال عمران بن حصين: إني محدثك بحديث لعل الله ان ينفعك به بعد، إنه كان يسلم علي وإن ابن زياد امرني فاكتويت، فاحتبس عني حتى ذهب اثر المكاوي، واعلم ان "المتعة حلال في كتاب الله، لم ينه عنها نبي، ولم ينزل فيها كتاب"، قال رجل برايه ما بدا له.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو هِلَالٍ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ مُطَرِّفٍ، قَالَ: قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ: إِنِّي مُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهِ بَعْدُ، إِنَّهُ كَانَ يُسَلَّمُ عَلَيَّ وَإِنَّ ابْنَ زِيَادٍ أَمَرَنِي فَاكْتَوَيْتُ، فَاحْتُبِسَ عَنِّي حَتَّى ذَهَبَ أَثَرُ الْمَكَاوِي، وَاعْلَمْ أَنَّ "الْمُتْعَةَ حَلَالٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ، لَمْ يَنْهَ عَنْهَا نَبِيٌّ، وَلَمْ يَنْزِلْ فِيهَا كِتَابٌ"، قَالَ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا بَدَا لَهُ.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں بعد میں اس سے فائدہ پہنچائے، مجھ سے فرشتے سلام کرتے تھے، ابن زیاد نے مجھ کو حکم دیا مسوں کو داغ لگا لوں، (چنانچہ ایسا کرنے پر) وہ سلام رک گیا یہاں تک کہ میرے داغنے کا نشان ختم ہو گیا (تو پھر سلام ہونے لگا)، اور سنو عمرے کے بعد احرام کھول دینے کو کتاب اللہ نے حلال کیا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس سے روکا اور نہ قرآن پاک میں اس کی ممانعت آئی، ایک آدمی نے اپنی رائے سے صحیح سمجھتے ہوئے ایسا کہہ دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي هلال الراسبي: محمد بن سليم ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1854]» اس روایت کی سند حسن اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1571]، [مسلم 1226 فى كتاب الحج: باب جواز التمتع]، [أحمد 436/4]، [ابن حبان 3937]
وضاحت: (تشریح حدیث 1850) اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ امیر المومنین سیدنا عثمان و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما حجِ تمتع یا عمرے کے بعد احرام کھول دینے سے منع کرتے تھے اشارہ انہیں کی طرف ہے، یہ ان کا اجتہاد تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجِ قران کیا تھا اور عمرے کے بعد بھی احرام کی حالت میں رہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ احرام کھول دو، اگر میں ہدی نہ لایا ہوتا تو میں بھی ایسا ہی کرتا، اس لئے اکثر صحابہ نے احرام کھول دیا تھا اور متعہ یا تمتع کے قائل تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کی مخالفت کرتے تھے، تفصیل آگے 78 ویں باب میں آ رہی ہے۔ نیز سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا قضیہ یہ ہے کہ انہیں بواسیر کا شدید مرض تھا لیکن وہ صبر کرتے تھے اور اللہ سے اجر کے متمنی تھے اس لئے فرشتے ان سے آ کر سلام کرتے تھے، جب انہوں نے بواسیری مسوں کو آگ سے دغوا لیا تو سلام کا یہ سلسلہ موقوف ہو گیا۔ اس میں اس صحابیٔ جلیل کی عظمت و منزلت ہے کہ فرشتے آ کر سلام کرتے ہیں اور بالکل یہی کیفیت کہ: دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ (رضی اللہ عنہ و ارضاه)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي هلال الراسبي: محمد بن سليم ولكن الحديث متفق عليه