سیدنا ابوقتادة رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اقامت کہی جائے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے دیکھ نہ لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1297]» یہ حدیث بھی صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 708]، [مسلم 469]
وضاحت: (تشریح احادیث 1294 سے 1296) امام اگر مسجد میں موجود نہ ہو تو جب تک اس کو آتے ہوئے لوگ دیکھ نہ لیں نماز کے لئے کھڑے نہ ہوں۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت تھی، مبادا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر نکلنے میں دیر ہو اور لوگ کھڑے کھڑے تھک جائیں۔ اس سلسلے میں علماء کے کئی اقوال ہیں، صحیح یہ ہے کہ امام مسجد میں موجود ہو تو اقامت شروع ہوتے ہی کھڑے ہو جائیں اور حی علی الصلاة يا قد قامت الصلاة کا انتظار نہ کریں، کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کھڑے بھی ہوں تو اقامت شروع ہوتے ہی بیٹھ جاتے ہیں اور جب مؤذن قد قامت الصلاۃ کہتا ہے تب سب کھڑے ہوتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ احادیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ واللہ علم۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی صفیں برابر رکھو، کیونکہ صفوں کا برابر رکھنا نماز کو کامل کرنا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1298]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 723]، [مسلم 433]، [أبويعلی 2997]، [ابن حبان 2171]
وضاحت: (تشریح حدیث 1296) یعنی صفیں سیدھی رکھنا نماز کو تمام و کمال تک پہنچانے کا ایک سبب ہے، اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صفیں سیدھی رکھنے کے لئے بڑا اہتمام فرماتے تھے اور ہمیشہ اس کی تاکید کرتے اور صف میں سیدھے کھڑے نہ ہونے پر وعید سناتے تھے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، اخبرني طلحة بن مصرف، قال: سمعت عبد الرحمن بن عوسجة، عن البراء بن عازب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "سووا صفوفكم لا تختلف قلوبكم". قال: وكان يقول:"إن الله وملائكته يصلون على الصف الاول او الصفوف الاول"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي طَلْحَةُ بْنُ مُصَرِّفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْسَجَةَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "سَوُّوا صُفُوفَكُمْ لَا تَخْتَلِفُ قُلُوبُكُمْ". قَالَ: وَكَانَ يَقُولُ:"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْأَوَّلِ أَوْ الصُّفُوفِ الْأُوَلِ"..
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی صفیں برابر رکھو تاکہ تمہارے دلوں میں اختلاف نہ پڑ جائے“، راوی نے کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”بیشک اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے دعا کرتے ہیں پہلی صف والوں پر“، یا یہ کہا: ”پہلی صفوں والوں پر۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1297) یعنی صف کو پورا کرنا باعثِ ثواب ہے، ایک حدیث میں ہے: جو شخص صف ملائے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت سے ملا دے گا، اور جو صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کو کاٹ دے گا۔ دیکھئے: [أبوداؤد 661]، [نسائي 822]، اس حدیث میں پہلی صف میں کھڑے ہونے والوں کی فضیلت ہے۔
سیدنا عرباض بن ساريۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف کے لئے تین بار مغفرت کی دعا کرتے تھے اور دوسری صف والوں کے لئے ایک بار مغفرت طلب کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لإنقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 1300]» اس سند میں خالد بن معدان کا لقاء عرباض بن ساریہ سے ثابت نہیں اس لئے ضعیف ہے، لیکن یہ حدیث [نسائي 819] اور [ابن ماجه 996] میں خالد بن معدان عن جبیر بن نفیر عن العرباض سے صحیح سند سے مروی ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں آ رہا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لإنقطاعه
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن عمارة بن عمير، عن ابي معمر، عن ابي مسعود الانصاري، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح مناكبنا في الصلاة ويقول: "لا تختلفوا، فتختلف قلوبكم، ليليني منكم اولو الاحلام والنهى، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم". قال ابو مسعود: فانتم اليوم اشد اختلافا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ مَنَاكِبَنَا فِي الصَّلَاةِ وَيَقُولُ: "لَا تَخْتَلِفُوا، فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ، لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ". قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: فَأَنْتُمْ الْيَوْمَ أَشَدُّ اخْتِلَافًا.
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے تھے: آگے پیچھے نہ کھڑے ہو کہ تمہارے دلوں میں اختلاف پڑ جائے (یعنی پھوٹ پڑ جائے گی)، میرے پاس تم میں سے عقلمند و ہوشیار لوگ کھڑے ہوں، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں، اس کے بعد سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: آج تم لوگوں میں بے انتہا اختلاف پیدا ہو گئے ہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1300) سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ کے ایسا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صفوں میں برابر کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے نہ ہونے کی وجہ سے پھوٹ پڑ گئی ہے اور اختلافات رونما ہو گئے ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا يزيد بن زريع، عن خالد، عن ابي معشر، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ليليني منكم اولو الاحلام والنهى، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم. ولا تختلفوا فتختلف قلوبكم. وإياكم وهوشات الاسواق".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ. وَلَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ. وَإِيَّاكُمْ وَهَوْشَاتِ الْأَسْوَاقِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے قریب عقلمند اور سمجھدار لوگ کھڑے ہوں، پھر جو ان سے کم درجہ ہیں، اور پھر وہ جو ان سے بھی کم درجہ ہیں، اور آگے پیچھے کھڑے نہ ہو اس سے تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑ جائے گی، نیز بازاری حرکات سے پرہیز کرو۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1301) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام کے پاس صاحبِ عقل و شعور اور پڑھے لکھے لوگ کھڑے ہوں تاکہ بوقتِ ضرورت وہ امام کی نیابت کر سکیں اور بھول چوک ہو تو تدارک کر سکیں، پھر وہ لوگ کھڑے ہوں جو اوسط درجہ رکھتے ہوں، پھر دوسرے لوگ کھڑے ہوں۔ واضح رہے کہ یہ حکم صرف نماز کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر مجلس میں صاحبانِ علم و فضل کی عزت افزائی کی جائے۔ «(ملخص از شرح مسلم، علامه وحيد الزمان)» ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن عجلان، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "خير صفوف الرجال اولها، وشرها آخرها، وخير صفوف النساء آخرها، وشرها اولها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا، وَشَرُّهَا آخِرُهَا، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا، وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں کی صفوں میں بہتر صف پہلی صف ہے اور آخری صف بدتر صف ہے، اور عورتوں کی صفوں میں بہتر آخری صف اور بدتر پہلی صف ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1304]» یہ حدیث اس سند سے حسن لیکن دوسری اسانید سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 441]، [نسائی 819]، [ابن حبان 2179]، [الحمیدی 1030]
وضاحت: (تشریح حدیث 1302) مردوں کی پہلی صف امام سے قریب عورتوں سے بعید ہونے کے سبب بہترین صف ہے، اور آخری صف بد ترین ہے کیونکہ امام سے دور اور عورتوں سے قریب ہے، اسی طرح عورتوں کی پہلی صف مردوں سے قریب ہونے کے سبب بدتر اور آخری صف مردوں سے دور ہونے کے سبب اچھی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایسی صورت میں ہے جب عورتوں کے لئے الگ سے مصلی نہ ہو اور مردوں اور عورتوں کے درمیان حاجز نہ ہو۔ بہتر اور بدتر سے مراد یہ ہے کہ مردوں کی پہلی صف کا ثواب و اجر زیادہ اور آ خری کا کم ہے، اسی طرح عورتوں کی صفیں ہیں، اور یہ اس لئے کہ مرد و عورت کے آمنے سامنے صف میں کھڑے ہونے پر شیطان دل میں وسوسے ڈال سکتا ہے۔ والله اعلم
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن عبد الله بن ابي بصير، عن ابي بن كعب، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح، ثم اقبل علينا بوجهه، فقال:"اشاهد فلان؟ قالوا: لا، فقال: اشاهد فلان، فقالوا: لا، لنفر من المنافقين لم يشهدوا الصلاة، فقال:"إن هاتين الصلاتين اثقل الصلاة على المنافقين، ولو يعلمون ما فيهما لاتوهما ولو حبوا". [إلى قوله عليه الصلاة والسلام ولو حبوا: إسناده صحيح] قال ابو محمد: عبد الله بن ابي بصير قال: حدثني ابي، عن ابي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وسمعته من ابي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَصِيرٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:"أَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟ قَالُوا: لَا، فَقَالَ: أَشَاهِدٌ فُلَانٌ، فَقَالُوا: لَا، لِنَفَرٍ مِنْ الْمُنَافِقِينَ لَمْ يَشْهَدُوا الصَّلَاةَ، فَقَالَ:"إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ أَثْقَلُ الصَّلَاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا". [إلى قوله عليه الصلاة والسلام ولو حبوا: إسناده صحيح] قَالَ أَبُو مُحَمَّد: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أُبَيٍّ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتُهُ مِنْ أُبَيٍّ.
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز ادا کی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا: ”فلاں شخص حاضر ہے؟“ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”فلاں آدمی حاضر ہے؟“ عرض کیا: نہیں، آپ نے کئی منافقین کے نام لے کر پوچھا جو نماز میں حاضر نہیں تھے (پھر) فرمایا: ”یہ دونوں نمازیں (فجر اور عشاء) منافقین پر بہت زیادہ بھاری (ہوتی) ہیں، لیکن اگر وہ ان کی فضیلت (اجر و ثواب) کو جان لیں تو گھسٹتے ہوئے ان دونوں نمازوں میں چلے آئیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن ابی بصیر نے کہا: مجھ سے میرے والد نے یہ حدیث بیان کی اور انہوں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور میں نے اپنے باپ سے اس کو سنا۔
تخریج الحدیث: «إلى قوله عليه الصلاة والسلام ولو حبوا: إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1305، 1306]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 551]، [نسائي 846]، [ابن ماجه 790]، [ابن حبان 2056]، [الموارد 429]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إلى قوله عليه الصلاة والسلام ولو حبوا: إسناده صحيح